مجھے ڈر لگتا ہے


مجھے بچپن سے ڈرلگتا ہے۔ اندھیرے سے، سیاہ سائوں سے۔۔۔ بچپن کی کہانیوں کے خوفناک کرداروں سے۔۔۔

یاد ہے جب شام کے سائے ڈھلتے تو میرے آبائی گھر لکھپت بھون میں چارپائیاں ڈل جاتیں اور نانی کہانی سناتیں۔

جب ہمارے شہر لاڑکانہ پر مصیبت آتی تو ہزاروں برس قدیم موہنجودڑو کے کھنڈرات سے بھوت پریت اس کے گرد حفاظتی حصار کھینچ لیتے۔

بچپن میں کہانیاں سننا، پڑھنا یہ مشغلہ غالباً میرے فارسی بان نانا، جنہیں ہم بابو جی پکارتے تھے، اُن سے ملا۔

الف لیلیٰ، ہزار داستان، طلسم ہوشربا، یوں سمجھ لیجیے قصہ گوئی، کہانی بیان کرنے کا چسکا ایسا لگا کہ آج بھی اپنے آپ کو قصہ گو ہی سمجھتا ہوں۔

لڑکپن میں محلے کی سرحد پار کر کے، مرچو بدمعاش اور اس کے دوستوں کا خوف، ماں کے ساتھ قبرستان میں باپ کی قبر پر جانا اور قبرستان کے درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ کا خوف۔

اندھیرے۔۔۔۔ خوف۔۔۔۔ کالے سائے۔۔۔۔

خوابوں، کہانیوں سے نکلتے حقیقی زندگی میں لڑکپن میں ہی دیکھ لیے۔

بھٹو کی پھانسی، بکتربند گاڑیاں، بوٹوں کی تھاپ، کرفیو، اندھیری راتوں میں چھاپے، سینکڑوں نوجوانوں کی گمشدگیاں۔۔۔

اب میرے گھر کے آنگن میں افسانوی کہانیوں کے بجائے تلخ حقیقتوں کی کہانیاں بیان ہوتیں۔

یوں سمجھ لیں پاکستان کے داغدار سیاسی تھیئڑ پر بھٹو خاندان کا سانحہ، آمریت کا جبر، نوعمری میں ایک تماشبین اور نوجوانی میں جمہوریت کی جدوجہد میں سٹریٹ تھیئڑ کی کہانیاں لکھنے والے کا کردار ادا کیا۔

مجھ جیسے قصہ گو جسے بچپن میں اندھیرے کے خوف اور وسوسوں نے گھیرا ہوا تھا۔ جب صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تو اسے مزاحمتی جدوجہد کی آماجگاہ پایا۔ شاید زندگی بھر کے لیے پناہ گاہ۔۔۔ اٹھائیس برس کا سفر۔

کراچی کی خونریز گلیوں سے قبائلی علاقوں، افغانستان کی پہاڑیوں تک، لندن سے یروشلم تک۔۔۔ تنازعات، جنگ وجدل، زندگی اور موت کو قریب سے دیکھنے کا سفر۔

جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر
13 جنوری 2011 کو جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کو لیاقت آباد (کراچی) میں دفتر سے گھر جاتے ہوئے قتل کیا گیا

صحافت کا آغاز ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لگ بھگ دو برس بعد دی نیوز اخبار سے کیا۔ دن رات دی نیوز یا نیوز لائن میگزین کے دفاتر، اُن وقتوں میں نیوز روم، رپورٹرز روم ہی ہم جیسوں کے لیے تجربہ گاہ ہوتی تھی۔ یہیں صحافی سیکھتے، سنورتے اور بگڑتے تھے۔

کراچی شہر پر ایم کیو ایم کے مسلح جتھوں کی دہشت اور اندرون سندھ میں طاقتور وڈیروں کی دہشت۔ اخبارات ،جریدوں کو نذر آتش کرنا، عدم برداشت کی انتہا تھی۔

ہمارے سینئرز، اساتذہ ضیا دور کی سنسرشپ سے گزرے تھے۔ بین السطور بلاواسطہ تحریروں سے مزاحمت پر یقین کرتے تھے۔ لیکن جمہوریت کی بحالی کے بعد ہم نوجوان صحافی اس وقت کی نئی نسل، مافیاز اور طاقتوروں کو براہ راست اپنی تحریروں سے بے نقاب کرنے اور للکارنے پر یقین رکھتے تھے۔

یاد ہے ایم کیو ایم کا عروج۔ میں نے جب ایم کیو ایم کی تقسیم اور آپس کی لڑائیوں پر کہانیاں لکھیں تو ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم طارق (جو بعد میں قتل کردیے گئے) براہ راست دھمکی دی، ’میرے دل میں نرم گوشہ نہیں‘۔

12 جون 1992۔ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن، ہمارے نیوز روم، رپورٹرز روم میں بحث کہ کیا بی بی سی، وائس آف امریکہ کے مراسلوں سے خبریں بنائی جائیں؟

دہشت کی انتہا تھی۔

اس وقت میں ایک جونیئر رپورٹر تھا۔ ایڈیٹر کی اجازت سے شہر کا رخ کیا۔ دفاتر بند، رہنما، کارکنان روپوش تھے۔ الطاف حسین کی خودساختہ جلاوطنی، فوجی گاڑیاں۔۔۔ میں دفتر واپس آیا۔ اگلے روز کا اخبار میری کہانیوں سے بھرا ہوا تھا مگر میرے نام کے بغیر۔ ایڈیٹرز کی نظر میں میری حفاظت ترجیح تھی یا ماضی کا خوف؟

لیکن اسی شہر میں جب ایم کیو ایم کے کارکنوں کو دہشت گردی کے الزام میں جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا گیا۔ ہاتھ پاؤں بندھی لاشیں، گولیوں سے چھلنی لاشیں۔ ہم صحافیوں نے ان مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کی کہانیاں لکھیں، پہلے ایم کیو ایم کی دھمکیاں پھر پولیس اور نامعلوم دھمکیاں لیکن ہمارے دفاتر، ہمارا پریس کلب محفوظ پناہ گاہ تھے۔

اُن دنوں دو ایڈیٹرز سے بے حد متاثر ہوا۔ عمران اسلم جنہوں نے میری تخلیقاتی تحریر جس میں قصہ گوئی یا لٹریری آمیزش جھلکتی تھی اسے سنوارا اور اخبار میں نمایاں جگہ دی۔ جو تحریر آج بھی میری شناخت ہے۔

بے باکی، بہادری اور مزاحمت نیوز لائن کی ایڈیٹر رضیہ بھٹی مرحومہ سے سیکھی۔ چھوٹا سا دفتر اور نہ کوئی محافظ، بڑے بڑے طاقتور لوگوں، ریاستی اداروں سے ٹکر لینے کا حوصلہ۔۔۔مثالی کردار۔۔۔ میری زندگی کا اثاثہ رہا ہے۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں صحافت کی اور جب غیر ملکی میڈیا اے ایف پی سے منسلک ہوا تو افغانستان کے طالبان دور میں صحافت کی۔ لسانی، فرقہ وارانہ فسادات، فوجی آپریشنز کے بعد صحافت پر مذہبی انتہا پسندی کے جبر کے بادل منڈلاتے میں نے طالبان دور میں دیکھے۔

قندھار ہندو چوک کے گردونواح میں بسنے والے ہندو اور سکھوں کے لباس پر پیلے رنگ کی پٹیاں دیکھیں تو ماتھا ٹھنکا۔ ہٹلر۔۔۔ یہودی۔۔ یلو سٹار۔۔۔ طالبان کے اس نسلی امتیاز کی کہانی لکھی تو طوفان برپا ہوگیا، دھمکیاں ملیں اور رات کے اندھیرے میں افغانستان چھوڑنا پڑا۔ جلد ہی افغان طالبان کی انتہا پسندی پاکستان کی سرزمین پر جڑ پکڑنے لگے۔ ہزاروں مدارس، انتہا پسندوں کے جو بیج بوئے گئے تھے اب وہ تناور پودوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔

نائن الیون سے قبل بی بی سی سے منسلک ہوا، لندن سے یروشلم کا سفر کیا فلسطینی تنازعے کی کوریج بھی کی۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجیوں کا ظلم اور جبر، ہر فلسطینی گھر مظلومیت کی کہانی تھا۔ ناقابل فراموش واقعہ یہ تھا کہ رملہ میں فلسطینی نوجوانوں کو غلیل سے اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بناتے دیکھا اور اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ کے مناظر دیکھ کر میرے لیے پی ٹی وی پر بچپن میں دیکھی تصاویر جیسے میرے سامنے زندہ ہوگئیں۔ اسرائیل میں مظالم اور صحافتی سنسرشپ۔۔۔ میں نے صحافتی سنسرشپ سری لنکا میں تامل تنازع کی کوریج میں بھی دیکھی۔

صحافت، مزاحمت، خطرات کا ایک ساتھ سفر۔ نائن الیون کے بعد کئی برس تک میرا بسیرا قبائلی علاقوں اور افغانستان میں رہا۔ القاعدہ طالبان کے جتھوں کا افغانستان سے قبائلی علاقوں میں پڑاؤ اور پاکستان کی صحافت پرغیر ملکی میڈیا اور ڈالرز کی یلغار ہوئی۔

ان دنوں کی بات ہے کہ میرے سامنے وانا کے بازار میں بڑے بڑے بالوں والے کلاشنکوف اور راکٹوں سے لیس مقامی طالبان کے جتھوں کے گشت اور القاعدہ کے رہنماؤں کو قبائلیوں کے حجروں میں پناہ لیتے دیکھا۔ میں نے جب مقامی طالبان، افغان طالبان اور القاعدہ کے گٹھ جوڑ کا انکشاف کیا تو خوب شور مچا۔ القاعدہ کی دھمکیاں اور نامعلوم دھمکیاں ملیں۔ یہیں کمانڈر نیک محمد سے ملاقات ہوئی جو ڈرون کا پہلا شکار بنے۔

’یہ خنزیر کا بچہ میرے پیچھے پیچھے رہتا ہے‘ ان کا اشارہ آسمان میں ایک تارے جیسی شے (ڈرون) کی طرف تھا۔ قبائلی شروع میں اسے ’بش کی آنکھ‘ کہتے تھے۔ مجھ جیسے صحافی تو کوریج کے بعد شہروں کو لوٹ سکتے تھے لیکن قبائلی صحافیوں کے لیے صورتحال خطرناک تھی۔ ان کی صحافتی صلاحیتیں کمزور اور دنیا کی بڑی کہانی ان کی سرزمین پر تھی اور ان کے لیے خطرات ہی خطرات تھے۔

کتنا اگلا جائے کتنا نگلا جائے۔۔۔ غیر ملکی میڈیا ایک ظالم دیوتا بنا ہوا تھا۔ شورش کے زلزلے افغانستان میں اور لاوا قبائلی علاقوں میں تھا۔ قبائلی صحافی حیات اللہ کی تشدد زدہ لاش، صحافی سلیم شہزاد کا میرے سی ویو فلیٹ کے قریب مبارک مسجد میں جنازہ اور عزیز واقارب کی سسکیاں یاد ہیں اور کچھ جملے کہ شاید انہوں نے اپنے قد سے بڑی کہانیاں لکھنے کی کوشش کی اور جان گنوا دی۔ صحافت پر بڑھتے خطرات ایک طرف طالبان کی انتہا پسندی اور بڑھتا عدم برداشت اور دوسری جانب جنرل مشرف کے مارشل لا کی جانب بڑھتے قدم۔

آزادی صحافت

3 نومبر 2007۔ بیٹی ریسا کی سالگرہ تھی اور وہ اپنے دوستوں کے ساتھ رنگ برنگے جھولے پر سوار تھی کہ میرا فون بجا۔ جنرل مشرف۔۔۔ ایمرجنسی نافذ۔۔۔ ٹی وی چینلز پر پابندی۔۔۔اُن دنوں میں جیو انگلش کا ہیڈ تھا۔ دفتر لوٹتے ہوئے سوچ رہا تھا میرا لڑکپن، جنرل ضیا کا مارشل لا، آمرانہ دور، میری بیٹی کے بچپن میں ایمرجنسی نافذ۔۔۔ ماضی۔۔۔حال۔۔۔مستقبل۔۔۔۔بے یقینی کی صورتحال تھی۔

عدلیہ کی بحالی کی تحریک۔۔۔ صحافیوں کے ملک گیر احتجاج۔۔۔ لاٹھی چارج، تشدد، میں نے سینئر صحافیوں کے ساتھ گرفتاری پیش کی۔ رہائی، پھر جلوس کی صورت میں اخبار والی گلی۔۔۔۔ جسے تحریک میں ہم نے آزادی گلی کا نام دیا تھا، مشعلیں، جذباتی تقاریر، جدوجہد، آزادی صحافت کے عہد وپیما سب ایک ڈھال کی طرح۔۔۔۔ صحافیوں کی تحریک۔۔۔۔۔خطرات بدستور تھے۔

طالبان کی خطرناک دہشت گردی اور بڑھتی دھمکیاں بھی ساتھ ساتھ تھیں۔ حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے کے بعد طالبان کے ترجمان اور خطرناک کمانڈر احسان اللہ احسان کا براہ راست فون کہ ’آپ نے ہمارے امیر محترم کو شہید کیوں نہیں لکھا‘، سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور پھر دھمکی ’میں آپ کے ماتھے پر چار گولیاں مار کر قتل کرسکتا ہوں۔‘

نائن الیون کے بعد امریکی صحافی ڈینئل پرل کے قتل کے بعد صحافیوں پر قاتلانہ حملے، پھر خطرناک رجحان، رپورٹرز، نیوز روم میں کام کرنے والے صحافیوں اور ان کے رشتہ داروں کو دھمکیوں کا سلسلہ۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں صحافی کالعدم تنظیموں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان برے طریقے سے پستے رہے۔۔۔۔

تلخ یادیں۔۔۔۔نوجوان ولی خان بابر کا بہیمانہ قتل۔۔۔ اس کو اپنے ہاتھوں سے صحافتی قافلے میں شامل کیا اور اپنے کندھے پر اس کے جنازے کو رخصت۔۔۔۔ انتہائی تکلیف دہ لمحات۔۔۔ حامد میر پر قاتلانہ حملہ، رضا رومی کا ملک چھوڑ جانا، سرل المیڈا جیسے قابل صحافی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہونا، جبکہ دنیا کو مطلوب دہشت گرد آزاد گھوم رہے ہوں، تکلیف دہ۔۔۔۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ جب اپنے ہی ساتھی طنز کے نشتر لگا رہے ہوں۔

میڈیا وار۔۔۔۔ منقسم صحافتی تنظیمیں۔۔۔ پریس کلبز کا اپنے ہی ساتھیوں کے لیے غیر محفوظ ہونا۔۔۔ معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت، ریاستی، غیر ریاستی عناصر کی جانب سے سنسرشپ۔۔۔۔ سنسرشپ ماضی میں بھی رہی لیکن اس کے خلاف صحافیوں کی جدوجہد اور مزاحمت کی بھی تاریخ رہی۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ صحافیوں اور ایڈیٹرز نے ریڈ لائنز کا تعین کر لیا اور کمفرٹ زون بنائے ہیں۔ نہ ریڈ لائنز کراس کریں گے نہ سنسرشپ مسلط کرنے والوں سے ٹکراؤ ہوگا، گویا بدقسمتی سے سیلف سنسرشپ کا عنصر بھی سرائیت کرتا جارہا ہے۔

جب ٹکراؤ نہیں ہوگا تو مزاحمت کیسی؟ مزاحمت صحافت کا خاصہ ہے۔ بدقسمتی سے صحافت میں مزاحمت دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ گھٹن کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ سماج میں بڑھتا عدم برداشت، انتہا پسندی کا فروغ، سیاست سے صحافت تک غدار اور محب وطن کا لیبل لگانا، صحافت محفوظ پناہ گاہ سے غیر محفوظ۔

دم گھٹتا ہے، سانس رکتا ہے، پھر وہی کالے سائے، خوف اور پھر وہی اندھیرے۔۔۔

مجھے ڈر لگتا ہے!

اویس توحید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس توحید

اویس توحید ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں ای میل ایڈریس owaistohid@gmail.com Twitter: @OwaisTohid

owais-tohid has 34 posts and counting.See all posts by owais-tohid