تقسیمِ ہند کے وقت وحشت کیوں ناچی؟


\”ماضی کو جوابدہ، مستقبل سے سُرخرو نہیں ہوسکتے\” (ٹراٹسکی)۔

\"irfan\" ٹراٹسکی کے یہ الفاظ نہایت قابلِ غور ہیں۔ کسی معاشرے کے حال اور مستقبل کے حالات کے تشکیلی عوامل ہمیشہ اس کے ماضی میں پائے جاتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے کے حال میں کوئی مستقل خرابی پائی جاتی ہے اور اسی وجہ سے اس کا مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے تو ضروری ہے کہ ایسی خرابی کی جڑیں ماضی میں تلاش کی جائیں، درست تشخیص کی جائے تب ہی درست علاج ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ماضی کا غیر جانبدار مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ جب تک ماضی میں پیوستہ ان جڑوں کا خاتمہ نہیں ہوتا، حال اور مستقبل کی درستگی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ماضی انسان کے بچپن کی طرح ہوتا ہے۔ نفسیات کا مسلمہ نظریہ ہے کہ انسان کی شخصیت کی تشکیل میں اس کے بچپن کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان ساری عمر میں اپنے بچپنے کے حصار سے نکل نہیں پاتا۔ نفسیات دان انسان کی بہت سی نفسیاتی بیماریوں کا علاج اس کے ماضی کے حالات جان کر کرتے ہیں۔ یہی حال اجتماعی انسانی نفسیات کا ہے۔

پاکستان کی پیدائش جن حالات میں ہوئی، ان میں سے ایک تقسیمِ ہند کے دوران برپا ہونے والا انسانی المیہ تھا، جس میں پاکستان اور بھارت، دونوں ممالک کے عوام پر نا ختم ہونے والے جذباتی اور نفسیاتی اثرات مرتب کر دیے۔ دونوں ممالک اس کے اثر سے آج تک نکل نہیں پائے۔ اس المیے کے ذمہ داروں کا درست تعین متفقہ طور پر ہو نہیں پایا۔ معافی تلافی کا موقع بھی اسی لیے آ نہ سکا، دل صاف نہ ہوئے، جس سے دونوں ملکوں کی سیاست بھی گدلا گئی۔ نفرت کی ایسی خیلج حائل ہو گئی کہ جس کو پاٹنا کسی کے بس میں نہ تھا۔ اس نفرت سے نفرت کی فصل کی مسلسل آبیاری کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کے ختم ہونے کا کوئی امکان مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس المیے کا غیر جانبدار مطالعہ اور اس کی بنیاد پر ذمہ دارون کا تعین اور پھر معافی تلافی نہیں ہو پائی۔

ہم یہ کہتے تو ہیں کہ ماضی کو بھلا کر آگے کا سفر کیا جائے، لیکن درسی کتب، ہر سال یومِ آزادی پر چھپنے والے اخبارات اور رسائل کے خصوصی شمارے، تقاریر اور سیمینار ہمیں یہ سب بھولنے نہیں دیتے۔ ایک سوچنے والا جاننا چاہتا ہے کہ اگست 1947 کے بعد برصغیر کے ان عام سے لوگوں کو آخر ہوا کیا تھا، وہ انسان سے جانور بلکہ جانور سے بدتر کیسے ہو گئے تھے؟ کس نے انہیں نفرت کے الاؤ میں پکا کر شیطان بنا دیا تھا؟

ہم یہاں ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں، تاکہ اگر ہماری کوشش سے ہمارے حال اور مستقبل کے سدھار کی کوئی راہ نکل سکتی ہے خدا کرے نکل آئے۔

\"batwara\"اگست 1947 کی تقسیمِ ہند کے اس انسانی المیے میں محتاط اندازے کے مطابق دونوں اطراف کے 2 لاکھ سے تین لاکھ ساٹھ ہزار تک افراد نے اپنی جان گنوائی۔ تقریباً 14 کروڑ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ خواتین جن کی عصمت دری کی گئی، ان کے درست اعداد و شمار تو شاید کبھی دستیاب ہو بھی نہ پائیں گے، اور نہ ان خواتین کے اعداد و شمار کبھی مل پائیں گے جنہوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے کنوؤں میں چھلانگ لگا کر اپنی جانیں دیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پنجاب کے کنویں ان عزت مآب خواتین کی لاشوں سے پٹ گئے تھے۔ ان خواتین نے اجتماعی خود کشیاں کی تھیں۔ برصغیر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ انسان سے شیطان بن گیا تھا، جس نے سیاسی اختلافات پر اپنے ہی ہم زمین افراد کے بہیمانہ قتل و غارت گری اور عصمت دری کی وہ وحشت ناک مثال قائم کی جس پر ہماری نسلیں سدا شرمندہ رہیں گی۔

سٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرِ نفسیات فلپ زمبارڈو نے روانڈا میں 1994 ہونے والے قتلِ عام کا مطالعہ کر کے ایک کتاب، The Lucifer Effect کے نام سے لکھی ہے، جس میں اس نے بتایا کہ کس طرح روانڈا میں برسوں اکھٹے رہنے والی دو مختلف النسل قومیں ٹیوٹسی (Tutsi) اور ہوٹو(Hutus) کے درمیان سیاسی رقابت اجاگر کی گئی اور کس طرح ہوٹو اکثریت نے ٹیوٹسی اقلیت کا قتلِ عام کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ عام  سے لوگ تھے۔ کوئی مجرم پیشہ نہیں تھے۔ لیکن جب ایک قوم کو دوسری قوم کا دشمن باور کروا دیا گیا تو حال یہ ہو گیا کہ مرد تو رہے ایک طرف ہوٹو اکثریتی آبادی کی عورتوں تک نے ٹیوٹسی اقلیت کے قتلِ عام میں حصہ لیا۔ وہ غول بنا کر چھرے چاقو لے کر نکلتے، ٹیوٹسی افراد کو گھیر گھیر کر مارتے اور ایسے خوش و خرم واپس آتے جیسے میچ جیت کر آئے ہوں۔ ان کے قتل کے طریقے، ٹیوٹسی عورتوں کی ان کے اپنے محرموں سے جبرا عصمت دری اور بچوں کو قتل کرنے کے ہوشربا واقعات ہیں جن کو پڑھنا بھی ایک عام انسان کے لیے بڑی ہمت کا کام ہے۔

فلپ زمبارڈو اس المیے کے مطالعے سے جس نتیجے پر پہنچا وہ ایک نہایت پریشان کن حقیقت ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ انسان کے رویے میں یہ بدلاؤ situational factor کے زیرِ اثر آتا ہے، کوئی بھی انسان اور انسانی معاشرہ صورتِ حال کے اس عامل کے نمودار ہونے پر ایسا سب کچھ کر گزرنے کی پوشیدہ صلاحیت رکھتا ہے، کوئی بھی انسان ایسا وحشیانہ طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے۔ تفصیل کے طالب اس کی کتاب دیکھ سکتے ہیں جو نیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ فلپ زمبارڈو نے اس صورتِ حال کے پیدا کرنے کا ذمہ دار ان سیاسی رہنماؤں کو قرار دیا ہے جنھوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر یہ انسانی المیہ برپا کروایا۔

\"batwara2\"اب آئیے تقسیمِ ہند کے وقت برپا ہونے والے اس انسانی المیے پر۔ یہاں دو باتیں پہلے الگ کر لیجئے۔ ایک پاکستان کا بننا۔ اور دوسرا اس کے نتیجے میں وہ انسانی المیہ جس کا ذکر کیا گیا۔ یہاں پاکستان بننے کے جواز یا عدم جواز کی بات نہیں ہو رہی، بلکہ اس بات پر توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیا اس المیے سے بچنا ممکن تھا؟ اگر ہاں تو پھر اس المیے کو برپا کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟

متحدہ ہندوستان میں مسلم ہندو جھگڑے ہو جایا کرتے تھے، جیسا کہ دیگر مذہبی کمیونٹیز میں ہو جایا کرتے تھے۔ اس کے اپنے تاریخی، سیاسی اور سماجی عوامل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے فسادات برپا کرنے والے ہر معاشرے میں نہایت کم اور اس کی مذمت کرنے والے ہمیشہ بہت زیادہ اکثریت میں ہوتے ہیں اور ایسا ہی قبل از تقسیمِ ہند بھی تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس معاملے میں بھی کانگرس نے اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا نہ کی، ادھر آل انڈیا مسلم لیگ نے نفرت کے واقعات کو کیش کروانا اپنی قومیت پر مبنی سیاست کے لیے ضروری سمجھا۔ کانگریس کی ہندو طرف داری نے اس پر جلتی پر تیل کا کام کیا۔ گاندھی جی کی امن پالیسی پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہ ہوا۔ مسلمانوں کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ مسلم لیگ ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہندو اکثریت سے لڑ رہی ہے، اور ایسا تھا بھی، لیکن ہو یہ رہا تھا کہ نفرت کے واقعات کے کو سیاسی طور پر ہوا دینے اور دیتے رہنے سے مسلمان اور ہندو دو سیاسی دھڑوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہو گئے۔ معاملہ چند انتہا پسندوں کا نہ رہا، بلکہ دو قوموں کا مسئلہ بن گیا۔ بالکل ایسے ہی جیسے گلی میں دو بچے لڑ پڑیں اور ان کے بڑے معاملہ سلجھانے کی بجائے خود بھی لڑ پڑیں تو بات قتل و غارت گری تک جا پہنچے۔ پاکستانی معاشرے کے حالیہ تناظر میں ن لیگ اور پی ٹی آئی یعنی ن اور جنون کی رقابت اور نفرت کی  مثال سے اُس وقت کے ہندو مسلم یا کانگریس اور مسلم لیگ کے منظر نامے کو سمجھا جا سکتا ہے۔

یہاں ایک بات اور سمجھنے کی ہے۔ یہ بات انفرادی سطح پر تو سب کو سمجھ آ جاتی ہے لیکن اجتماعی سطح پر کم لوگ اسے سمجھنے پر تیار ہوتے ہیں۔ پہلے انفرادی طور پر سمجھئے۔ اگر محلے میں کوئی اثر رسوخ والا بدمعاش رہتا ہو، تو عافیت اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ اس سے منہ ماری نہ ہی ہو۔ نتائج برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو تو انسان کو اپنے سے زیادہ بڑا ہاتھ مارنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی کیا جا سکتا ہے کہ ایسے طاقت ور بدمعاش کو چیلنج کیے بغیر اس کو سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ یہی رویہ اجتماعی سطح پر بھی اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے، خصوصاً اس صورت میں جب انسان کثیر القومی سماج اقلیت کی صورت میں رہ رہا ہو۔ لیکن یہاں ہمارے سیاسی رہنما بیچ میں آ جاتے ہیں جو ہماری اجتماعی دانش کو پنپنے نہیں دیتے اور جو رویہ ہم انفرادی طور پر درست انداز میں اپناتے ہیں وہ رویہ ہمیں اجتماعی طور پر اپنانے نہیں دیا جاتا۔ مسلم لیگ نے بھی یہی کیا۔ یہ معلوم تھا کہ ہندو اکثریت میں ہیں۔ ان کی طرف کے کچھ لوگوں کو طرف سے مسلم اقلیت کے ساتھ ناانصافی بھی ہوتی رہتی تھی، جس طرح یہاں مسلم اکثریت میں سے کچھ لوگ غیر مسلم اقلیت کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔ لیکن دونوں طرف کے اجتماعی ضمیر نے کبھی ان ناانصافیوں کی حمایت نہیں کی تھی۔ لیکن مسلم لیگ کی سیاست نے نفرت کی سیاست کو ہوا دے کر ساری ہندو اکثریت کو ہی اپنا رقیب بنا لیا۔ وہ نفرت جو چند انتہا پسندوں میں ہمیشہ ہوتی آئی ہے، اسے سیاسی مفادات کی خاطر ہندو مسلم قومی نفرت میں تبدیل کر دیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے جو تقسیمِ ہند کی تجویز مسلم لیگ نے پیش کی اس میں اس مسلم اقلیت کے مسائل کا کوئی حل سرے سے تھا ہی نہیں جن کی وجہ سے الگ ملک کی تجویز رکھی گئی تھی، اس لیے کہ پاکستان ان علاقوں میں بننے جا رہا تھا جہاں مسلمان پہلے سے اکثریت میں موجود تھے!

جب اس ہندو مسلم نفرت کا نتیجہ تقسیمِ ہند کی شکل میں، مسلم لیگ کی جلد بازی کی وجہ سے توقع سے بہت پہلے سامنے آگیا تو اپنے ملک کو ماتا قرار دینے والے ہندو اور سکھ کی مشترکہ اکثریت کے لیے یہ بڑا سانحہ تھا۔ باہمی نفرت اپنے عروج پر پہنچ گئی اور وہ صورتِ حال پیدا ہوگئی جس کا ذکر اوپر سیچویشنل فیکڑ میں کیا گیا۔ اور پھر وہ کچھ ہوا جس کے ذکر سے تاریخ ہمیشہ شرمندہ رہے گی۔

\"batwara3\"اہم بات یہ ہے کہ اگر تقسیم کے عمل میں جلد بازی نہ کی جاتی تو اس انسانی المیے سے بچا جا سکتا تھا۔  ہوا یہ کہ حکومت برطانیہ، مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان 1946 کے بعد سے اختیارات کی تقسیم پر بات چیت جاری تھی۔ لیکن مسلم لیگ کو کانگریس پر اعتماد نہیں تھا جس کا اس کے پاس جواز موجود تھا۔ مسلم لیگ چاہتی تھی کہ تقسیم کا یہ کام انگریز اپنے ہاتھوں سے انجام دے کر جائیں۔ کانگریس نے اس موقع پر ضروری لچک دکھانے سے بھی انکار کر دیا۔ اس پر قائد اعظم حکومت اور کانگریس پر دباؤ بڑھانے کے لیے نے 16 اگست 1946 کو یوم راست منانے کا اعلان کر دیا جس سے ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے، جس میں کم از کم 4 ہزار لوگ مارے گئے اور ایک لاکھ بے گھر ہو گئے۔ یہ حالات دیکھ کر تقسیم امکان سے بڑھ کر یقینی بن گئی۔ انگریزوں نے تقسیم کا عمل تیز کر دیا اور اس جلد بازی میں متحدہ ہندوستان کی آبادی جو ابھی تک اس عمل کے لیے ذہنی، اور انتظامی طور پر تیار نہ ہو پائی تھی، غصے میں پاگل ہوگئی اور فسادات پھوٹ پڑے۔ دیکھا جائے تو دباؤ بڑھانے کے لیے سٹریٹ پاور کا استعمال ایک مہلک ہتھکنڈا ہے۔ مطالبہ خواہ کیسا ہی درست کیوں نہ ہو لیکن اس کے حصول کے لیے عوام کی قربانی دینا کسی ایسی قیادت کو زیب نہیں دیتا جس کو لوگوں سے ہمدردی کا دعویٰ ہو۔

لگتا یہی ہے کہ مسلم لیگ کو تقسیمِ ہند کے نتیجے میں ممکنہ فسادات کا پورا ادراک تھا اور قیام پاکستان کی خاطر انسانی جانوں کی یہ قربانی ایک سوچا سمجھا فیصلہ تھا۔ لیکن ان کے لیے الگ ملک جلد از جلد حاصل کرنا زیادہ ضروری ٹھہرا تھا، انسانی جانوں کا ضیاع انہوں نے جان پوچھ کر گوارا کر لیا تھا۔ اس کا ایک ثبوت تو یہی یومِ راست کا اقدام ہے، جس سے حالات کی حدت کا اندازہ سب کو تھا، دوسرا ثبوت قائد اعظم کا وہ انٹرویو ہے جو انہوں نے 21 مئی 1947 کو ڈون کومب ویل کو دیا۔ جس میں قائد اعظم نے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے ممکنہ خوفناک نتائج پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ انٹرویو کا اقتباس یہ ہے:

\”The new clamour for partition that is stated is by the vocal section of the caste Hindus in Bengal and the Sikhs in particular in the Punjab will have disastrous results if those two provinces are partitioned and the Sikhs in the Punjab will be the greatest sufferers; and Muslims under contemplated Western Punjab will no doubt be hit, but it certainly will deal the greatest blow to those, particularly the Sikhs, for whose benefit the new stunt has been started. Similarly in Western Bengal, caste Hindus will suffer the most and so will the caste Hindus in Eastern Punjab.\”

(تقسیم کے مسئلے پر یہ نیا شور و غوغا جو بنگال میں طبقاتی ہندوؤں نے اور خصوصا پنجاب میں سکھوں نے شروع کیا ہے، اس کے بہت بھیانک نتائج ہوں گے اگر دونوں صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور پنجاب میں سکھوں کو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہوگا اور مسلمانوں کو پنجاب کے مغربی حصے میں نقصان ہوگا، مگر جن کے نام پر یہ نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے یعنی کہ سکھ، ان کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔ اسی طرف ہندوؤں کو مغربی بنگال میں اور مشرقی پنجاب میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔)

گویا کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ نے تقسیمِ ہند کو اس انسانی المیے، جو وسیع پیمانے پر قتل و غارت، عصمت دری، نقل مکانی اور اس سے پیدا ہونے والے جذباتی اور نفساتی المیے کی صورت میں پیدا ہوا، اور جس کے اثرات ہندو مسلم نفرت کے احساس کی صورت میں نسلوں کو منتقل ہوتے چلے آ رہے ہیں، جس کی وجہ سے جنگوں، ایک دوسرے کے ہاں بدامنی پیدا کرنے کے لیے دھماکوں، ایک دوسرے کے ہاں باغی عناصر کی پشت پناہی وغیرہ جیسے اقدامات پالیسی کا حصہ بن گئے ہیں، اس سب کا احساس کرتے ہوئے بھی جلد بازی کی تقسیم کو گوارا کر لیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ اس المیے کو برپا کرنے کی مجرم نہیں؟ اس پر مستزاد یہ کہ برصغیر کے لوگوں پر مسلط کردہ اس قتل و غارت کے نتیجے میں ان کی مظلومانہ موت کو شہادت کا لیبل لگا کر اس المیہ کو پیدا کرنے والوں کو سرے سے کبھی مجرم ٹھہرایا ہی نہیں گیا۔

ملک لوگوں کے لیے بنائے جاتے ہیں، لوگ کو ملکوں پر قربان نہیں کیا جاتا۔ ہند کے مسلمانوں کو المیوں سے بچانے کے نام پر الگ ملک بنایا گیا تھا مگر خود ان کے لیے یہ اتنا بڑا المیہ برپا کر دیا گیا۔ اتنے لوگ تو متحدہ ہندوستان کے مبینہ فسادات میں صدیوں میں نہ مرتے جتنے تقسیم کے وقت مار دیئے گئے۔

یہ نفسیات کہ ریاست پر عوام کو اور ان کی بنیادی ضروریات کو بھی قربان کیا جا سکتا ہے، یہ نفسیات تقسیم کے وقت سے ہی ریاستِ پاکستان کے سیاسی خمیر میں داخل کر دی گئی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری ریاست ایک طرف ایٹمی طاقت بھی ہے اور دوسری طرف بجلی کی بنیادی ضرورت کی شدید کمی سے دوچار بھی، میزائل کی جدید ٹیکنالوجی سے لیس بھی ہے اور خوراک کی کمی کا شکار بھی، جدید اسلحہ کی بڑی خریدار بھی ہے اور تعلیم کے میدان میں ابتری سے بے حال بھی۔ آج بھی دیکھ لیجیئے کہ دہشت گردی کے واقعات میں مارے جانے والے مظلوم عوام کو شہید قرار دے کر متعلقہ اہل کاروں اور محکموں کی نااہلی کو بری الذمہ قرار دینے کی روش آج بھی قائم ہے۔ جن لوگوں کو اپنی ذمہ داری پوری نہ کر سکنے کی وجہ سے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے تھا وہ آگے بڑھ بڑھ کر مارے جانے والوں کے لواحقین کو شہادت کی مبارک باد دیتے ہیں۔ احتساب کو کوئی تصور نہیں، ذمہ داران اپنے لائحہ عمل کو تبدیل کرنے اور کارکردگی میں کوئی بہتری لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور اپنی اسی روش قائم ہیں اور وہی پرانا عزم برقرار رکھنے کا اعلان بھی کرتے جاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ عوام کا مرنا نہ پہلے کبھی کسی کے لیے درد سر نہ اور نہ آج۔ بقول خورشید ندیم یہ موت کو گلیمرائز کرنے والی بات ہے تاکہ لوگ زندگی سے زیادہ موت پسند کریں اور نااہلوں کی نااہلی پر انگلیاں نہ اٹھائیں تاکہ ان کی زندگی کی فرحتیں ہمارے خون کی لالی سے دمکتی رہیں۔ یہ وہ روش ہے جو مجرم کو محسن اور رہزن کو رہبر قرار دیتی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی یہ روش نہ بدلی، احتساب کا طرز عمل نہ اپنایا تو ہم اور ہماری آئندہ نسلیں بھی یوں ہی مظلومانہ طور پر مرتی رہیں گی۔ عطار کے لونڈے کی جو دوا ہمارے لیے زہر ہے، وہی دوا ہمیں تریاق باور کروا کر برسوں اسی طرح کھلائی جاتی رہے گی۔

فیصلہ ترا تیرے ہاتھوں میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments