ناپسندیدہ تشخیص کی صورت میں معالج کو مت کوسیں


دو دن پہلے ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کا مضمون پڑھا جس میں ناول ”اے تحیر عشق“ کے کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ کیا گیا تھا۔ آج سونے سے قبل حسب عادت ”ہم سب“ کا صفحہ کھولا کہ کچھ اچھا پڑھنے کو مل جائے تو نیند اچھی آئے گی تو ”تحیر عشق“ کے خالق رفیع مصطفی صاحب کا اپنا مضمون دیکھا، ”شرافت یا جنسی بزدلی“۔ سو وہ پڑھنا شروع کر دیا اور پھر ہوا یوں کہ نیند ہی غارت ہو گئی۔

پڑھ کر لگا کہ رفیع مصطفی صاحب کو ڈاکٹر خالد سہیل کی رائے ناگوار گزری۔ اس سے پہلے جب میں نے ’ہم سب‘ کے فورم پر دو مرتبہ قلم کشائی کی تو دونوں مرتبہ اس کی وجہ ڈاکٹر خالد سہیل صاحب سے کسی نکتے پر اختلاف تھا۔ اختلاف بہت مثبت شے ہے۔ اگر اختلاف نہ ہوتا تو انسانیت اتنی ترقی نہ کرتی۔ موشن کے لیے فرکشن لازمی ہے ورنہ انسان منہ کے بل جا گرتا ہے۔ اختلاف کے لیے دوسری ضروری چیز نرمی اور سختی میں لچک ہے۔ گرمیوں کے ٹائر کینیڈا کی سردی میں اسی لیے فیل ہو جاتے ہیں کہ وہ پانچ ڈگری سے نیچے نرم نہیں رہتے سخت ہو جاتے ہیں اور برف پر پھسلتے ہیں۔

جب جب اختلافات نے ایک دوسرے کو کمپلیمنٹ کیا ہے شاہکار سامنے آئے ہیں، انسانیت آگے کو بڑھی ہے۔ مارکس، اینگلز، لینن، ٹراٹسکی کی بہت سے مضامین اور کتابیں دراصل کسی سے اختلاف کی بنا پر ہی لکھی گئیں اور یوں محنت کش طبقے کو وہ نظریاتی بنیاد ملی جس نے آج سے ایک سو ایک سال پہلے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب برپا کر دیا۔

ٹراٹسکی نے 1906 کے انقلاب کی ناکامی کا مطالعہ کیا اور نظریہ مسلسل انقلاب دیا جس کے مطابق وہ ممالک جہاں سرمایہ داری ابھی پھلی پھولی نہیں ہے وہاں محنت کشوں کا فریضہ ہے کہ وہ سرمایہ داری کا پورا دور ایک جست میں پھلانگ کر جاگیرداری سے سیدھا سوشلزم میں چلے جائیں۔

لینن، مارٹوف، ایکسلراڈ، پلیخانوف وغیرہ سے بہت کم عمر ہونے اور RSDLP کے دونوں دھڑوں بالشویکوں اور مینشویکوں دونوں سے اختلاف کی وجہ سے اس خیال کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ لینن خود اختلاف کے باوجود ہمیشہ ٹراٹسکی سے شفقت سے پیش آیا جبکہ دوسروں کو وہ خوب آڑے ہاتھوں لیتا تھا۔ 1917 میں لینن نے دوران سفر روسی محنت کشوں کے لیے ایک ہدایت نامہ ’اپریل تھیسس‘ جاری کیا جس بنیاد ٹراٹسکی کا نظریہ مسلسل انقلاب ہی تھا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اختلاف ترقی کو جنم دیتا ہے اور اختلاف سالوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ اب یہ ہم پر موقوف ہے کہ ہم اختلاف سے آگے بڑھنے میں مدد لیتے ہیں یا اپنی ضد میں اڑ کر دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ دونوں مضامین پڑھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ ناول نگار کا اختلاف کاؤنٹر پراڈیکٹو شکل دھار گیا ہے۔

جو بات میری سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ناول کے کردار ناول نگار کے تخلیق کردہ ہوتے ہیں۔ فرضی کرداروں کے نفسیاتی تجزیے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی اور وہ بھی ”امام الملحدین“ سے۔ لگتا ہے کہ ناول نگار کو ایک ڈاکٹر کی تشخیص نہ صرف یہ کہ پسند نہیں آئی بلکہ شاید برا لگا اور نفسیاتی تجزیے میں سب نظر انداز کر کے اسے ”جنسیاتی تجزیہ“ کا نام دے دیا۔

دوسری بات جو میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر کرداروں کے نفسیاتی تجزیے سے اختلاف ہے تو کینیڈا میں تیس سال سے پریکٹس کرنے والے کسی اور نفسیات دان سے رائے لی جانی چاہیے۔ آپ اگر ڈاکٹر کی تشخیص سے متفق نہیں ہیں تو سیکنڈ اوپینین کے لیے کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں یا خود استخارہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ٹھیک کہہ رہا ہے یا نہیں۔

ایک نفسیاتی تجزیے کو جنسیاتی تجزیہ کہہ کر رد کرنے پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک مریض ایک ماہر نفسیات کے پاس گیا۔ انٹرویو کے بعد ڈاکٹر نے کاغذ پر ایک افقی لائن کھینچی اور پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ مریض نے کہا ایک نہایت حسین دوشیزہ برہنہ لیٹی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر نے دوسرے کاغذ پر ایک عمودی لکیر کھینچی کہ اب یہ کیا ہے۔ مریض بولا کہ ایک نہایت حسین دوشیزہ برہنہ کھڑی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر نے تیسرے کاغذ پر L لکھ دیا کہ اب بتاؤ۔ وہ بولا ایک نہایت حسین دوشیزہ برہنہ دو زانو بیٹھی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا تمھارے دماغ پر جنسیات حاوی ہیں۔ مریض ڈاکٹر کو برا بھلا کہتے ہوئے چلا آیا کہ گندی گندی تصویریں خود بناتا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ میرے ذہن پر جنسیات حاوی ہیں۔

سوچ جب تک ذہن میں مقید ہے وہ ذاتی ملکیت ہے۔ بلال اور مومنہ چاہیے جو مرضی کریں یا کچھ بھی نہ کریں۔ خیال کے گھوڑے کو کسی بھی سمت میں کسی بھی رفتار سے دوڑایا جا سکتا ہے، کوئی کچھ کہہ ہی نہیں سکتا۔ مگر جب یہی خیال الفاظ کا لبادہ اوڑھ کر سماعت یا بصارت کی صورت دوسروں تک پہنچ گیا تو اب کردار ذاتی ملکیت نہیں رہے پبلک ڈومین میں آ گئے۔ بلال اور مومنہ اب بند کمرے میں نہیں ہیں بلکہ بھرے بازار بیچ چوراہے میں کھڑے ہیں۔

اب وہ لکھاری کے نہیں، قاری کے رحم وکرم پر ہیں۔ بہت ممکن ہے کسی لکھاری کو اپنے کرداروں سے اولاد کی طرح محبت ہو۔ مگر جب کرداروں کو کسی کہانی میں شائع کر دیا جاتا ہے تو وہ نافرمان اولاد کی طرح اب لکھاری کی نہیں سنتے اور والدین کو تنہا چھوڑ کے موو آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ بلال ایک فرضی کردار ہے۔ لکھاری کے دماغ میں وہ شریف ہوں گے لیکن قاری اگر بلال کے کسی فعل کا ذمہ دار شرافت کی بجائے بزدلی گردانتا ہے تو اب کردار کا دفاع ممکن نہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ناول کے ساتھ انسٹرکشن مینوئل نتھی کر دیا جائے کہ فلاں کردار کے فلاں موقع پر فلاں فعل کو فلاں زاویے سے ہی دیکھا جائے۔ ایسی کوشش کسٹمر سروس سینٹر کی کال کی طرح ہو جائے گی اب ایک دبائیں، اب دو دبائیں، اب سات دبائیں۔

میں مغرب میں دو طرح کے پاکستانیوں سے ملا۔ ایک وہ جو اتنے عرصے سے مقیم ہیں کہ ان کا لباس، رہن سہن، زبان اور سب سے بڑھ کے ان کا انداز فکر عین مغربی ہے۔ جیسے اردو بولنے والا گورا۔ دوسری قسم انگلش بولنے والے دیسی وہ جو رہتے یہاں ہیں، مگر ترقی پسندانہ سوچ کو اپنا نہ پائے، یا کسی وجہ سے اپنانا نہیں چاہتے۔ یہ دو کشتیوں کے سوار ہیں۔ دلدل میں دھنسے ہوئے ستاروں پر کمند ڈالنے کی سوچ۔ جیسے کوئی نئی ٹیلسلا لے کر پٹرول پمپ پر پریشان کھڑا ہے کہ اس میں پٹرول کہاں ڈلتا ہے۔ کچھ لوگ مکہ مدینے جا کر بھی پاکستان فون کرتے ہیں کہ داتا صاحب دیگ چڑھا دینا کہ حج عمرہ قبول ہو جائے۔

ناول کے کردار بلال اور مومنہ چالیس کی دہائی میں یونیورسٹی جاتے ہیں۔ میری پیدائش انیس سو اسی کی ہے۔ چالیس کی دہائی میں نے صرف تصویروں اور فلموں میں ہی دیکھی ہے۔ مگر یونیورسٹی جانے والی خواتین کو، تصویروں اور فلموں میں، میں نے نقاب کرتے نہیں دیکھا۔ یونیورسٹیوں میں نقاب کا فیشن غالبا ضیاء الباطل کے دور میں آیا۔ میرے گھر کی بہت سی بزرگ خواتین یونیورسٹی گئیں۔ کچھ نے ماسٹرز کیا، کچھ نے پی ایچ ڈی۔ لیکن ان کی پرانی تصویروں میں مجھے کوئی برقع پوش یونیورسٹی کی خاتون نظر نہیں آئی۔ برقع پوش یا تو یونیورسٹی نہیں جاتی تھیں یا ممکن ہے تصویر نہ بنوا تی ہوں۔

اس پیرا پر تو بہت دکھ ہوا جہاں یہ کہا گیا ہے ”شکر ہے کہ معاشرے کی تشکیل میں کچھ پابندیاں شامل رہی ہیں۔ اگر ان پابندیوں کی کوئی ضرورت نہ محسوس کی جاتی جوتہذیب، ثقافت، اخلاقی اقدار، ادب و آداب اور مذہب نے عائد کی ہیں اور اگر معاشرے کو مادر پدر آزاد چھوڑ دیا جاتا توآج بھی انسان ہاتھ میں ڈنڈا لئے اپنے غار سے نکلتا اور اپنی پسندیدہ مادہ کے بال پکڑ کر اسے گھسیٹتا ہوا غار میں لے جاتا۔ “ یہ پیراگراف پڑھ کر یوں لگا کہ ناول کو تبصرے کے لیے ڈاکٹر خالد سہیل کی بجائے اوریا مقبول جان کو بھیجا جانا چاہیے تھا۔

اس پیراگراف کی اس مضمون میں کیا ضرورت تھی؟ مادر پدر آزادی کی بات کیوں کی جارہی ہے؟ تاریخ میں ایسا کون سا دور تھا جب انسان غار سے نکلتا اور اپنی عورت کو اٹھا لے جاتا ہاں البتہ مسجد خانقاہوں مندروں گرجوں سے ایسے حضرات برآمد ہونے کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں۔ کوئی حوالہ ملے تو میری تاریخ شاید درست ہو جائے۔ آزادی ہمیشہ ہی کچھ پابندیوں کے ساتھ آتی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پسندیدہ عورتوں، بچیوں حتی کہ بچوں کے ساتھ بدفعلی وہاں زیادہ ہے جہاں پابندیاں زیادہ ہیں یا وہاں جہاں پابندیاں کم ہیں۔

آخر میں یہ نہ جانے کسے راسپوتین کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ راسپوتین روس کے آخری زار نکولس دوئم کا سرکاری درباری مذہبی پیشوا تھا نا کہ کوئی ملحد۔ میں زندگی بھر ادب سے دور ہی رہا۔ ڈاکٹر خالد سہیل کے تجزیے کے بعد سوچا تھا کہ کفر توڑ ہی دیا جائے، اس بے ادبی سے خلاصی لی جائے اور ناول پڑھ ہی لیا جائے مگر جب ناول نگار کا اختلافی مضمون دیکھا تو ارادہ منسوخ کر دیا۔

اسی بارے میں

رفیع مصطفیٰ کے ناول۔ اے تحیرِ عشق۔ کے رومانوی کرداروں کی بزدل شرافت
شرافت یا جنسی بزدلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).