شاؤسر جھیل: شنگریلا کی تلاش میں بلتستان کا سفر


ہمارے ارد گرد آمنے سامنے سر سبز میدان اور برف پوش پہاڑیاں تھیں۔ ۔ ہر میدان کے پیچھے میدان ہر پہاڑی کے پیچھے پہاڑی۔ دنیا کے دوسرے اونچے میدانوں نے ہمارے سامنے پسپائی اختیار کر لی تھی۔ کہ دور کے پہاڑوں کے علاوہ باقی سب پہاڑ کوئی زیادہ اونچے نہ تھے۔ سبز، میدانوں میں نیلے پانیوں سے لدے چھوٹے چھوٹے ندی نالے جابجا دکھتے تھے۔ یہ پہاڑیاں ہرگز چھوٹی نہیں ہیں ان کی بلندی سترہ اٹھارہ ہزار فٹ تک ہے لیکن 12 ہزار فٹ کی بلندی سے یہ محض چھوٹی پہاڑیاں محسوس ہوتی ہیں۔

سورج جس نے کچھ دیر پہلے آسمانِ لازوال پر حکومت قائم کی ہوئی تھی اب بادلوں میں چھپ گیا تھا۔ ایسے میں ان سبز میدانوں میں کئی رنگ پھیلے ہوئے تھے۔ اس بدلے موسم نے آسمان پر بھی کئی رنگ بکھیر دیے تھے، میں نے وہ رنگ سمیٹنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ یہ وہ رنگ تھے جنہیں نہ چُنا جا سکتا تھا، نہ سمیٹا جا سکتا تھا اور نہ ہی گناجا سکتا تھا۔ انسانی علوم کی کتابوں میں نہ تو انہیں کوئی نام دیاگیاہے اور نہ ہی کوئی بیان ان کی خوبصورتی کا حق ادا کرسکتاہے۔ جونہی میں ان رنگوں میں سے کسی رنگ کو کوئی نام دینے کی کوشش کرتا تو یہ کسی ایسے رنگ میں بدل جاتا جو میرے علم کی حدود سے باہر ہوتا۔ یوں میں ایک مرتبہ پھر ان رنگوں کو نام دینے میں ناکام رہا۔

سبز میدانوں میں گھوڑے اور مویشی چرنے میں مگن تھے۔ ان جانوروں میں بڑے بڑے بالوں والی گائے جسے ضو کہا جاتا ہے ہم سب کے لئے وجہ حیرت تھی۔ یہ جانور بڑے شریف اور بڑے قانع تھے۔ ان کے اندازِ خوراک خوری سے لگتاتھا کہ انہیں کل کی کوئی فکر نہیں تھی۔ ان کے لئے آج ہی سب کچھ تھا۔ ان کا کوئی ساتھی رہزن نہیں تھا، ان میں کوئی فاتح یا مفتوح نہیں تھا، اُن میں کوئی درد اور درد کا درماں نہیں تھا۔ نہ اُن میں کوئی ظالم تھانہ مظلوم۔

کسی کی کٹیا برسات میں نہیں جلتی تھی۔ نہ کسی کی بیٹی کی عصمت خطرے میں تھی۔ آہ! ہم انسان۔ جن کا سب کچھ خطرے میں ہے۔ بلکہ میں یوں کہوں گا کہ جن کا سب کچھ ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔ کبھی ان کا کلچر، کبھی ان کی خاندانی غیرت وہ حمیت، کبھی عزت نفس، کبھی انا، کبھی اسٹاک ایکسچینج، کبھی بستیاں، کبھی سرحدیں اور کبھی ان کا محبوب، اکلوتا اور انمول مذہب۔

مجھے اس خطرے کی موجودگی پر کوئی خطرہ یا خوف یا اندیشہ یا سوچ یا فکر نہیں تھی۔ بس یہ سوال اٹھتا تھا کہ کیمیائی، ایٹمی اور طرح طرح کے ہتھیاروں کے ہونے کے باوجود انسان خطرے میں کیوں ہے۔ کیا یہ ہتھیار، اور ٹیکنالوجی ہی اس کے لئے کوئی بڑا خطرہ تونہیں۔

بات جانوروں کی ہو رہی تھی۔ اُنہیں دیکھ کر مجھے یہ احساس ہو رہا تھاکہ اللہ نے ہمیں سکھانے کے لئے کتنی مثالیں پیدا کی ہیں لیکن ہمارے پاس ان سے سیکھنے کا وقت ہی نہیں۔ ہمارے پاس ذوق ہی نہیں ہے، ہمارے پاس شوق ہی نہیں ہے۔ شاید ہمارے دماغ اتنے بھرے ہوئے ہیں کہ اس علم کو سمانے کے لئے ان میں جگہ ہی نہیں۔

اُن مویشیوں کے پیچھے دور تک پھیلے ہوئے سحر انگیز پہاڑ تھے۔ دیکھنے کو تووہ آسان سا پہاڑی سلسلہ تھا لیکن اصل میں انتہائی دشوار گذار تھا۔ پکی بل کھاتی سڑک سبز میدانوں سے گزرتی ہوئی ان پہاڑوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ان میدانوں میں کہیں کہیں چرواہے اور ان کے مویشی دکھائی دیتے تھے۔ جو تنہائی کا احساس کم کرتے تھے۔ ان میدانوں اور پہاڑوں میں اگرچہ تنہائی کے پہرے تھے مگر کہیں بھی وحشت یا خوف کا نام و نشان نہ تھا۔

اب پکی سڑک کی جگہ کچی سڑک نے لے لی تھی جس کے ارد گرد کئی کچے راستے موجود تھے۔ ایک چڑھائی اترنے کے بعد ہمیں قدرت کا وہ عظیم شاہکار دکھائی دیا جسے شیوسر لیک کہا جاتا ہے۔

شیوسر کا مطلب اندھی جھیل ہے۔ ۔ اندھی جھیل کیوں کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کا تعین کاخاصا مشکل ہے۔ دل کی شکل کی یہ جھیل نہ کہیں سے پانی لیتی ہے نہ کسی کو دیتی ہے۔ بلکہ اس کے نیچے کہیں زمین میں پانی کے سوتے موجود ہیں۔

وقار میرے منع کرنے کے باوجود گاڑی کو جھیل کے قریب لے گیا۔

ہمارے سامنے قدرت کا یہ عظیم شاہکار کھلا پڑا تھا۔ اُس کے اردگرد قدرت کے سبز قالین بچھے ہوئے تھے۔ سبز لباس میں ملبوس پہاڑ اس کے درِ نیاز پر جھکے جاتے تھے۔ برف پوش پہاڑوں کا سفید پیراہن اس جھیل کے نیلے پانیوں میں بخوبی دیکھا جاسکتا تھا۔ ہوا جب اس جھیل کو گدگداتی تو اس کا نیلا بدن ستاروں کی کہکشاں بن جاتا۔ میں نے اپنی حیات میں ایسی جھیل نہیں دیکھی تھی جس کے بدن پر ستاروں کا ہجوم ہو، جس میں دن کے وقت ستارے پھوٹتے ہوں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ کبھی کبھی نانگا پربت بھی اس کے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے۔ مگر آج ہمیں اُس نے اپنے دیدار سے محروم رکھا۔ ہو سکتا ہے کسی اونچی جگہ سے نانگا پربت کا روپل سائیڈ کا مکھڑا دیکھا جا سکتا ہو۔

جانے کیوں لوگوں نے اسے اندھی جھیل کا نام دیا ہے۔ یہ تو مجھے دیکھتی تھی۔ باتیں کرتی تھی۔ گنگناتی تھی۔ یہ ایک ایسی حسینہ ہے جس کی تصویر خیالوں میں لئے اس کے عشاق قافلہ در قافلہ اس کے دیدار کو آتے ہیں۔

اس جھیل کی تنہائی دیکھی نہ جاتی تھی۔ تنہا تھی، دکھی بھی۔ ، مگر اس کے لبوں پر، مسکراہٹ کے ستارے پھوٹتے تھے۔ ہوا کا ایک جھونکا اس کے دل کو گدگداجاتا تھا اور وہ مسکرا دیتی تھی۔ آہوں اور ہچکیوں میں جکڑے اس کے قہقہے میں سن سکتاتھا۔ کیوں کہ میں نے ایسے کئی قہقہے سنے ہیں اپنے قریب۔ کبھی اپنے، کبھی اپنے پیاروں کے۔ کیا یہ جھیل ہے۔ نہیں یہ فقط اک جھیل نہیں۔ یہ تو دبستان ہے۔ علم کا دبستان۔ یہ بھی میری طرح۔ اپنے کل پہ نوح کناں تھی۔ اپنے بچھڑے ہووں کو یاد کر کے بلکتی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے میری ماں یاد آ گئیں۔ وہ بھی ہمیشہ اپنی بانہیں کھولے یونہی مسکراتی رہتی تھیں۔ اپنے اندر کے درد اندر ہی سمیٹ کر۔ قہقہے لگاتی رہتیں۔

شیوسر ایسا نگینہ تھی جو دلدلوں میں گھرا ہوا تھا۔ یہ دلدل بڑی جفاکش ہوتی ہے۔ محبت کی طرح۔ اس کی اپنی ہی دنیا ہوتی ہے۔ اس میں جانا آسان ہے مگر نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کوئی چاہے سے اس میں نہیں اترتا۔ بس اچانک ہی کچھ ہوتا ہے اور انسان اس میں پھنس جاتا ہے۔ کبھی کبھی رشتے بھی دلدل بن جاتے ہیں۔ انسان بہت ہاتھ پیر مارتا ہے مگر ان سے نکل نہیں سکتا۔ بس پھنسا رہتا ہے۔ کسی بھی دلدل سے نکلے کے لئے بیرونی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک قابلِ اعتماد اور مضبوط مدد۔

نا خدا نے مجھے دلدل میں پھنسائے رکھا

ڈوب مرنے نہ دیا پار اُترنے نہ دیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).