عالمی یوم آزادی صحافت


آزادی صحافت کا مفہوم ہے جو سچ ہے من و عن وہی منصہ شہود پہ لایا جائے۔ اور سچ حکومتوں کے مفادات سے لگا نہیں کھاتا، سچ اشرافیہ سننا اور دیکھنا نہیں چاہتی۔ سچ طاقت ور کی طاقت سے بیر رکھتا ہے۔

آزادی صحافت کا تقاضا ہے کہ

سرکار کے پیسوں سے ”صحافتی کوٹہ“ پہ مفت حج نہ کیا جائے ورنہ سرکاری حج آپ کے قلم کو مصلحت پسند بنائے گا۔

آزادی صحافت کے لئے ضروری ہے کہ

حکومت کو ”صحافی کالونی“ کے لئے بلیک میل نہ کیا جائے کیونکہ آپ صحافی ہو، صحافت آپ کا شوق ہو سکتی ہے، مجبوری ہو سکتی ہے، ذریعہ معاش ہو سکتی ہے مگر آپ کو کوئی حق نہیں کہ عوام کی ملکیتی زمین پر حکومت کو بلیک میل کرتے ہوئے پلاٹ حاصل کریں۔

آزادی صحافت یعنی آپ پریس کلب کے لئے انتظامیہ سے بھیک نہ مانگیں، جب صحافیوں کی بیٹھک پریس کلب ہی ڈی سی، اے سی کی مرہون منت ہو گی تو آپ ان کے کاسہ لیس ہو جاؤ گے اور بہت ساری خبروں کو چھاپنے کے بجائے چھپانے پر مجبور ہو گے۔

آزادی صحافت کی مان اس طرح رکھی جا سکتی ہے کہ آپ دو دو ٹکے کے سرکاری افسر بنے ملازمین سے ”صحافتی سرٹیفیکٹ“ وصول نہ کریں۔ سرکاری ملازمین سے ”بہترین صحافت“ کی اسناد لینے والے ”میڈائی کلرک“ ہو سکتے ہیں یا اسٹینو گرافر مگر صحافی نہیں۔

آزادی صحافت اس طرح نہیں ملتی کہ آپ پی سی بی کے پیسے پہ بیرون ملک کرکٹ کوریج لئے جائیں، سرکار کے خرچے پہ حکومتی عہدیداروں کے وفد میں غیر ملکی دوروں میں شریک ہوں۔

پاکستان میں آزادی صحافت پر قدغن لگتی رہی ہے، صحافیوں کی آوازیں دبائی جاتی رہی ہیں۔ آج بھی صرف ”مثبت خبریں“ دینے کے حکم نامے جاری ہو رہے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ 57 مسلم ممالک میں سب سے زیادہ صحافت پاکستان میں آزاد ہے۔ یہ آزادی مفت میں ملی ہے نہ پیسوں سے خرید کے لی گئی ہے بلکہ یہ آزادی عشروں کی جدوجہد سے حاصل کی گئی ہے۔ اس آزادی کے پیچھے مولانا ظفر علی خان، منہاج برنا، ضمیر نیازی، اطہر عباس، حسین نقی اور دیگر بے شمار حقیقی، کہنہ مشق اور جید، جنوئن صحافیوں کی قربانیاں ہیں۔

آج کی صحافت برائے پلاٹ کے علمبرداروں، سرکاری حاجیوں اور کارپوریٹ لڑکے لڑکیوں سے گزارش! کہ براہ مہربانی آزادی صحافت کے معنی و مفہوم نہ بدلیں۔

میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا

۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen