شاہ لطیف کی سوہنی


اٌس کی آنکھیں بند تھیں وہ آنکھیں جو مسکن تھی اٌس درد کی، وہ درد جو عشق کہلاتا ہے۔ یہ عشق کی کیفیت ہے کہ جب محبوب پکارے تو اپنی انکھیوں کو قدم بنا لوں اور دوڑتے ہوے اس کے پاس پہنچ جاؤں۔ یہ عشق کی ہی کیفیت ہے کہ جس میں انسان کو کچھ نہیں سوجھتا کہ وہ کیا کرے۔ ایسے ہی ایک منفرد انتظار کی کیفیت میں گرفتار سوہنی دریائے چناب کے کنارے سورج کے ڈھلنے کا انتظار کررہی تھی آج سورج نے بھی بھانپ لیا تھا کہ کوئی وجدانی عاشق اپنے ازلی محبوب سے ملنے کے لے بیقرار ہے، اسی لئے وہ آج غروب ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھ۔

۔ سوہنی اور مہینوال کی داستان کو شاہ لطیف کی فکر نے ایک انوکھا اندازدیا ہے اس کہانی کا کوزہ گر لطیف خود بنتا ہے، سوہنی اور مہینوال کی داستان کی منظرکشی جب شاہ عبدالطیف بھٹاٰئی بیان کرتے ہیں۔ تو کہتے ہیں

پنچھی آن چھپے پیڑوں میں، سورج ڈوبا، شام

گونجی جب آذان چلی وہ، لے کر پیا کا نام

ڈھونڈے وہی مقام، جہاں ہے اس کا ساجن

سوہنی ایک کمہار کی بیٹی تھی جو مٹی کے برتن بناتی اور فروخت کرتی تھی۔ عزت بیگ ایک نوجوان مغل شاہوکار تاجر تھا۔ یہ تاجر دہلی میں اپنی تجارت کرتے ہوے واپس اپنے دیس بخارا کے لئے نکلتا ہے۔ جب یہ نکلا تھا تو یہ نہیں جانتا تھا کے یہ سفر وطن واپسی کا نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ مسافت صدیوں کی ہے جو اپنے ازلی یار کی طرف رواں ہے۔ لطیف سرکار نے کہا جو کچھ دیکھا میں نے سکھیوں نے جو دیکھا، گھر، بر، وار دیا، چین سی بیٹھ نہ پائیں۔

عزت بیگ جب گجرات پہچا اوراٌن کا سامنہ سوہنی سے ہوا تو پھر وہ ہوا جسے عشق کہتے ہیں جس کی کوئی یاداشت نہیں! عشق تو ہر چیز بھُلا دیتا ہے ؛ دنیا بھی اور اپنے آپ سے بھی بیگانہ کردیتا ہے، ۔ سوہنی سی ملنے کہ بعد عزت بیگ یہ جان چکے تھے کہ اب شبِ وصل یہیں پر ہے۔ اب منزل کی طلب نہیں وصل یار ہے۔ ان کا عشق جب پروان چڑھتا ہے۔ تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہر سماج میں ہوا جذبات روایات کے بھینٹ چڑھ گئے۔ سوہنی کو مجبور کرکے اس کی شادی کروا دی گئی۔

دوسرے طرف عزت بیگ سوہنی کا محبوب بنا تو وہ ایک تاجر نہیں رہا وہ مہینوال بن کر چناب کے دوسرے کنارے پر اپنا بسیرا بناتا ہے۔ شاہ لطیف اس عشق کو وحدت کا دریا مانتا ہے اور اس دریا کی روانی سے کھیلنا سوہنی جیسے عاشق کا کام ہے کسی محبوب کا نہیں، عشق تو وہ سولی ہے جس پہ صرف انالحق کہنے والے منصور ہی چڑھتے ہیں۔ سوہنی نے دریاکی تیزی سے سے کھیل نے لگی دریا کئی دفعہ رکاوٹ بنا پھر بھی گھڑا لہروں سے الجھتا ہوا محبوب تک پھچتا ہی جاتا تھا۔

جب لطیف سوہنی بن کر دریا سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے! سوکھ جائے اے دریا! ختم ہو سب سیلاب، تجھ میں جنگل آگ آئے اور، ذرا رہے نہ آب، پریت سے جو بیتاب، تونے ان کو غرق کیا ہے۔ یہاں پر شاہ لطیف خود سوہنی بن جاتا ہے اور اس کے کردار میں رچ بس جاتا ہے، دراصل لطیف بذاتِ خود عشق کی اس معراج پہ پہچے ہوے تھے جو کہ غیر معمولی بات ہے۔ یہاں پر لطیف ہر روایت سے اوپر مقام عشق کا مانتے ہیں اور ہر پل طلب میں ہیں اور کہتے ہیں ہے کہ۔

سوہنی اس ساجن بن، ساری ناپاک، تجھ کہ دھوکر اجلا کردے،

جا اس کے اوطاق کریں گے تجھ کو پاک، پئیں جہ اجلا دودھ۔

اوریہ بہت بڑی بات ہے جو شاہ لطیف نے کہی یہاں پر شاہ لطیف روایت یا رشتوں کے ساتھ نہیں انسانی جذبوں کے ساتھ کھڑا ہے، اس لئے شاہ لطیف کے نزدیک عشق ہر چیز سے بالاتر ہے۔

جن کے من میں پریت بسی ہو جن کا عشق اٹل ہے وہ تو گھڑے بنا تیریں۔ وہ لہروں پہ ٹہلیں

ہمارے سماج کہ نظریہ سے تو ایک معیوب سمجھنے والی بات تھی آج کے دور میں اگرسوہنی ہوتی تو کب کی کاری قرار دی جا چکی ہوتی۔ لیکن شاہ لطیف سوہنی کے کردار کو انتہا کی بلندیوں پہ جاکر پیش کرتا ہے۔ سماجی روایات کے بالکل برعکس سوہنی کے لئے کہتا ہے۔ بھر کر پیٹ وہ تیرتی آئیں، پہچی ہیں منجدھار، عہد کیا جہ ساجن سے وہ کرینگی پورا یار، جائیں گی سب اس پار، امن کے پہچائیگا ساجن۔

سوہنی علامت ہے آج کی عورت کی جو زبردستی کے رشتے نہیں دل کی آواز کو سنتی ہے۔ وہ خود سراپا عشق ہے۔ عشق ہے اس کی زندگی اس کا احساس ہے۔ شاہ لطیف اس کیفیت کو یوں آواز دیتے ہیں۔ ”سرد موسم سیاہ رات میں۔ جو برستی مینا میں دریا میں کودتی ہے۔ آؤ سنے سوہنی سی جو بس عشق کو جانتی ہیں۔ کہ رات اور دن اس کے من میں بس میہنوال ہی بستا ہے۔ جو ساجن کی بغیر ایک سانس نہیں لے پاتی۔ ایسی عشق کی مورت پر کون انگلی اڻھا سکتا ہے جسے کچے گھڑے کا کچھ ہوش باقی نہ رہا اور جان پنہون پنہون پکارتی لہروں کے سپرد خود کو کر کے ہمیشہ کے لیے عشق کی علامت بن گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).