شاہ نعمت ﷲ ولی کی پیشن گوئیاں اصلی ہیں یا فراڈ؟


چند دن قبل محترم حامد میر کا عمران خان کے دورۂ ایران اور خارجہ پالیسی سے متعلق ایک کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے شاہ نعمت اللہ ولی کے پیشن گوئیوں پر مشتمل اشعار کا ذکر کیا۔ جدید اردو صحافت میں ان ”نام نہاد“ پیشن گوئیوں کا بڑھا چڑھا کر ذکر ہوتا رہا ہے۔ اس سے پہلے محترم ہارون رشید، زید حامد، اوریا مقبول جان اور اس قبیل کے بے شمار افراد شاہ نعمت اللہ ولی کے مبینہ کلام کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ راقم کا ان پیشن گوئیوں سے پہلا تعارف آج سے چند سال قبل ہوا جب دفتر کے ایک ساتھی نے نہایت ہی تاکید کے ساتھ اس بیش بہا اور نادر کلام کا ایک الیکٹرانک مترجم نسخہ بندہ کو پڑھنے کے لیے دیا۔

مرتا کیا نا کرتا کے مصداق جب راقم نے اس کلام کا مطالعہ شروع کیا تو پہلی ہی نظر میں پورا کلام، شروع کے چند اشعار چھوڑ کر، نہایت ہی عامیانہ، سطحی اور مہمل گوئی کا شاہکار نظر آیا۔ اپنی متجسس اور متشکک طبیعت کے سبب جب اس کلام اور شاہ نعمت اللہ ولی کی شخصیت پر تحقیق شروع کی تو علم و آگہی کے ایسے راز آشکار ہوئے جو ناقابل بیان ہیں۔

سب سے پہلے شاہ نعمت اللہ ولی کی شخصیت کے بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاہ نعمت اللہ ولی ایک مشہور عالم اور صوفی بزرگ گزرے ہیں جن کا مزار ایران کے علاقے کرمان کے شہر ماھان میں واقع ہے۔ روایت کے مطابق شاہ نعمت اللہ ولی کی پیدائش حلب شام میں ہوئی لیکن حصول علم اور راہ سلوک میں مختلف علاقوں سے ان کا گزر ہوا۔ شاہ نعمت اللہ ولی ایک قادر الکلام اور صاحب دیوان شاعر بھی تھے۔ انہوں نے طویل عمر پائی اور سو برس سے زیادہ زندگی کے بعد 1431 عیسوی میں ماھان میں وفات پائی۔

انہیں سے منصوب نعمت اللہی سلسلۂ تصوف ہے جس کے ہزاروں معتقدین دنیا بھر میں آج بھی موجود ہیں۔ ان کی شہرت جنوبی ہند تک بھی پہنچی جہاں کے بہمنی سلاطین نے انہیں دکن آنے کی دعوت دی لیکن خرابی صحت اور زیادتی عمر کی وجہ سے انہوں نے خود جانے کے بجائے اپنے پوتے کو بھیجا۔ بعد میں شاہ نعمت اللہ ولی کے واحد فرزند بھی دکن ہجرت کر گئے۔ بیدار میں ان کی اولاد کے مزارات مرجع خاص و عام ہیں۔

اب آتے ہیں شاہ نعمت اللہ ولی کے ان اشعار کی ساخت اور تاریخ پر جو ان کی وجہ شہرت بنی۔ شاہ نعمت اللہ ولی کی پیشن گوئیاں فارسی زبان میں قصیدہ کے صنف میں لکھی گئی ہیں۔ دراصل یہ تین قصائد کا مجموعہ ہے، جن کی اپنی الگ الگ تاریخ ہے۔ پہلے قصیدہ میں ”می بینم“ یعنی ”میں دیکھ رہا ہوں“ بطور ردیف استعمال ہوا ہے، جب کہ دوسرے قصیدہ کی ردیف ”پیدا شود“ یعنی ”ہو جائے گا“ پر مشتمل ہے، اور تیسرے قصیدہ کی کوئی ردیف نہیں، بس ہر شعر کے آخر میں ”آنہ“ کا قافیہ ہے۔ یہ تینوں قصائد ایک ہی شاعر شاہ نعمت اللہ ولی سے منسوب کیے جاتے ہیں۔

پہلا قصیدہ:

تمام محققین اس بات پر متفق ہیں کہ پہلا قصیدہ شاہ نعمت اللہ ولی کا ہی کلام ہے۔ ان کے مطبوعہ مجموعہ کلام اور دیوان میں پیشن گوئیوں پر مشتمل پہلا قصیدہ ہی شامل ہے۔ پہلا قصیدہ لب ولہجہ اور شعری تکنیک کے اعتبار سے ایک مکمل اور خوبصورت کلام ہے۔ پہلے قصیدہ میں ہندوستان کا ذکر صرف ایک شعر میں ہے :

حال ہندو خراب می بینم، جور ترک و تاتار می بینم
(میں ہندوؤں کو خراب حالت میں دیکھ رہا ہوں، ان پر ترک اور تاتاروں کا ظلم دیکھ رہا ہوں )

شاید یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر پہلے قصیدہ کے اشعار کا ذکر، دوسرے اور تیسرے قصیدہ کے اشعار کے مقابلے میں ناپید ہوتا چلا گیا۔

دوسرا قصیدہ:

دوسرا قصیدہ ہمیشہ اس شعر سے شروع کیا جاتا ہے :
راست گویم بادشاہی در جہان پیدا شود
نام تیموری بود صاحب قران پیدا شود
(یقینا اس دنیا میں ایک بادشاہ آئے گا، تیمور نام کا ایک صاحب قراب پیدا ہوگا)

اس کے بعد اس قصیدہ میں مغل شہنشاہوں کی نام کے ساتھ فردا فردا پیشن گوئی ہندوستان پر برطانوی سامراج کے تسلط تک کی گئی ہے۔ قصیدہ کے مطابق انگریز سو سال تک ہندوستان پر راج کریں گے اور اس کے بعد ایک مسلمان بادشاہ آئے گا جو برطانوی جبر و تسلط کو تخت و تاراج کرے گا۔ مسلمانوں کا دور 40 تک رہے گا، جس کے بعد دجال کا ظہور اصفہان سے ہوگا، جس کے فورا بعد مہدی موعود کا ظہور ہوگا۔ امام مہدی، مسیح موعود کے ساتھ مل کر دنیا سے جبر و ظلم کی حکومت کا خاتمہ روز قیامت تک کریں گے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ مختلف اشاعتوں میں جن اشعار میں تاریخ کہی گئی ہے (ابجد کے اصولوں کے مطابق) ان میں وقتا فوقتا تحاریف کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک شعر میں اس قصیدہ کی تاریخ 570 ہجری قمری ( 1174 عیسوی) کہی گئی ہے، جب کہ کچھ ایڈیشنز میں 770 ہجری قمری ( 1368 عیسوی) کہی گئی ہے۔ ایک اور جگہ ظہور امام مہدی کی تاریخ 1380 ہجری قمری ( 1960 عیسوی) کہی گئی ہے، لیکن بعد کے ایڈیشنز میں اس کو 1680 ہجری قمری ( 2152 عیسوی) سے تبدیل کیا گیا ہے۔ طوالت میں دوسرے قصیدہ کا ایک ایڈیشن 28 اشعار پر مشتمل ہے، ایک میں 40 اشعار، جب کہ زیادہ تر ایڈیشنز میں اشعار کی تعداد 35 سے 37 ہے۔

تیسرا قصیدہ:

تیسرا قصیدہ ان تینوں قصیدوں میں سب سے زیادہ مجہول اور مشکوک ہے۔ فارسی زبان سے تھوڑی سی بھی آشنائی رکھنے والے شخص کے لیے یہ قصیدہ بھیانک خواب کی مانند ہے۔ اس قصیدہ کی زبان نہایت ہی سطحی اور کئی جگہوں پر مہمل ہے۔ اس کے اشعار کی تعداد میں بھی مختلف نسخہ جات میں بہت زیادہ تضاد پایا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام نسخہ جات میں ایک قدر مشترک ہے جو اس قصیدہ کا مقطع ہے :

خاموش نعمت اللہ اسرار حق مکن فاش
در سال کنت و کنزا باشد چنین بیانہ
(اے نعمت اللہ خاموش ہوجا، رب کے رازوں کو ظاہر نا کر، کنت و کنزا ( 548 ہجری قمری) کے سال میں یہ بیان کیا گیا)
اس قصیدہ کا مختصر ترین نسخہ 25 اشعار پر مشتمل ہے جب کہ طویل ترین نسخہ میں 99 اشعار ہیں۔

تیسرے قصیدہ کا آغاز مغلوں کے ہندوستان پر حکومت اور پھر نصاری کے حکومت میں آنے سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ قصیدہ ایک چوں چوں کا مربہ بن جاتا ہے جس میں ہندوستان اور پاکستان میں بیسویں صدی میں پیش آنے والے تمام واقعات کو کسی نا کسی طرح قصیدہ کا حصہ بنایا گیا ہے اور واقعات کی تاریخی ترتیب کا بالکل بھی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اس قصیدہ میں جا بجا حقائق کی غلطیاں ہیں، مثال کے طور پر یہ شعر:

چترال، نانگا پربت، یاسین، ملک گلگت
پس ملک ہای تبت گیر نار جنگ آنہ
(چترال، نانگا پربت، گلگت اور تبت کے پاس کا علاقہ میدان جنگ بنے گا)

یہاں پر ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کی ”نانگا پربت“ انیسویں صدی کے وسط تک، غالبا 1854 میں دریافت ہوا تھا اور اس سے پہلے دنیا اس عظیم پہاڑ کے وجود سے بے خبر تھی۔ مقامی لوگ اس پہاڑ کو دیامر یا دیو میر ”عظیم پہاڑ“ کے نام سے جانتے تھے۔ اب کیسے 5 یا 7 صدی قبل اس قصیدہ میں ”نانگاپربت“ کا نام استعمال ہوا، یہ آج تک ایک معمہ ہے۔

ان قصائد کے متن پر غور و خوض سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلے قصیدہ کہ برعکس دوسرے اور تیسرے قصیدہ کا شاہ نعمت اللہ ولی کہ دیوان میں کوئی ذکر نہیں، بلکہ کسی بھی ہم عصر فارسی شاعر کہ کسی بھی تخلیقی کام میں ان کا کہیں بھی کوئی اثر نہیں۔ ہندوستان کا ذکر پہلے قصیدہ میں ایک شعر میں سرسری سا ہے، جب کہ دوسرے اور تیسرے قصیدہ میں ساری توجہ دہلی، پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کے حالت زار پر ہے۔ بنگال اور کیرالہ کے مسلمانوں کا کوئی تذکرہ نہیں!

اب اس نکتہ کی طرف آتے ہیں کہ یہ قصائد کیسے مسلمانان بر صغیر کی سیاسی گفتگو میں رائج ہوئے۔ ان قصائد کی شہرت، شاہ اسماعیل دہلوی سے منصوب کتاب ”الاربعین فی احوال المھدیین“ کی 1851 میں اشاعت سے ہوئی۔ ناشر نے شاہ اسماعیل کی کتاب کہ اختتام پر اس نوٹ کے ساتھ پہلے قصیدہ کو چھاپا:

”نعمت اللہ ولی جو کہ ایک صاحب باطن شخص ہیں اور ہندوستان کے اولیائے کامل میں سے ایک کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ دہلی کے اطراف میں پیدا ہوئے اور ان کا زمانہ، ان کے اشعار کے مطابق جو ہندوستان میں کافی مقبول ہیں، 560 ہجری قمری ( 1165 عیسوی) ہے۔ چونکہ ان اشعار میں مہدی موعود کے خصائص بیان کیے گئے ہیں اس لیے ان اشعار کو یہاں پر زیور طبع سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔ 25 محرم 1268 ہجری کو یہ تحریر لکھی گئی“

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ نعمت اللہ ولی کے پہلے قصیدہ سے ہندوستان کی عوام واقف تو ضرور تھی مگر اس کے خالق سے چنداں آشنائی نا تھی۔ اس لیے ان اشعار کو کسی دہلی کے نعمت اللہ ولی سے جوڑا گیا جس کا تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔

دوسرے قصیدہ کا پہلا ذکر پہلی دفعہ 1866 میں ایک برطانوی مجسٹریٹ T۔ E Ravenshaw کے ایک مقدمہ سے متعلق ان کے تاثرات میں آیا۔ ریونشا اس بارے میں لکھتے ہیں :

”یہ ایک قصیدہ ہے جو مولوی نعمت اللہ نے لکھا ہے جس میں تاج برطانیہ کے 1279 ہجری ( 1853 ) میں سقوط کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ برطانوی حکومت گرنے کی تاریخ متعدد بار تبدیل کی جاتی رہی ہے تاکہ اس پیشن گوئی پر عوام کا ایمان برقرار رہے“

ریونشا کے ذکر کردہ دوسرے قصیدہ کے 35 اشعار WW Hunter نے اپنی کتاب ”The Indian Musalman“ میں بھی نقل کیے ہیں۔ لیکن دونوں انگریز مصنفین ان قصیدوں کے شاعر کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتے۔ ان کے مطابق یہ دونوں قصائد جعلی تھے، جب کہ حقیقت کے مطابق پہلا قصیدہ واقعی شاہ نعمت اللہ ولی کا ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2