آزادی صحافت کا عالمی دن: صحافی والدہ کے قتل کے بعد بیٹے کی انصاف کے لیے جنگ


ڈیفنی کیروانا گیلیزیا

ڈیفنی کیروانا گیلیزیا مالٹا کے سرکاری اداروں میں مبینہ بدعنوانی کی بہت بڑی ناقد تھیں

ہر مہینے مجھے ایک دن اُس شخص کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھنا پڑتا ہے جو میری والدہ کے قتل کی تفتیش پر مامور ہے۔ اس شخص سے ہمارے خاندان کا پالا پہلی مرتبہ چھ برس پہلے اُس دن پڑا تھا جب وہ میری ماں کو گرفتار کرنے آیا تھا۔

گرفتاری سے کچھ روز قبل میری والدہ نے عام انتخابات کے روز وزارت عظمیٰ کے ایک امیدوار کے بارے میں ایک طنزیہ بلاگ لکھا تھا، جس پر امیدوار کے ایک حمایتی نے میری والدہ کے خلاف تھانے میں رپورٹ درج کر دی تھی۔

اسی لیے آدھی رات کے وقت ایک تفتیش کار کو ہمارے گھر بھیجا گیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں میری والدہ کی گرفتاری کا حکمنامہ بھی تھا اور ان کا جرم ایک ایسا مضمون لکھنا تھا جو بقول اہلکار کے غیرقانونی تھا۔

اس وقت میں کام کے سلسلے میں مالٹا سے بہت دور دنیا کے دوسرے کونے میں مقیم تھا لیکن لوگوں نے مجھے وہ ویڈیو بھیج دی تھی جس میں میری والدہ اگلی صبح ساڑھے دس بجے رہا ہو کر تھانے سے نکل رہی تھیں۔ اس وقت انھوں نے میرے والد کی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔

کچھ ہی گھنٹے بعد وہ دوبارہ اپنی ویب سائیٹ پر موجود تھیں اور لکھ رہی تھیں کہ انھیں کیسے حراساں کیا گیا۔ بین السطور انھوں نے یہ بھی لکھا کہ نئے وزیر اعظم کس قدر عدم تحفظ کا شکار ہیں اور میری والدہ نے خود اپنے حلیے کا بھی مذاق اڑایا۔

’میں اپنی بدحواسی پر معذرت چاہتی ہوں لیکن جب قتل کی تفتیش کرنے والے اہلکاروں کا ایک جتھہ آدھی رات کو آپ کو گرفتار کرنے گھر میں گھس آئے تو صاف ظاہر اپنے بال بنانا، پاؤڈر اور میک اپ والا برش اٹھانا اور ڈھنگ کے کپڑے اٹھا کر نکلنا، یہ چیزیں آپ کے دماغ میں نہیں آتیں۔‘

اور اب وہی اہلکار جس نے انھیں اُس رات گرفتار کیا تھا، وہ میری والدہ کے قتل کی تفتیش پر مامور تھا اور میں ہر ماہ اسے ملنے جا رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیے:

پاناما پیپرز والی صحافی بم دھماکے میں ہلاک

میتھیو اپنی والدہ سے ساتھ

میتھیو کی خواہش ہے کہ کسی اور صحافی کو آزادی صحافت کے لیے اتنی بڑی قربانی نہ دینا پڑے جو ان کی والدہ نے دی

جس دن میری ماں، ڈیفنی کیروانا گیلیزیا کو ہلاک کیا گیا، وہ اپنی کار میں بینک گئی تھیں تاکہ اپنے اکاؤنٹ کو بحال کرا سکیں جسے ایک وزیر کے کہنے پر منجمد کیا جا چکا تھا۔

کچھ ہی دن پہلے وہ 53 برس کی ہوئی تھیں اور وہ صحافت میں اپنے 30 سالہ کیریئر کے عروج پر پہنچ چکی تھی۔

ان کی کار کے نیچے نصب کیے گئے آدھا کلو ڈائنامیٹ کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔

حکومت کے حمایتی اس قاتلانہ حملے پر کھلے عام جشن منا رہے تھے، جس سے مجھے وہ دن یاد آ گیا جب امریکہ سے شائع ہونے والے انگریزی اور ترک زبان کے اخبار کے مدیر ہرانت دنک کو استمبول میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

صحافی ڈیفنی کیروانا گیلیزیا کا قتل

  • اکتوبر سنہ 2017: مالٹا میں تحقیقی صحافت کے لیے مشہور صحافی ڈیفنی کیروانا گیلیزیا کو ایک کار بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا۔
  • وزیر اعظم جوزف مسکات نے اس قتل کو ایک ’وحشیانہ‘ اقدام قرار دیا، تاہم ڈیفنی کے گھر والوں نے وزیراعظم کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔
  • دسمبر 2017: پولیس نے تین افراد کو گرفتار کیا اور پولیس کا کہنا تھا کہ ممکن ہے اس واردات کے لیے کرائے کے قاتل استعمال کیے گئے۔
  • جولائی 2018: حکومت کی جانب سے قائم کی جانے والی ایک تفتیشی کمیٹی نے وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو بد عنوانی کے اس مقدمے میں بری کردیا جس کا الزام ڈیفنی نے لگایا تھا۔
  • اگست 2018: ڈیفنی کیروانا گیلیزیا نے کھلی عدالت میں مقدمے کا مطالبہ کیا جس میں حکومت سے پوچھا گیا کہ آیا اس قتل کو روکا جا سکتا تھا۔

اس قسم کے قتل اتنے اہم کیوں؟

’صحافیوں کے کام میں بنیادی بات حقائق اور خیالات کی آزادانہ اشاعت ہوتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے منصفانہ اور آزاد معاشروں کا جنم ہوتا ہے۔‘ یہ بات میرے بھائی نے کچھ یورپی صحافیوں سے اس وقت کہی تھی جب ہم لوگ اپنی والدہ کے قتل کی وجہ سے ابھی تک صدمے میں تھے۔

’یوں اس قسم کے معاشرے تشکیل پاتے ہیں جن میں گہرائی ہوتی ہے اور مشکلات کا بہتر مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، دوسرے الفاظ میں ایسے معاشرے جن میں زندگی پھلتی پھولتی ہے۔‘

ہماری والدہ کے قتل کے بعد ہمارے لیے روشنی کی کرن وہ بیش بہا حمایت، پشیمانی، غم اور افسوس کے پیغامات تھے جو ہمیں ہر قسم کے لوگوں کی طرف سے ملے۔

ہمیں لوگوں کی اتنی زیادہ حمایت حاصل ہوئی کی میں حیران ہو گیا اور مجھے اپنے ایک دوست کی بات یاد آ گئی جو کبھی اس نے مجھ سے کہی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ’اچھے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، آپ کا کام صرف ان کو ڈھونڈنا ہوتا ہے۔‘

یہ خواہش کہ آپ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزاریں جو آزاد ہو، جہاں ہر شخص کے لیے ایک قانون ہو اور انسانی حقوق کی قدر کی جائے، یہ ایک ایسی خواہش ہے جو ہر انسان کے دل میں ہوتی ہے۔ لیکن جیسا کہ اکثر انسانی خواہشات کے ساتھ ہوتا ہے، اس خواہش کی راہ میں بھی گرم اور سرد دن آتے رہتے ہیں۔

لیکن ہمیں اکثر یہ بات سمجھنے میں بہت دیر ہو جاتی ہے کہ ہمارے ارد گرد موجود کچھ بُرے لوگ کس طرح کسی بیماری کی طرح ہم پر حاوی ہو جاتے ہیں۔

اسی لیے میری والدہ کے قتل کے بعد سے میں، میرے بھائی اور ہمارے والد صاحب نے یہ عہد کر لیا ہے کہ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم انصاف نہیں حاصل کر لیتے اور یہ یقینی نہیں بناتے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ آئندہ کسی کے ساتھ نہ ہوا۔

اب ہم لوگوں کے پاس کچھ اور کرنے کے لیے وقت ہی نہیں بچا ہے۔

میتھیو (بائیں) اور ان کے بھائی پال

میتھیو (بائیں) اور ان کے بھائی پال اپنی والدہ کے قتل کی شفاف تفتیش کے لیے مہم چلا رہے ہیں

ہم تینوں کبھی کبھی یہ بھی سوچتے ہیں کہ اب واقعی ہم میں برداشت کا مادہ کم ہو گیا ہے، خاص طور پر اب ہم بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی بے عملی اور بے پرواہی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اسی لیے اب ہمارے لیے یہ مشکل ہو گیا کہ ہم ان لوگوں کی سست روی اور ان کی طنزیہ باتوں کو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔

سنہ 1993 میں بم دھماکے میں مارے جانے والے مشہور ترک صحافی اوگر ممچو کے بچوں نے مجھے بتایا ہے کہ ان کے والد کے قتل کی تفتیش کرنے والی پولیس کے سربراہ نے مزید تفتیش سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم اس سے آگے کچھ نہیں کر سکتے، ہمارے سامنے اینٹوں کی ایک دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔‘

اس کے جواب میں بچوں کی والدہ نے کہا تھا: ’آپ ایسا کریں کہ اس دیوار میں سے ایک اینٹ کو نکال دیں، پھر دوسری، اور اس وقت تک اینٹیں نکالتے رہیں جب تک پوری دیوار ہی نہ گر جائے۔‘

ہماری ماں کے قتل کے بعد سے میں اور میرا بھائی بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔

جب ہم نے یہ جد وجہد شروع کی تھی تو ہم نے اپنے سامنے یہی اصول رکھا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔ تاہم اب میں سوچتا ہوں کہ ہمار سفر اتنا ہی اہم ہے جتنے اہم ہمارے مقاصد ہیں۔

ہم معاشرے میں تبدیلی لانے اور آزادی صحافت کا احترام پیدا کرنے کے لیے حکومت کو مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ انصاف کرے۔

اس سلسلے میں ہم ان لوگوں سے بھی رابطہ کر رہے ہیں جو ’آزدی مخالف‘ رجحانات کی بیماری کا خاتمہ کرنے کے کوشش کر رہے اور اس عمل کے دوران دنیا کو انسانی حقوق کا ایک نیا احترام سکھا رہے ہیں۔

مالٹا میں مظاہرے

بم دھماکے میں ڈیفنی کیروانا گیلیزیا کی ہلاکت نے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا ہے

مالدیپ میں اپنے گھر کے سامنے قتل کیے جانے سے صرف پانچ دن پہلے لکھاری یامین رشید نے کہا تھا کہ آزادی کا آغاز ضمیر کی آزادی سے ہوتا ہے۔

ان کے بقول ’اگر آپ کا ذہن آزاد نہیں ہے تو پھر آپ باقی آزادیئوں کا کیا کریں گے۔‘

میری ماں کے قتل کی طرح، ان کے قتل نے بھی یہ واضح کر دیا ہے تھا کہ اس قسم کی آزادیوں کا کوئی احترام نہیں ہے۔

آزادی کی یہ جنگ اب صرف ہم جیسے لوگوں کی ذمہ داری نہیں جن کے پیارے بچھڑ گئے ہیں۔ یہ صرف ہم جیسے خاندانوں، ان کے دوستوں اور جیلوں میں پڑے ہوئے صحافیوں کے دوستوں کی ذمہ داری نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھاری ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر آن پڑی ہے، لیکن ہمیں اکیلے یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ ہمیں دنیا کے تمام اچھے لوگوں کا ساتھ چاہیے۔

اور ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں ہمارے جیسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ دنیا میں ہر کوئی سعودی صحافی جمال خاشقجی سے پیار کرتا تھا، لیکن ان کو مارنے کے لیے صرف ایک شخص کی نفرت ہی کافی تھی۔

ہماری والدہ کے قتل اور ان جیسی دوسری وارداتوں کی تفتیش میں اس بات کے آثار بہت کم ہیں کہ حکومتیں ان لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں سنجیدہ ہیں جنہوں نے اصل میں ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

جمال خاشقجی

جمال خاشقجی کو استمبول میں سعودی شفارتخانے کی عمارت میں قتل کر دیا گیا تھا

اسی لیے ہم نے دیوار سے پہلی اینٹ نکال کر اس کام کا آغاز کر دیا ہے۔ ہم نے حکومت سے مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ کھلی عدالت میں سب کو بتائے کہ اس سے مالٹا کی سب سے اہم صحافی کے قتل کو روکنے میں کیا غلطی ہوئی۔

اس کے بعد ہی ہم اگلی اینٹ نکالنے کا کام کریں گے۔

میں ہر روز یہی سوچتا ہوں کہ کاش میری ماں کو اپنے ملک کے لیے اتنی بڑی قربانی نہ دینا پڑتی اور وہ آج بھی زندہ ہوتیں۔

لیکن جیسا کہ آزربائیجان کی صحافی خدیجہ اسماعیلوف نے کہا تھا ’اگر ہم کسی سے واقعی پیار کرتے ہیں تو ہم یہی چاہیں گے کہ آپ کے پیارے وہی کریں جو وہ کرنا چاتے ہیں۔‘ اور میری والدہ نے بھی وہی کیا جو وہ کرنا چاہتی تھیں، وہ واقعی ایک بہادر انسان تھیں، ایک ہیرو تھیں۔

ایک بات جو میری والدہ کو کبھی نہیں پتہ چلے گی وہ یہ ہے کہ ان کی موت نے مالٹا اور ملک سے باہر ہزاروں لوگوں کو زندگی میں بڑے بڑے کام کرنے کی ہمت دی۔

اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے بڑے بڑے کام کئی نڈر صحافیوں کو اس انجام سے محفوظ رکھیں گے جو میری والدہ کا ہوا۔

یہ خصوصی مضمون اکتوبر سنہ 2017 میں بم دھماکے میں ماری جانے والی مالٹا کی معروف صحافی ڈیفنی کیروانا گیلیزیا کے بیٹے نے آزادی صحافت کے عالمی دن کے حوالے سے لکھا ہے۔ میتھیو کرُونا گیلیزیا خود بھی صحافی ہیں۔ آپ انھیں ٹوئٹر پر بھی فالو کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp