جھن جھن کٹورہ اور سکہ شاہی نظام


اٹھارہویں صدی میں اردو تاریخ نگاری کی ابتداء فارسی تاریخ نگاری کے زوال کا آغاز بھی ہے یعنی فارسی میں تاریخ نگاری کا یہ سلسلہ مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد تقریباً ختم ہوگیا۔ 1857 کے بعد جو تاریخیں لکھی گئیں وہ عموماً فارسی کی بجائے اردو میں لکھی گئیں۔ یہ ایک ایسا عہد ہے جہاں ایک طرف مغل سلطنت کا زوال ہورہا تھا تو دوسری طرف انگریزی حکومت کا اقتدار قائم ہورہا تھا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تاریخ پر کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ جابر سلطان کے سامنے کبھی کلمہ حق نہیں کہتی۔ یہ کام ہمیشہ جابر سلطان کی دونوں آنکھیں بند ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے ورنہ تو یہ بے چاری کسی رقاصہ کی طرح پاؤں میں گھنگھرو باندھے، حسب فرمائش محو رقص، سریلی آواز میں نغمہ سنج ہی رہتی ہے۔

چنانچہ تاریخ کی بے شمار کتابوں میں سے ایک کتاب کے کسی صفحہ نا معلوم پربیان کیا جاتا ہے کہ ہمایوں بنگال، چنار اور بنارس سے بھاگا تو چوسر پہنچا۔ دریا اپنے پورے جوبن پر تھا مگر شیر خاں (شیر شاہ سوری) کا خوف ایسا طاری تھا کہ گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ ممکن تھا کہ دریا کی طغیانی اسے نگل جاتی اور نسل تیموری کا خاتمہ ہوجاتا کہ اچانک سقہ غیبی فرشتہ کی طرح نمودار ہوا اورہمایوں کو بھنور سے باہر نکال لیا۔ ہمایوں سقہ کے اس احسان تلے دب گیا۔

سوری خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا، اس کے باوجود اس کی شوخ طبیعت معجونی محفل سجانے سے باز نہ آئی۔ اسی محفل میں ہمایوں نے سقہ کو دو دن کے لئے تخت و تاج کا مالک بنا دیا نیز درباریوں اور عسکریوں کو اس کے احکامات ماننے کا پابند کر دیا۔ ہمایوں کی اس حرکت سے شاہی خاندان کے افراد ناراض ہو کر واک آؤٹ کر گئے لیکن اپوزیشن انہیں یہ سمجھا کر کہ جمہوریت خطرے میں ہے، واپس لے آئی۔

کچھ دقیق محققین کا موقف ہے کہ ہمایوں کی یہ حرکت محض تفریح طبع تھی۔ پہلے ہی دن سقہ کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوا جو نہایت پیچیدہ تھا، خازن نے ہولناک اطلاع دی۔ بادشاہ سلامت! خزانہ خالی ہو چکا، عسکریوں کو تنخواہ نہیں ملی تو وہ ملازمت چھوڑدیں گے۔ درباری امرا بھی پر تول رہے ہیں۔

سقہ گھبراگیا، سیدھا ہمایوں کے پاس پہنچا اور عرض کی:

حضور۔ ! میں باز آیا ایسی حکومت سے، آپ اپنی مملکت سنبھالیں، میں غریب آدمی کہاں سے پیسوں کا انتظام کروں؟

بادشاہ ازراہ تفنن زیر لب مسکرایا، اسے دلاسا دیا اور کچھ راز و نیاز کی باتیں کیں، سقہ مطمئن ہو کر واپس چلا گیا۔

دوسرے دن سقہ نے ایک عظیم الشان دربار منعقد کیا، جس میں انواع واقسام کے کھانوں کے ساتھ رقص و موسیقی کا بھی اہتمام تھا۔ دربار میں شہر کے معززین بھی مدعو تھے۔ گھنٹوں یہ پروگرام چلا، آخر میں سقہ نے ایک پرجوش اور پرسوز تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ اس وقت ہماری حکومت کا وجود خطرے میں ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی حکومت کو بچانے اور اپنے باشاہ کے تحفظ کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کریں۔ ہمارا خزانہ خالی ہے، ہم ہتھیار نہیں خرید سکتے، دشمن ہم کو نگل لینا چاہتا ہے، ہم نے بادشاہ کا نمک کھایا ہے۔ ہم سر کٹا سکتے ہیں، سر جھکا نہیں سکتے۔

تقریر کے بعد اس نے امرا کے سامنے ایک دل کش تجویز رکھی کہ سب لوگ اپنی وسعت کے مطابق اپنی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرادیں، ہم آپ کو بطور سند ایک چرمی وثیقہ دیں گے۔ بحران کے خاتمے کے بعد نہ صرف آپ کی رقم واپس کر دی جائے گی بلکہ بطور انعام د گنی رقم کا اضافہ ہوگا۔ ایمنسٹی سکیم کا آغاز یہیں سے ہوا۔

لوگوں نے اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، خزانہ بھر گیا اور توقع سے زیادہ رقم ہاتھ میں آگئی۔

سقہ کی مدت حکومت اسی شام ختم ہوگئی۔

ہمایوں نے دوبارہ کاروبار مملکت سنبھال لیا۔ شب میں جاسوسوں نے خبر دی کہ غنیم سر پرآگیا ہے۔ ہمایوں نے ڈیرہ ڈنڈا اٹھایا اور سیدھا لاہور کا رخ کیا۔ آپا دھاپی میں شاہی خاندان کی کئی خواتین بھی گم ہوگئیں۔ ہمایوں لٹے ہوئے مسافر کی طرح لاہور پہنچا۔ دم بھی نہ لینے پایا تھا کہ آندھی طوفان کی طرح شیر خاں وہاں بھی پہنچ گیا۔ ہمایوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔

شیر بھیا۔ ! اب تو پیچھا چھوڑ دو، میں نے تمھارے لئے پورا ہندوستان چھوڑ دیا۔

شیر خاں نے دریا دلی سے جواب دیا: لاہور چھوڑ دے میں نے تجھے کابل بخش دیا۔

اس کے بعد تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ سقہ اور شاہی خزانہ کہاں گیا؟ مگرہمایوں کے عزم و استقلال کی ضرور داد دینی پڑے گی کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی سلطنت دوبارہ حاصل کرنے کے لئے چند وفادار رفقا اور اہل خانہ کے ساتھ ایران پہنچا اور ایرانیوں کی مدد سے دوبارہ ہندوستان پر قابض ہوا۔ واضح رہے کہ وہ ایران آج کے ایران سے بالکل مختلف تھا۔

اسی طرح تاریخ کی ایک اور کتاب میں یہی واقعہ کچھ اس طرح درج ہے۔

یہ بات ہے ایک ایسے شخص کی جس نے صرف ایک دن بادشاہت کی لیکن تاریخ میں ہمیشہ کے لئے اپنا نام سنہری حروف میں لکھواگیا۔ اس کا نام تھا نظام سقہ جو ایک بہشتی یعنی ماشکی تھا۔ شیر خان سے بری طرح شکست کھانے کے بعد ہمایوں جان بچانے کے لئے اپنے گھوڑے سمیت گنگا میں کود گیا۔ اس سے پہلے کہ بے رحم موجیں اسے گھوڑے سمیت نگل لیتیں نظام نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر دریا میں چھلانگ لگادی اور ہمایوں کی جان بچالی البتہ گھوڑے کو ڈوبنے دیا۔ بعد میں ہمایوں کو بہت سارے گگھو گھوڑے خود ہی مل گئے۔

ہمایوں کو دوبارہ اقتدار نصیب ہوا تو یہی نظام سقہ بادشاہ سلامت سے ملاقات کی خواہش لے کر دربار میں حاضر ہوا۔ ہمایوں کو اس کا احسان یاد تھا چنانچہ اپنے اس محسن کی خوب عزت افزائی کی اور چمڑے کے اس پجاری سے پوچھا۔

مانگو کیا مانگتے ہو، سب کچھ ملے گا۔

نظام نے بلا ہچکچاہٹ ایک دن کی حکومت مانگ لی۔ بادشاہ بھونچکا رہ گیا، دربار میں سناٹا چھا گیا لیکن تیموری خون نے احسان کا بدلہ چکایا اور ماشکی کو ایک دن کی حکومت سونپ دی۔

بادشاہ بنتے ہی نظام نے سب سے پہلا حکم پوری سلطنت میں چمڑے کے سکے رائج کرنے کا دیا۔ تحقیق کے مطابق چونکہ بہشتی ساری عمر چمڑے کے مشکیزے میں پانی بھر بھر کر لوگوں کو پلاتا رہا تھا، اس لئے اس نے اس سے آگے کچھ دیکھا ہی نہ تھا۔ اس کے باوجود اس کے ذہن رسا نے یہ بخوبی سمجھ لیا تھا کہ ایک دن کی حکومت میں آخر کیا ہی کیا جاسکتا ہے۔ سو ایسا کام کر گزرنا چاہیے جس سے وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہوجائے۔

ایک اور روایت کے مطابق برسوں بعد اسی نظام سقہ کی یاد میں آگرہ میں ایک یادگار تعمیر کرائی گئی جس کا نام ہے جھن جھنکا کٹورہ، جس کی اپنی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ دراصل جب بہشتی اپنی مشک میں پانی بھر کر چلتے تو ہاتھ میں سلور کا کٹورہ ساتھ رکھتے۔ پانی پلانے کے عوض ملنے والی کوڑیوں کو اس کٹورے میں ڈال کر ہلاتے رہتے جس سے جھن جھن کی آواز نکلتی، اسی کی یاد میں اس یادگار کا نام جھن جھن کٹورہ رکھ دیا گیا۔ آج بھی اس کی شکل کسی الٹے رکھے کٹورے سے کم نہیں دکھتی۔

نظام سقہ کی کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ یہ کہانی تاریخ میں یوں بھی آتی ہے کہ اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کے بڑے قل کی رسم کے بعد ہر سال بہشتی قبیلہ نظام سقہ کا عرس بھی مناتا ہے اور نظام اسی درگاہ کے احاطہ نور النور میں سپرد خاک ہے۔ اس کا ذکر اکبر نامہ میں بھی ملتا ہے البتہ اکبر نامہ اب کہیں نہیں ملتا۔

تاریخ کے کچھ نقادوں کے مطابق نظام ہیرو ہے ان تمام لوگوں کا جو موقع کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کا ہنر جانتے ہیں اور کوئی بھی ایسا فیصلہ کر گزرتے ہیں جو خواہ اوٹ پٹانگ ہی کیوں نہ ہو لیکن کسی نہ کسی طور یاد رکھا جائے۔ نظام سقہ اس لئے حکمران نہیں بنا تھا کہ عوام کا بھلا ہو، اسی لئے اس نے اس بات کی قطعاً پروا نہ کی کہ ایک دن میں چمڑے کے سکے بنانے کے لئے ساری حکومتی مشینری کو صرف اس ایک کام میں جھونک دیا جائے گا۔

جانے کتنے جانوروں کو مار کر ان کی کھال کے سکے بنائے گئے۔ جو لوگ حکمران بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور حادثاتی طورپر اعلیٰ عہدوں پر فائض ہوجاتے ہیں وہ کبھی عوام کا نہیں سوچتے، وہ صرف اور صرف اپنا سکہ چلانے کا سوچتے ہیں اور ایسے ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ سارا کا سارا نظام حکومت سکہ شاہی کے چنگل میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور عوام۔۔۔  کون عوام؟

نظام سقہ کی اس دلچسپ داستان کا سادہ سا پیغام یہی ہے کہ حق حکمرانی خواہ ایک ہی دن کا کیوں نہ ہو، ایسے شخص کو سونپا جانا چاہیے جو عوام کا دکھ جانتا ہو، مگر۔۔۔۔ کون عوام؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).