ڈاکٹر شیرشاہ سید سے ایک گفتگو


س: کچھ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیے؟

ج: میں کراچی میں پیدا ہوا۔ لی مارکیٹ چاکیواڑہ کے علاقے میں۔ میرے ماں باپ غریب لوگ تھے۔ میرے والد صاحب اسکول ٹیچر تھے، میری والدہ کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا لیکن میری چھوٹی بہن کی پیدائش کے بعد انھوں نے پڑھنا شروع کیا اورجیسا کہ آپ کو پتہ ہے وہ پڑھ کے ڈاکٹر بن گئیں۔ میری جو اسکولنگ ہوئی وہ لیاری میں ہوئی اس کے این جے وی نریندرناتھ جگن داس اسکول میں پڑھا اور اس کے بعد میں نے جامعہ ملیہ میں پڑھا اور اس کے بعد انٹر کے ایگزام میں، میں دو دفعہ فیل ہونے کے بعد تیسری دفعہ اچھے نمبر لا کر کے میڈیکل کالج میں میرا داخلہ ہوا اور ڈاٶ میڈیکل کالج سے میں ڈاکٹر بنا اس کے بعد میں انگلینڈ چلا گیا انگلینڈ میں جاکر کے میں ہر امتحان میں کم از کم چار دفعہ فیل ہوا اور پانچویں چھٹے امتحان میں پاس ہو کر کے آبس ٹیٹرکس اینڈ گائنی کی ممبرشپ حاصل کی اس کے بعد پاکستان آ کر کے کام کر رہا ہوں۔

س: لکھنے کا خیال کیسے آیا؟

ج: ساتویں کلاس میں تھا تو ٹیچر نے کہا چاندنی رات پہ مضمون لکھ کے لاٶ میں نے گھر آکے دادا سے کہا انھوں نے ایک شعر لکھوایا اور کہا اب اس پہ لکھنا شروع کردو ٹیچر نے دیکھا تو بہت تعریف کی جبھی احساس ہوا کہ میرے لیے لکھنا مشکل نہیں۔ پھر میڈیکل کالج میں آکے میں حریت اخبار میں نوجونوں کے صفحے پہ لکھنے لگا جو میرے والد صاحب کو بالکل پسند نہیں تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ میں بہت لاپروا ہوں ڈاکٹری کرنا نہیں چاہتا اگر میں لکھنے میں لگ گیا تو میڈیسن نہیں کرسکوں گا میری والدہ مجھے خالد کے نام سے پکارتی تھیں تو میں نے خالد شاہ کے نام سے لکھنا شروع کردیا۔ مختلف چیزیں لکھیں فورتھ ایئرمیں آکے میں نے دو افسانے لکھے پھر بیس سال تک میں نے کچھ نہیں لکھا۔

س: گھر کا ماحول لکھنے میں کس حد تک معاون ثابت ہوا؟

ج: اس کا سارا کریڈٹ میری والدہ کو جاتا ہے۔ میری والدہ بہت پڑھتی تھیں مختلف چیزیں جتنے بھی بڑے بڑے ادبی رسالے تھے پڑھتی تھیں اور مجھے دیتی تھیں پڑھنے کے لئے۔ میڈیکل کالج سے پہلے انھوں نے ادیب عالم ادیب فاضل پڑھا ہوا تھا تو علامہ اقبال کی بہت فین تھیں تو ان کی شاعری ہم بہن بھائیوں کو دیتی تھیں پڑھنے کے لئے۔ میں چھپ چھپ کرکے ابن صفی بھی پڑھتا تھا۔ ایک دن انھوں نے دیکھ لیا تو مجھ سے لے لی کتاب اور پڑھنے کے بعد فیصلہ کیا کہ ابن صفی کو پڑھنا چاہیے۔ اے آرخاتون، رضیہ بٹ وغیرہ کو بھی پڑھا۔ سارے رسالے گھر میں آتے تھے تو ان کی وجہ سے پڑھنے کا شوق ہوا۔ میرے والد کو ادب کا کچھ زیادہ شوق نہیں تھا میری والدہ اور دادا کو تھا۔ دادا بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ میں پڑھوں لکھوں۔

س: لکھنا اور علاج کرنا دو بہت مختلف چیزیں ہیں تو کبھی کسی ایسا ہوا کہ ان دونوں چیزوں نے ایک دوسرے کو متاثر کیا ہو؟

ج: نہیں میرا خیال ہے ان دونوں چیزوں نے ایک دوسرے کو آگمنٹ کیا۔ میں جو کہانیاں لکھتا ہوں وہ مریضوں کی ہی کہانیاں ہوتی ہیں کہانیوں کے کردار میرے آزو بازو گھوم رہے ہوتے ہیں وہ کردار یا تو مریضہ خود ہوتی ہے یا اس کا شوہر ہوتا ہے بچے ہوتے ہیں ماں باپ ہوتے ہیں۔ انھی کی کہانیوں کو میں لکھ دیتا ہوں۔

س: کبھی سوچا شاعری کی طرف جائیں؟

ج: شاعری کی طرف جانے کا نہیں سوچا شاعری پڑھتا ہوں لیکن شاعری کر نہیں سکتا۔ غالب بہت پسند ہے غالب کو بار بار پڑھتا ہوں اور پڑھ پڑھ کے سر دھنتا رہتا ہوں۔

س: شگفتہ مزاج ہونے کے باوجود مزاح نہیں لکھا؟

ج: میرا خیال مزاح لکھنا سب سے مشکل کام ہے میں نے کوشش کی لیکن میں نہیں لکھ سکا۔

س: یعنی آپ کی کہانیوں کی بنیاد حقیقت پر ہوتی ہے؟

ج: ننانوے فیصد۔ سوائے ان کہانیوں کے جو میں نے سائنس فکشن پر لکھیں۔

س: نوے کی دہائی میں سسپنس ڈائجسٹ آپ کی ایک کہانی چھپی تھی جو محرم رشتوں کے غلط تعلقات کے حوالے کے ایک خاصا نازک اور حساس موضوع تھا تو کیا وہ بھی حقیقت پر مبنی تھی؟

ج: بالکل حقیقت پر مبنی تھی اور یہ چیز اگر ہمارے معاشرے میں بہت عام نہیں ہے تو بہت کم بھی نہیں ہے۔ میں سب کو کہتا ہوں کہ بچوں پہ گہری نظر رکھیں کسی بھی ایسے آدمی کو گھر میں مت آنے دیں جس سے بچہ خوفزدہ ہوتا ہے۔ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے قریبی لوگ ہوتے ہیں بچے بے چارے کچھ کر نہیں پاتے ہیں تو اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔ بچوں کی جنسی ہراسانی کوئی نئی چیز نہیں۔ ہم اس معاملے میں بہت گندے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ہر شخص ایسی باتوں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی وجہ سے جو لوگ یہ کررہے ہوتے ہیں وہ اسے باربار کرتے ہیں۔

س: آپ ملک سے باہر رہے یہاں کے اور وہاں کے ماحول میں کیا فرق دیکھا؟

ج: یہاں گھٹن ہے وہاں آزادی ہے یہاں پر خاندانی دباٶ اور پابندیاں زیادہ ہیں وہاں بھی ہے لیکن اپنے طریقے سے ہے۔ سب سے اچھی بات جو وہاں ہے وہ یہ کہ ہر چیز قابلیت اور میرٹ کی بنیاد پر ہے۔ پاکستان میں قابلیت اور میرٹ کو زیادہ ترجیح نہیں دی جاتی۔ یہاں آپ کے جو دوست ہوتے ہیں وہ آپ کے اچھے دوست ہوتے ہیں آپ کے وفادار ہوتے ہیں آپ کی بات سنتے ہیں ریلیشن شپ یہاں پر اچھی مضبوط بنیادوں پر ہوتی ہے وہاں بھی ہوتی ہے لیکن ان کا اپنا انداز ہے مجھے دونوں جگہ اچھے ہی لوگوں سے واسطہ پڑا۔

س: آپ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ آپ لکھتے ہیں اس کا اثر معاشرے پر ہوتا ہے اور وہ معاشرے میں تبدیلی لاسکے گا؟

ج: میرا نہیں خیال ہے کہ میرے لکھنے سے معاشرے میں کوئی تبدیلی واقع ہو سکے گی۔

س: تو پھر آپ کیوں لکھتے ہیں؟

ج: اس لئے کہ میں لکھنے پر مجبور ہوں میں اس لئے لکھتا ہوں کہ مجھے کوئی چیز تنگ کرتی ہے تو میں اس کے بارے میں لکھ دیتا ہوں لیکن ایک منٹ کے لئے بھی یہ میرے ذہن میں نہیں آتا کہ میرے لکھنے سے سماج میں کوئی بڑا انقلاب آنے والا ہے یا کچھ سماجی تحریک بننے والی ہے میں تو معمولی معمولی باتیں لکھتا ہوں لوگ اس کو پڑھ کرکے تعریف کرکے چلے جاتے ہیں تو یہ ان کی مہربانی ہے۔ نہ میں کوئی بہت اچھا لکھاری ہوں میرا خیال ہے میری اردو اتنی اچھی نہیں جتنی ہونی چاہیے۔

جتنی اچھی اردو میری والدہ کی اور میرے دادا کی تھی۔ بعض لوگ مجھ پہ تنقید کرتے ہیں کہ یہ کہانی اور اچھی ہوسکتی تھی لیکن میں کہانی کو باربار صحیح کرنے کے چکر میں نہیں پڑتا ہوں جو ایک دفعہ لکھ دیا لکھ دیا اس میں بڑی خامیاں ہوتی ہیں مجھے یہ شوق نہیں کہ ادب میں میرا کوئی مقام ہو۔ بنیادی میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں آگہی پیدا ہو۔ میری بہت سی کہانیاں عورتوں کی بیماریوں کے بارے میں ہیں جن کے متعلق عام طور پہ کھل کے بات نہیں کی جاتی ماہواری، لاولدی، فیسٹیولا ( خواتین کی مثانے سے متعلقہ ایک بیماری) میٹرنل ڈیتھ (بچے کو جنم دینے کے دوران ماں کا انتقال) بچوں کی جنسی ہراسانی کے بارے میں ہیں۔ اگر اس آگہی کے نتیجے میں کوئی ایک آدھ جان بچ جاتی ہے تو یہ ہی اس کا فائدہ ہے۔ باقی ادب ودب میں کیا ہورہا ہے نہ مجھے اس کی فکر ہے نہ اتنا شعور ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3