سوچ بدل رہی ہے لیکن یہ کیسی تبدیلی ہے؟


اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی ملک میں پڑھایا جانے والانصاب، دانشور، میڈیا، ادیب سب ہی عوام کہ سوچ کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جو غیر محسوس طریقے سے کسی خاص مکتبہ فکر کو پروان چڑھاتے ہیں یا پھر کسی مکتبہ فکر کے خلاف نفرت کی پرورش کرتے ہیں۔ یہ ادارے خود رو نہیں ہوتے نہ ہی یہ بے ترتیبی سے اس مقصد کے لیے کام کرتے ہیں۔ بلکہ یہ باقاعدہ طور پہ مخصوص مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں۔ سوچ کی یہ تبدیلی ایک دم وقوع پزیر نہیں ہوتی بلکہ یہ عمل بتدریج ہوتا ہے۔

اسے انکل کیٹ (Inculcate) کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک ایسا طریقہ جس کے تحت آہستگی سے غیر محسوس انداز سے کلچر کو پروان چڑھایاجا سکے۔ اسی بنیاد پہ نیا انداز فکر سامنے آتا ہے۔ انسان چونکہ ڈائیورس ہے فطری طور پہ تو ایک طرح کی فکر پروان چڑھانا ممکن نہیں لیکن اکثریت میں ایک سی سوچ پیدا کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ اسی بنیاد پہ دنیا میں مختلف ثفافتیں اور طرز فکر کے معاشرے سامنے آتے ہیں۔

ہم جس سماج کا حصہ ہے اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ٹرانزیشن سے گزر رہا ہے۔ یہاں بہت کچھ بدل رہا ہے یا بدلاجا رہا ہے۔ مختلف قسم کی سوچ کے لوگ سامنے آ رہے ہیں بلکہ گروہ ترویج پا رہے ہیں۔ یہاں وہ گروہ بھی ہے جو ان موضوعات پہ سوال اٹھانے کی جرات رکھتا ہے جسے اب سے کچھ عرصہ پہلے تک ٹیبو مانے جاتے تھے۔ اس کے ردعمل میں وجود میں آنے والا وہ گروہ بھی بہت متحرک ہے جو ان باتوں کو محترم یا پھر ممنوع سمجھتے ہوئے سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ طبقہ بھی ہے جو ان دونوں کے درمیان ایک معتدل انداز فکر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ گروہ بھی ہے جو اپبے اردگرد سے یکسر قطع نظر کرتے پوئے بغیر مکمل طور پہ سمجھے کسی دوسری تہذیب کو اپنانا چاہتا ہے لیکن اتنا کنفیوز ہوجاتا ہے کہ معاملات سدھارنے کی بجائے الجھا بیٹھا ہے۔

لیکن ان سب میں ایک بات قدر مشترک ہے۔ اپنے نظریے کی اندھادھند پیروی اور دوسروں کو سپیس نہ دینے کی روایت۔ اسے عدم برداشت کہہ لیں یا انتہاپسندی لیکن یہ کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ اسے سماج کی مجموعی ایکٹیوٹی کہا جا سکتا ہے۔ اپنے دفاع کے لیے اور اپنے اندازفکر یا لیڈر کو درست ثابت کرنے کے لیے غلط کو درست ثابت کرنے کی کوشش اور اس میں موازنے کے لیے مخالف کی ایسی ہی کسی غلطی کی نشان دہی۔ یہ ایک عجیب رجحان ہے لیکن سماج میں پنپ چکا ہے اور تیزی سے نمو پا رہا ہے۔ کیا واقعی ہی اس کی باقاعدہ کوشش کی گئی ہے؟ تلخی مزاج کا ایسا حصہ بن چکی ہے جو ہر بات میں نظر آتی ہے۔ کہیں مذاق اڑا کے انا کی تسکین کی جاتی ہے تو کہیں طنز کے تیر کے چلا کر تسکین حاصل کی جاتی ہے۔

آج کے دور میں میڈیا اور ٹیکنالوجی نے خیالات کی ترویج کو بہت آسان کر دیا ہے ہر ادارے کے لیے میڈیا ٹیم ایک لازمی جزو ہے۔ اس کا کام لوگوں کو انٹرٹین کرناتو ظاہر ہے نہیں ہوتا بلکہ خاص سوچ کی ترویج کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ہر ایک کو یہ فکر ہے کہ اس کے انداز سے سوچا جائے اس کے فالوورز زیادہ ہوں۔ یہ سعی کسی کی نہیں ہے کہ خود سوچنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ اب زمینی حقائق سے زیادہ لفاظی پہ زور ہے۔

شاید یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ زبان کے زور پہ سب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا سماج جہاں ہر کوئی یہ سمجھتا ہو کہ اس کی ذات سب سے اہم ہے کیسے اخلاقی فضا کو پروان چڑھا سکتا ہے جہاں انسانی حقوق کی حیثیت ہو۔ زمینی حقائق سے آنکھیں بند کیے ان لوگوں کی اکثریت ہے جو کسی یوٹوپیا میں رہتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ جو وہ جانتے یا سمجھتے ہیں، وہی حرف آخر ہے۔ انہیں نہ تو کچھ دیکھنے کی ضرورت ہے نہ سوچنے کی نہ سمجھنے کی نہ ہی کسی دوسرے کو سپیس دینے کی۔ طنز اور بد تہذیبی سے بھرپور زبان پہلے اس قدر عام نہیں تھی جتنی اب ہے۔ کیا اس کا تعلق ہمارے کلچر سے نہیں ہے؟ ایسا نہیں کہ ہم میں وہ عادات پروان چڑھ چکی ہیں جو کہیں بھی مہذب نہیں مانی جاتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).