سٹنٹ گروتھ اور پاکستان کا مستقبل


میں نے پہلی بار سٹنٹ گروتھ کا لفظ جناب وزیر اعظم کی ایک تقریر میں سنا تھا جس میں آپ کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے پینتالیس فیصد بچے اچھی خوراک نہ ملنے کی وجہ سے سنٹٹ گروتھ یعنی نا مناسب نشوونما کا شکار ہیں۔ یہ الفاظ سن کر اور اس سچائی پر غور کرکے دل خون کے آنسو رویا تھا اور اور یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر جب گجرات شہر میں گھومتے پھرتے کچھ چھوٹے بچوں کو دکانوں میں کام کرتے ہوٹلوں پر برتن صاف کرتے اور ٹھیلوں پر پھل اور سبزیاں بیچتے دیکھا تو دل کے زخم پھر سے ہرے ہو گئے۔ سٹنٹ گروتھ یا نامناسب بالیدگی دراصل انسانی نشوونما کی رفتار کا ابنارمل ہونا ہے جس کی وجہ صرف غذائیت کمی نہیں بلکہ نامناسب صفائی کی وجہ سے ہونے والا ہیضہ اور پیٹ کے کیڑے بھی ہیں حتی کہ پیدائش سے پہلے ماں کو درپیش غذایت کی کمی بھی اس کی وجہ ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ وہ بچے جو غذایت کی کمی کا ایک بار شکار ہوجاتے ہیں تو اس کے اثرات ان کو تمام عمر برداشت کرنا پڑتے ہیں اور شاید دوبارہ کبھی وہ مناسب قدو قامت اور اس کے مطابق وزن حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔ اس کے کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں مثال کے طور پر بیماریوں کا شکار ہونے اور کم عمری کی اموات کا بہت زیادہ خطرہ رہنا۔

مناسب دماغی نشوونما نہ ہو سکنے کی وجہ سے تعلیم کے میدان میں اور پھر پیشہ وارانہ ماحول میں دوسروں سے پیچھے رہ جانا۔ شعور آگہی اور قابلیت کی کمی اور پیچیدہ نفسیاتی مسائل۔ غذائیت کی کمی اگلی نسل کو بھی منتقل ہو سکتی ہے اور اس کے اثرات کئی نسلوں تک سفر کر سکتے ہیں جسے ہم غذائیت کی کمی کا وراثتی سفر کہہ سکتے ہیں۔ اگر ایک بچہ دو سال کی عمر میں اس کا شکار ہوتا ہے تو اس پر اس کے اثرات زیادہ شدید ہو سکتے ہیں جو اگلی نسل تک بھی منتقل ہوں گے۔ غذائیت کی کمی آگے جا کر کچھ شدید قسم کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے مثلاً ذیابیطس دل کی بیماریاں اور ہائپرٹینشن۔

یہ تو جسمانی مسائل کی ایک جھلک تھی اس کے نفسیاتی معاشی اور معاشرتی اثرات اس کے علاوہ ہیں جو ہمارا تقریباً پورا خطہ ہی بھگت رہا ہے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ غذائیت کی کمی تعلیی اور پیشہ ورانہ میدان میں نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکنے والا بیچارہ انسان جس میں احساسِ کمتری بھی ہوگی اپنے ملک اور معاشرے کے لئے کیا کارنامہ کر پائے گا وہ اگر اپنی فیملی کی ضروریات ہی پوری کردے یا ان کو ایک اچھی زندگی دے سکے تو بڑی بات ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے اثرات کی وجہ سے کسی ملک کی جی ڈی پی تین فیصد تک متاثر ہو سکتی ہے۔

اس بارے میں کچھ ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ حکومتی سطح پر عوام کو بڑے پیمانے پر غذائی معلومات کی فراہمی حفظانِ صحت اور صحت و صفائی کا بنیادی شعور اور آگہی اور سب سے بڑھ کر صاف پانی کی فراہمی اس کے علاوہ فوڈ سیفٹی پر بھی اقدامات ضروری ہیں۔ کسی بچے کی پیدائش سے پہلے اور دوسال تک کا عرصہ بہت اہم ہے جس پر اس کی زندگی کی بنیاد ہے اس سلسلے میں ماؤں کی مناسب تربیت بہت ضروری ہے۔ کیونکہ خوشحالی اداروں پر خرچ کرنے سے نہیں انسانوں پر خرچ کرنے سے آتی ہے اور سب سے اچھی سرمایہ کاری وہ ہے جو اپنے مستقبل پر کی جائے۔ ہمیں اپنا مستقبل تاریک ہونے سے بچانا ہے اورہمارے بچے ہی ہمارا مستقبل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).