اگر آپ منظور نظر ہوں


اگر آپ منظور نظر ہوں

تو ؟
نوکری ملتی ہے؟
قسمت بدلتی ہے؟
روپیہ پیسہ آتا ہے؟
حکومت مل جاتی ہے؟
یا ہر دم کوئی (خدا نہیں ) مدد گار ہوتا ہے؟

اگر یہی سب ہمارا یقین بن چکا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ،
محنت کرنے والوں کا وجود کہاں گیا؟

محنت کر کے خدا پہ بھروسا کرنے والوں کا یقین کیا ہوا؟
محنت پر سے اعتبار کیوں کر اٹھ گیا؟

ہم نے بچپن سے سنا ہے، ”محنت میں عظمت ہے“، ”محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی“،
”محنت سے انسان اپنی تقدیر بدل لیتا ہے“ وغیرہ وغیرہ
اسی طرح کی کئی اور مثالیں بڑے بوڑھوں کی نصیحت کی صورت کہیں نہ کہیں ہمیشہ کان میں پڑی ہیں۔

محنت کا استحصال کیونکر ممکن ہے؟
کیسے ہو رہا ہے؟
آئیں جواب لیں۔
یہ ہم آپ عام لوگ ہیں۔ جو متفرق طریقہ پہ کام کرتے ہیں۔

یہ متفرق رویہ ہر ادارے میں ہے۔ ہر طرف ہے۔
کرنے والے سب ہم میں سے ہیں۔
تو!
دیکھ لیں کہیں آپ کا طریقہ دوسرے کا استحصال تو نہیں کر رہا؟

محنت میں عظمت کا استحصال ہو رہا ہے۔ تو کام مل جائے گا شاید نام بھی مل جائے لیکن عظمت کہاں سے ائے گی۔ وہ عظمت جس پر قومیں بنتی ہیں آپنے معیارات کھڑی کرتی ہیں اور محنت کے بل بوتے آپنی آنے والی نسلوں پر فخر کرتی ہیں۔

وہ عظمت کہاں سے ائے گی؟ فخر کہاں سے لائیں گے، معیارات کیسے کھڑے کریں گے۔
اگر صرف منظور نظر بن گئے یا منظور نظر تیار کرنے لگے تو ہم فخر نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ ہم ہمہ وقت محنت کا استحصال کرنے میں مشغول ہیں۔
صرف یہی نہیں۔

اگر آپ ان دو رویوں میں فرق نہیں کریں گے تو یاد رکھیں آپ اس سسٹم کو کبھی ختم نہیں کر سکیں گے۔ جس کو آپ سیاسی نظام کی شکل میں کسی اور ویژن کی صورت میں واضح طور سے دیکھ رہے ہیں۔

اور بھگت بھی رہے ہیں۔

صحیح لوگ، درست ویژن، درست سمت کا تعین کرنے کے لئے چاہے کسی ناپسندیدہ شخص کا ساتھ دینا ہو۔ دیں۔
اس بات پہ ضرور غور کریں کہ آپ کسی کے منظور نظر ہوئے تو کیسے اور کیوں۔

اس شخص کے ذاتی فوائد اور رویوں کے آپ انجانے میں حامی تو نہیں بن رہے، غلامی تو نہیں کر رہے۔ اگر ایسا ہے تو شخصی فوائد سے زیادہ اجتماعی سوچ کو اہمیت دیں۔ اجتماعی فوائد کے اثرات دوررس ہوتے ہیں جلد نظر نہیں آتے۔

اپنے متفرق طریق پہ غور کریں گے تو فرق آپ جلد خود دیکھ سکیں گے۔
ممکن ہے اس صورت میں آپ ایک کے نہیں بہت سوں کے منظور نظر ہو جائیں۔

تعارف:

ناہید وحید قریشی

نیشنل اکیڈمی پرفارمنگ آرٹ سے ہدایتکاری اور اسکرپٹ کی سند حاصل کر چکی ہیں۔ تھیٹر اکیڈمی میں بطور ہدایتکارہ کئی سال کام کیا اور تھیٹر پڑھایا۔ بعد ازاں نوجوانوں کے لئے یوتھ فیسٹول میں تھیٹر متعارف کرایا۔ اس پروگرام کو کئی سال منفرد انداز سے چلایا۔

بطور کانٹینٹ مینیجر ڈرامہ چینل کے لئے کام کیا۔ ٹیلی وژن و تھیٹر کے لئے ڈرامے لکھتی ہیں۔ ان کے لکھے دو ناولٹ ”مقدمہ“ اور ”سرپرست“ آن لائین پڑھے جاسکتے ہیں۔ تحریر لکھنے کا منفرد انداز ہے۔ آزاد نظمیں بھی کہتی ہیں۔ یہ ”ہم سب“ میں ان کں پہلی تحریر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).