آزادی صحافت کے لئے میرا لہو بھی حاضر ہے


میری گردن سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا تھا اور میرا بایاں بازو تقریباً کٹ چکا تھا شاید گوشت، جلد یا پھر ہڈی کا کوئی ٹکڑا تھا جو اسے ابھی تک میرے جسم سے جوڑے ہوئے تھا میرے عین پیچھے دیوار پر میرے ہی خون کے چھینٹوں سے کوئی مکروہ سی خونی شبیہہ ابھر آئی تھی اور میرے آگے بھگدڑ کے بعد جیسا سماں تھا۔

تیرہ فروری دوہزار نو کا دن تھا اور میں صحافتی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے پشاور کی اشرافیہ کالونی میں تھا

امن جرگے میں اچانک بدامنی کا یہ تجربہ میرے لیے بالکل نیا تھا رہی سہی کسر امن جرگے میں ہتھیاروں سمیت شرکت کی پشتون روایت اور وقت بے وقت انہیں استعمال کر گزرنے کی جذباتی خواہش نے پوری کردی تھی۔ تلخ کلامی سے بات بڑھی اور اچانک ہی خطرناک حدبھی پار کر گئی دوطرفہ فائرنگ کے نتیجے میں گھائل ہونے والوں میں امن کا ہراول دستہ یعنی پہلی صف میں بیٹھے مجھ جیسے لوگ زیادہ تھے دس سال گزر گئے پر آج بھی مجھے وہ چند لمحے لمحہ بہ لمحہ یاد ہیں میں نے بندوقیں اٹھتی دیکھیں اور زندگی میں پہلی بار بندوق کی نال اٹھتے ہی اس کے چل جانے کا مجھے حق الیقین ہو گیا لیکن ان چند لمحات میں میرے بس میں کچھ بھی نہیں تھا

غیر ارادی طور پر اپنے بچاؤ کی کوشش میں اٹھتے ہوئے میں گولیوں کی پہلی ہی باڑ کا نشانہ بن گیا غیر متوازن جسم گولیوں کے زوردار جھٹکے سے پہلے دیوار سے ٹکرایا اور پھر نیچے گرا۔ مجھے اپنی گردن میں لوہے کی گرم سلاخ اترتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن درد بالکل بھی نہیں تھا گرم خون گردن سے بہتا ہوا سینے پر آتا محسوس ہوا تو مجھے یک بیک موت کا خیال آیا۔ بے وقت موت یا بے موت مارے جانے کا محاورہ یاد آیا بس صرف ایک سیکنڈ یا شاید اس سے بھی کچھ کم لمحات کے لئے۔

میں نے مدد کے لئے ارد گرد دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا ہرطرف بھگدڑ تھی جس کو جدھر بچاؤ کا راستہ نظر آ یا وہ سوچے بغیر ادھر ہی بھاگا

تب میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا بہتا خون سب کا ایک جیسا ہی لال تھا مرنے والوں اور مارنے والوں کی آنکھوں میں یکساں خوف اور بے بسی تھی دوسروں کے لیے دہشت کی علامت بننے والے طالبان اور انہیں امن کی راہ سُجھانے والے مِشران سب کی اپنی جان بچانے کی تگ و دو ایک جیسی تھی۔ کسی کو کسی کا کوئی خیال نہ تھا۔ خود کو پتھر دل ثابت کرنے کے لئے دوسروں کے گلے کاٹنے والوں پر بھی یکساں نزع کا عالم تھا اگرچہ زندگی کی رمق باقی نہ تھی

اس وقت مجھے وقت کی اہمیت کا اندازہ ہوا چند سیکنڈ تھے جن میں مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ مجھے خود کو حالات کے رحم پر چھوڑ کر کسی مسیحا کا انتظار کرنا ہے یا پھر اپنی مدد آپ کے تحت آخری کوشش کرنی ہے

بسا اوقات نا امیدی وہ حوصلہ دیتی ہے کہ جو امید کی کر نیں اور وا ہوتے نئے افق بھی نہیں دے پاتے۔ نا امیدی کی اسی امید کو تھامے میں اٹھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔ میری شرٹ چیتھڑوں میں بٹی جھول رہی تھی میں نے ایک ہی جھٹکے سے اسے پھاڑ کر پھینک دیا اور پھر بنیان اتار کر اسے کَس کر اپنی گردن کے گِرد باندھ لیا جہاں سے خون نَل کی مانند بہہ رہا تھا ایک ہاتھ اور دانتوں سے گِرہ لگانا کافی مشکل تھا لیکن گزارا ہو گیا یا یوں کہہ لیں کہ خون بنیان میں جذب ہونے لگا تو مجھے یہ تسلی ہوگئی کہ رُک گیا ہے

بہتے لہو اور ننگے بدن کے ساتھ روڈ پر پہنچا تو یقین تھا کہ اندر جیسی بھگدڑ یا پھر سب کے چھپ جانے کے بعد پیدا ہونے والی ویرانی منتظر ہوگی اور ایسا ہی تھا

ایک ٹیکسی کھڑی نظر آئی لیکن اس میں ڈرائیور نہ تھا سوچا جیسے تیسے خود چلا کر قریبی ہسپتال تک جانے کی کوشش کرتا ہوں دروازہ کھولا تو مالک اندر دُبکا بیٹھا تھا

جنگ جہاں بہت کچھ گنواتی ہے وہیں بہت کچھ سِکھاتی بھی ہے نہ میں نے کچھ کہا نہ اس نے پوچھا۔ میں اپنی گردن سے بہتا خون دبائے پچھلی سیٹ پر ڈھے گیا اور اس نے فوراً گاڑی سٹارٹ کر کے سڑک پر ڈال دی۔

اپنی زندگی کے سب سے طویل تیرہ منٹ میں نے اس مہران ٹیکسی کی نشست پر امید، نا امیدی میں ڈوبتے ابھرتے، اپنی زندگی کے گزرے لمحات کی فاسٹ ٹریک فلم دیکھتے اور مارنے والوں کی وحشت یا زندگی بچانے کی کوشش کرنے والوں کی انسانیت کو سوچتے ہوئے گزارے

اسی دوران میں نے ٹیکسی والے سے فون لے کر اپنے آفس کو واقعے سے آگاہ کیا۔ سماء پشاور کے ہمارے ساتھی طارق وحید مجھ سے پہلے ہسپتال پہنچ چکے تھے ڈاکٹرز اور پولیس بھی موجود تھے اتنے مختصر وقت میں یہ سب لوگ کیسے فرشتہ بن کر پہنچے میں آج تک نہیں سمجھ پایا۔

ہاتھوں ہاتھ مجھے تھیٹر لے جایا گیا ڈاکٹر نے میری گردن کے آر پار گولی کا زخم دیکھا تو غیر محسوس طریقے سے سٹاف کے ایک ساتھی کو سورہ یاسین کی تلاوت کا کہا۔ میں ہمہ تن گوش تھا سو سن لیا لیکن تب تک یاسیت بالکل ختم ہوچکی تھی اور میں ذہنی طور پر ہر طرح کی صورتحال کے لئے آمادہ تھا۔ ڈاکٹر خون روکنے کی کوشش کر رہا تھا مجھے اب کوئی درد تھا نہ پریشانی

میں بالکل ایسے ہی نارمل تھا جیسے عام دنوں میں روز مرہ کے کام کاج کے دوران ہوتا تھا۔ اتنا نارمل کہ ڈاکٹر کے فون سے اپنی والدہ کو (اپنے تئیں آخری بار) فون کیا تو بھی سچ بتانے کے بجائے جھوٹ بولا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں

میں مرنے سے قبل اپنی آخری خواہش بھی پوری کر چکا تھا اس دوران ڈاکٹرز فرسٹ ایڈ کے بعد میری اسلام آباد منتقلی کی تیاریاں کر چکے تھے نیم بے ہوشی یا شاید بے ہوشی میں مجھے شفاء انٹرنیشنل لایا گیا ایک بار ہوش آیا تو ڈاکٹر زنے بتایا کہ شہ رگ بچ گئی ہے اور ریڑھ کی ہڈی وحرام مغز کو بھی نقصان نہیں پہنچا

رات دس بجے شروع ہونے والی سرجری صبح تک جاری رہی۔ گردن کے بعد بازو اور کندھے پر لگنے والی گولیوں کا جائزہ لے کر ان کی سرجری کی گئی میری ران سے گوشت کاٹ کر بازو پر چڑھایا گیا کشیدہ کاری جیسے سیکڑوں ٹانکے تھے جن کی بدولت میرا بازو کم و بیش پہلے جیسا ہو گیا۔

میری تو جان بچ گئی لیکن کوئٹہ، کوہاٹ اور دیگر کئی شہروں سے ہمارے ساتھی دہشتگردی کے خلاف جنگ کی بھینٹ چڑھے لال مسجد کی کوریج میں گولی لگنے سے ایک ساتھی زندگی بھر کے لئے معذور ہو گئے

آزادی صحافت کے موقع پر میں اپنی آپ بیتی قلم کی حرمت کے لئے قربانی دینے ہر صحافی اور صحافتی ادارے کے نام کرتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).