رانی لونا کی محبت گہری تھی یا پورن بھگت کا کنواں؟


لونا، سیالکوٹ کے راجہ کی ملکہ ، تاریخ کے اوراق میں ایک ظالم عورت!

مگر کیا تاریخ سچ بولتی ہے!

تاریخ لکھنے والے تو بادشاہ وقت کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور وہ لکھتے ہیں جو انہیں زیر لب بتایا اور سمجھایا جاتا ہے۔

لونا کہتی ہے

ایرا

توں وی سچ سنایا

توں وی لوناں دے زخماں تے

متاں دا بس لون ہے لایا

دھرمی بابل پاپ کمایا

لڑ لایا تیرے پھل کمایا

جس دا اچھراں روپ ہنڈایا

(سہیلی! میرے زخموں پہ اپنی نصیحتوں کا نمک نہ چھڑک ، پاپ تو میرے باپ نے کیا ہے ایک ایسے مرد سے بیاہ کے جس کی جوانی اچھراں کے ساتھ بسر ہو چکی تھی )

میں پورن دی ماں

میں پورن دے ہان دی

میں اس توں اک چمن وڈی

پر میں کیکن ماں اوہدی لگدی

(میں پورن کی ہم عمر ہوں۔ کیا میں اس کی ماں لگتی ہوں ؟)

پتا جے دھی دا روپ ہنڈاوے

تاں لوکاں نوں لاج نہ آوے

جے لوناں پتر نوں چاہوے

چتر ہین کہے کیوں

جیبھ جہان دی؟

(باپ جیسا شخص بیٹی جیسی لونا کی جوانی کا مالک بن جاتا ہے اس وقت لوگ چپ رہتے ہیں اور جب لونا بیٹے کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے تو زمانے کی زبان اسے آوارہ بولتی ہے ۔)

لوناں ہووے تاں اپرادھن

جیکر اندر ہووے سہاگن

(لونا تب گناہِ گار ہوتی اگر سہاگن ہوتی)

اوس اگن چھن میں روندی ہاں

اوس اگن چھن میں ہسدی ہاں

اپنے ہی پرچھانویں کولوں

دور دراڈے پئی نسدی ہاں

گربھ وان سپنی دے واکن

اپنا آپا ہی ڈسدی ہاں

(کیسی آگ ہے جو کبھی رلاتی ہے تو کبھی ہنساتی ہے۔ میں اپنے ہی سائے سے دور بھاگ رہی ہوں اور میں سانپ بن کے اپنے آپ کو ڈس رہی ہوں )

لگتا ہے یہ لفظ نہیں ہیں کسی بھسم ہوتی ، جاں بلب عورت کی کراہیں اور سسکیاں ہیں۔ اس عورت کو تاریخ نے ایک ہوس کی پجارن کے طور پہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔

رانی لونا!

کہانی کچھ یوں ہے کہ دوسری صدی عیسوی میں سیالکوٹ کے راجہ سالوان کاہلوں کی دو بیویاں تھیں۔ پہلی ہم عمر رانی اچھراں اور دوسری نو عمر رانی لونا۔

پہلی بیوی رانی اچھراں کا سیالکوٹ کے نواحی علاقے اگوکی سے تعلق تھا ۔ خوبصورت رانی، بادشاہ کی منظور نظر۔ راجہ کے بنوائے ہوئے شاندار محل کی مکین اور یقیناً دل کی بھی ۔

رانی اچھراں کے بطن سے لڑکا جنم لیتا ہے ۔ سیالکو ٹ میں خوب خوشیاں منائی جاتی ہیں، لیکن اس وقت خوشی ماند پڑ جاتی ہے جب جوتشی بادشاہ کو آگاہ کرتے ہیں کہ لڑکا بادشاہ کے ساتھ نہیں رہ سکتا کہ ستارے زندگی کو خطرہ بتاتے ہیں۔ بادشاہ دل پہ پتھر رکھ کے بچے کو اپنے سے دور پرورش کے لئے بھیج دیتا ہے۔

اور یہ بچہ پورن تھا، پورن بھگت !

پورن ماں باپ سے دور پل رہا ہے اور سیالکوٹ میں راجہ سالوان دوسری شادی کر لیتا ہے۔ مرتبے میں کم مگر کم عمر حسین و جمیل لونا ، اپنے سوتیلے بیٹے کی ہم عمر رانی لونا!

بڑے ہو نے پہ پورن گھر واپس لوٹتا ہے۔ اچھراں اور راجہ سالوان کی خوشی کی انتہا نہیں، لیکن کوئی اور بھی خوش اور پرجوش ہے اپنا ہم عمر دیکھ کے اور وہ ہے رانی لونا!

رانی لونا جو راجہ کے ساتھ انتہائی ناخوش زندگی گزار رہی ہے، پورن کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے۔ پورن کی چاہت آگ بن کے رگ رگ میں دوڑ رہی ہے اور اس چاہت کی تکمیل چاہتی ہے۔ سماج کی بندشیں راہ میں حائل ہیں۔ پورن یہ محبت ٹھکرا رہا ہے اور لونا زخمی شیرنی بن چکی ہے۔ اب پورن کو سامنا ہے دراز دستی کے الزام کا جو نوعمر سوتیلی ماں کی ٹھکرائی ہوئی عزت نفس کا بدلہ ہے۔

راجہ کے حضور معاملہ پہنچتا ہے، عورت کی محبت اکلوتی اولاد کی محبت پہ غالب آتی ہے اور پورن کے ہاتھ پاؤں کاٹ کے کنویں میں پھنکوا دیا جاتا ہے اور پورن بارہ سال کنویں میں گزارتا ہے۔

اتفاق سے وہاں سےمہا جوگی گرو گورکھ ناتھ کا گزر ہوتا ہے وہ پورن کو نکالتے ہیں، اپنی روحانی طاقت سے اس کے کٹے بازو ٹھیک کرتے ہیں اور اپنا جوگی بنا لیتے ہیں۔ یہی گرو گورکھ ناتھ ہیں جو گورکھا اور ناتھ قبیلے کے بانی جانے جاتے ہیں اور کھاریاں کے نزدیک ٹلہ جوگیاں ان کے نام سے منسوب ہے۔

وقت گزرتا ہے روحانیت کے مدارج طے ہوتے ہیں۔ کل کا شہزادہ پورن، پورن بھگت بن کے ابھرتا ہے، خلق خدا کی خدمت پہ کمر باندھتا ہے، اسی کنویں کے پاس کٹیا بنا کے رہنا شروع کر دیتا ہے۔ جوگی کے آستانے کی دور دور شہرت ہے۔

راجہ جو اب بوڑھا ہو چکا ہے، خدمت میں حاضری دیتا ہے۔ باپ بیٹے کا سامنا ہوتا ہے، پہچان در آتی ہے۔

آگے کی کہانی یہ کہتی ہے کہ راجہ معافی کا خواستگار ہوتا ہے۔ پورن بھگت لونا سے اعتراف جرم چاہتا ہے راجہ کے سامنے لونا کو سچ بولنا پڑتا ہے۔ پورن بھگت راجہ کو ایک اور بیٹے کی دعا دیتا ہے جو راجہ رسالو کی صورت میں پورا ہوتا ہے۔ پورن بھگت اسی طرح زندگی گزار دیتا ہے۔

صدیاں گزریں، پورن بھگت کا کنواں سیالکوٹ کے نواح میں موجود ہے جہاں آج بھی اولاد کے لئے منتیں مانی جاتی ہیں۔ پورن کو ماننے والا جنڈیال قبیلہ موجود ہے۔ کہانی موجود ہے، کہانی بننے والے کرداروں کا نام اور ترتیب موجود ہے خدا جانے تاریخ کے اوراق سے گزرتی کتنی سچ اور کتنی جھوٹ۔

بنیادی سوچ تو آج بھی وہی ہے !

عورت کو صرف جسم سمجھ کے تصرف رکھنے والا مسوجنسٹ راجہ سالوان ، اس کے ہاتھ مضبوط کر نے والی اچھراں، اپنے دائرے سے باہر نکل کے خواہش کا اظہار کرنے والی لونا اور پدرسری معاشرہ، عورت کو سزا سنانے میں ہر وقت تیار۔

اس کہانی میں کچھ سوال ہیں جن کے بارے میں مجھے رائے نہیں دینا۔ آپ فیصلہ کریں کہ:

رانی لونا غلط تھی یا سماج؟

رانی اچھراں کے بارے میں داستان خاموش کیوں ہے؟ اس کا جرم کیا تھا کہ اسے جوانی دان کر کے سوتن بھگتنا پڑی؟

راجہ سالوان کردار کا لوبھی تھا یا کانوں کا کچا تھا؟

پورن بھگت ظالم تھا یا مظلوم؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).