وسوسہ، وہم اور توہماتی عمل


او سی ڈی (Obsessive Compulsive Disorder) ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے۔ آئیے حقیقی زندگی کی کچھ مختصر کہانیاں پڑھیں تاکہ اس مرض کو سمجھنے میں مدد ملے۔ اسماء کا چار سالہ بچہ اپنی ماں کے رخسار پہ گن کر چار دفعہ پیار کرتا ہے۔ اسے خوف ہے کہ اگر ایسا نہ ہواتو اس کی ماں بیمار ہو جائے گی۔ اسماء کی صفائی پسندی اور سلیقہ مندی گھر والوں کے لئے مصیبت بن گئی ہے۔ اس کے کپڑوں کے ہینگرز ایک خاص رخ سے لگے ہوئے ہیں۔ کتابیں اور ٹیپ حروف تہجی کے اعتبار سے سیٹ ہیں۔ اگر کوئی چیز ایک انچ بھی جگہ سے ہِل جائے تو وہ بے چین ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال ہے معمولی سی بے ترتیبی بھی اس کو پاگل کر دے گی۔ وہ کم از کم تین چار گھنٹے صفائی پہ صرف کرتی ہے۔

راشد کو امریکہ سے آئے ہوئے دو سال ہو چکے ہیں۔ کراچی جہاں لاقانونیت کا بازار گرم ہے، راشد تین چار بار لوٹا جا چکا ہے۔ جس نے اس کی پہلے سے موجود خوف کی کیفیت کو اور بڑھا دیا تھا۔ امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کی وجہ سے اس کو یہ خوف ستاتا ہے کہ پولیس کہیں اس کو دہشت گرد پاکستانی مسلمان سمجھ کر بے قصور جیل میں نہ بھیج دے۔ باھر جاتا ہے تو اسے لگتا ہے ہر نظر اس کو گھور رہی ہے۔ راشد نے باہر نکلنا چھوڑ دیا ہے۔ باوجود کوشش کے نوکری کرنا اس کے بس کا روگ نہیں رہی۔

زرینہ گو بہت سویرے نوکری کے لیے نکلتی ہے لیکن باوجود بار بار استری، چولہا اور دروازہ چیک کرنے کے وہ اکثر آدھے راستے سے واپس آ کر دوبارہ ہر چیز چیک کرتی ہے۔ اس طرح وہ کام پہ دیر سے پہنچتی ہے۔ جو اس کی ترقی کی راہ میں آڑے آتا ہے۔

رباب صوم و صلوۃ کی پابند ہے، لیکن اس کو شک رہتا ہے کہ کہیں سے گندی چھینٹ پڑ گئی اور وضو ٹوٹ گیا، وہ دن میں کئی بار وضو کرتی ہے، لیکن پھر بھی مطمئین نہیں ہوتی۔ اس کا کہنا ہے ”ناپاکی میں نماز قبول نہیں ہوتی۔ “

ماجد جراثیم کی آلودگی سے محفوظ رہنے کے لئے اکثر و بیشتر ہاتھ دھوتا رہتا ہے۔ اس کو خدشہ ہے کہ ان کی آلودگی اسے بیمار کر دے گی۔

ہو سکتا ہے کہ ایسی یا اس سے ملتی جلتی زندگی کی حقیقتیں آپ کی نظر سے بھی گزری ہوں۔ او سی ڈی انسانوں کی ایسی کیفیات سے نبرد آزما ہونے کا نام ہے۔ جو ان کی روزمرہ زندگی میں مداخلت اور منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ او سی ڈی پریشانی اور خوف کی اس کیفیت کا نام ہے جس میں ذہنِ انسانی شک، واہمہ یا وسوسے کے ہاتھوں بے بس نظر آتا ہے۔ یہ عدم اطمینان، نہ چاہتے ہوئے بھی طاری ہونے والی سوچیں یا شکلیں، انسان کو ایسے عمل کی انجام دہی پر اکساتی ہیں کہ جو ہم برے نتائج سے بچنے کے لئے سرانجام دیتے ہیں۔

اس طرح او سی ڈی سوچ اور متعلقہ عمل کا ملاپ ہے یعنی پہلے ذہن پر غیر منطقی سوچ یا تصور طاری ہوتا ہے۔ (مثلاً جراثیم بیماری پیدا کرتے ہیں) جس کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان (یعنی بیماری) سے بچنے کی ذمہ داری کا مستقل احساس اور اور پھر اس سے نبرد آزمائی کے لئے (مسلسل) ہاتھ دھونے کا عمل۔ ایک نارمل انسان اس سوچ کو نہ جاری کرتا ہے اور نہ ہی مسلسل کسی عمل کو دھراتا ہے۔ اس کا عمل اس کی روزمرہ زندگی پہ منفی اثرات نہیں مرتب کرتا۔ او سی ڈی کے مریض میں مسلسل سوچیں (Obsession) اور ان سوچوں کے رفع کرنے کے عمل کی شدت (Compulsion) ہی اس بیماری کے نام کا ماخذ ہے یعنی (Obsessive Compulsive Disorder) یا شک، وسوسہ اور توہماتی عمل کی بیماری۔

واضح ہو کہ دوسری بہت سی نفسیاتی بیماریوں کے برخلاف اس مرض میں مبتلا انسان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ طاری سوچیں اس کے ذہن کی اختراع ہیں۔ اس میں کوئی منطق یا پوری طرح حقیقت نہیں تھی لیکن وہ اپنی مسلط سوچوں سے مجبور ہوتا ہے اور غیر اختیاری عمل پہ بے بس۔

مرض کا تناسب:۔ اس دائمی مرض کا تناسب دنیا میں رنگ، نسل، مذہب، جنس اور ثقافت کی تفریق کے بغیر اوسطاً 2.0 % ہے۔ البتہ عموما مردوں میں علامات بچپنے اور بلوغت کے وقت ہی ظاہر ہو جاتی ہیں۔ جبکہ عورتوں میں عمر کے بیسویں سال کے لگ بھگ نمودار ہوتی ہیں۔ دائمی ہونے کے باوجود خوش کن بات یہ ہے کہ ستر فیصد افراد میں علاج سے بہتری ہوتی ہے اور علامات پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن کچھ صورتوں میں یہ مزید شدت بھی اختیار کر سکتی ہیں۔ علامات کبھی کبھی یا روزانہ کی بنیاد پہ ہو سکتی ہیں۔

علامات:۔

1۔ حد سے بڑھی ہوئی پریشانی کی کیفیت

2 گھبراہٹ

3۔ مخصوص عمل کو دھرانا جو ہر روز کم از کم ایک گھنٹہ وقت صرف کریں۔

4۔ مخصوص فکر یا تصور کا بار بار آنا۔

5۔ غیرمنطقی سوچ پر یقین کہ جس پر قابو پانا مشکل ہو (مثلاً ایک کے بجائے تین بار ہاتھ دھونا کہ تین کا ہندسہ خوش قسمتی کی علامت ہے۔ )

6۔ علامات کا بعض دفعہ سنگین صورت اختیار کر لینا مثلاً خودکشی کی جانب مائل رویہ، آوازوں کا سنائی دینا، ایسی چیزوں کا نظر آنا جن کا وجود نہ ہو، یعنی مالیخولیا یا (Hallucination) ۔ اپنی بنیادی ضروریات کی اہمیت سمجھنے کی صلاحیت کھو دینا۔

7۔ کچھ افراد میں جنسی عمل کے متعلق سوچیں پیچھا لے لیتی ہیں۔

8۔ صفائی کے خبط کی وجہ سے بار بار دھونے کے نتیجہ میں ہاتھوں میں جلدی بیماری یا ڈرمیٹاٹس (Dermatitis) کا ہو جانا، جسم کی کھال نوچنے کی وجہ سے زخم ہو جانا۔ سر کے بال نوچنے کی وجہ سے بالوں کا گر جانا یا گنجا ہو جانا۔ گنتی یا خاص الفاظ دل میں دھرانا۔

اکثر مریض ان علامات پہ قابو پانے یا اکثر سکون کی تلاش میں شراب یا نشہ آور ادویات کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

وجوہات:۔

سا ئنسی طور پر اس کی اصل وجوہات کا حتمی علم نہیں۔ یہ مرض عموماً خاندانی ہوتا ہے۔ گو سائنسدان اس کی محرک جینز معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض دفعہ دماغ چوٹ یا انفیکشن بھی او سی ڈی کے محرک کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہر ایک صورت میں بیماری کا تعلق دماغ میں پیدا ہونے والے کیمیائی مادے نیورو ٹرانسمیٹر کے اخراج اور مقدار کے تناسب میں بے اعتدالی ہے۔

گو عموماً مرض کی واضح علامات بچپن یا سنِ بلوغت میں ظاہر ہو جاتی ہیں لیکن تشخیص کی اوسطاً عمر تیس سال ہے۔

تشخیص:۔

یوں تو مخصوص رویہ ہی مرض کی نشاندہی کرتا ہے لیکن تفصیلِ سوالنامہ سے بھی اس کی حتمی تشخیص ہیں اور علاج میں مستعمل اور سودمند ہیں۔ سب سے مستعمل سوالنامہ (YBOCS۔ Yale Brown Obsessive Compulsive Scale) ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی ٹیسٹ استعمال ہوتے ہیں۔

دوا ئیاں :۔ ذہنی دباؤ کو قابو کرنے والی دوائیاں جن کو سلیکٹو سیروٹئن ری ایپٹک انبیٹر (SSRIs۔ Selective Serotonin Reuptake Inhibitors) کہا جاتا ہے، استعمال ہوتی ہیں، چند مثالیں ہیں۔ پروزیک، پیکسل (Paxil) زولف (zoloft) وغیرہ ہیں۔ انگزائیٹی یا ذہنی الجھن دور کرنے والی دوائیاں مثلازینکس (Xanax) سیروکئیل (Seroquel) ، یا ریسپیڈل (Rispidal) ہیں۔

دوائیوں کے علاوہ جو علاج اہم ہیں ان میں سب سے اہم گفتگو کے ذریعہ علاج (Talk Therapy) اور سائیکو تھرپی ہے۔ نفسیاتی معالج یا سائیکو تھرپسٹ جس طریقہ کو سودمند محسوس کرتے ہیں ان میں سے ایک نام کوگنٹھ تھرپی ہے۔ یعنی (CBT) یا سی بی ٹی۔

سی بی ٹی:۔ اس طریق کار میں انسان کی غیر منطقی سوچ کو منطقی دلیلوں کے ذریعہ چیلنج کیا جاتا ہے اور یوں سوچ یا تواہماتی فکر کو معقولیت پہ آمادہ کیا جاتا ہے۔ ایکسپوزر اور ریسپونس پر یوینیشن۔ (ERP۔ Exposure Response Prevention) ۔ یہ بی ٹی علاج کی ایک مفید ٹیکنیک ہے۔ جس میں مریض کو سب سے پہلے سب سے کم خوفزدہ کرنے والی چیز سے ڈر نکالا جاتا ہے۔ پھر بتدریج مزید خوفزدہ کرنے والی اشیاء یا تصورات سے بے حسی پیدا کی جاتی ہے۔ جسے ڈی سینسینائزیشن کہا جاتا ہے۔ مثلاً کسی صفائی کے خبط میں مبتلا مریض کو گندگی سے آلودہ کیا جاتا ہے۔ یہ عمل بتدریج ہوتا ہے۔ تاکہ بالآخر مریض کو یہ یقین ہو جائے کہ اس کی جان کو گندگی، آلودگی یا جراثیم سے کوئی خدشہ نہیں۔

امیجنل ایکسپوزر (Imaginal Exposure) یہ بھی سی بی ٹی کی ہی ایک ٹیکنیک کا نام ہے جس میں مریض کومختصر کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ جو اس کے مخصوص خوف کی سوچ کی بنیاد پہ ہوتی ہیں۔ اس میں بھی آہستہ آہستہ کہانیوں میں تصوراتی خوف کی سطح بلند کی جاتی ہے اور مریض کو عادی کیا جاتا ہے تاکہ وہ اندرونی خوف سے نپٹ سکیں۔

تیسری ٹیکنیک مائنڈ فلنیس بیسڈ سی بی ٹی ہے۔ یعنی (Mindfullness based) ۔ اس میں تھرپسٹ مریض کو اس کی سوچ کی بنیاد سے پوری طرح آگاہ کرتے ہیں اور پھرمریض اس کی غیر مطلقیت کو قبول کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کو اپنی سوچ کے طریق کار پہ غور کر کے اس کو قابو پا کر اس کی نعم البدل سوچ کو دماغ میں لایا جاتا ہے۔ اس کو انگریزی میں اے سی ٹی (Acceptance and commitment Therapy) کہا جاتا ہے۔ یعنی عمل کا دارومدار سوچ پر ہے۔ اگر اپنی سوچ کو قبول کر کے اس کو بہتر سوچ سے بدلا جائے تو مریض اپنے علاج میں خود بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور بہتر محسوس کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ یو گا اور مساج تھرپی بھی خوف، گھبراہٹ اور پریشانی سے نجات میں قدرے سود مند ثابت ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).