ناصر محمود ملک کا مزاحِ کبیرہ


مزاحیہ مضمون نگاری ادبی صنف ہے، اس صنف پر طبع آزمائی وہی کرتے ہیں، جوزبان و بیان پر عبور رکھتے ہوئے حسِ مزاح سے آشنا بھی ہوں۔ مزاحیہ مضمون نگاری کوئی سہل نہیں، جیسا کہ بچوں کے لیے لکھنا کوئی بچوں کا کام نہیں، اسی طرح مزاح لکھنا ہر لکھاری کا کام نہیں، یہ کارنامہ وہی تخلیق کار ہی انجام دے سکتا ہے جو عام واقعے کو مزاحیہ پیرایے میں شگفتگی سے قلمبند کر سکے۔ مزاحیہ مضمون نگاری اور پھکڑ پن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

ہمارے ایک دوست مزاح نگار ہیں، ناصر محمود ملک نام ہے، خوبصورت انسان ہیں، محکمہ پولیس میں رہتے ہوئے بھی شریف النفس ہیں جس سے محکمہ بھی پریشان ہے کہ جناب کو امام مسجد ہونا چاہیے تھا جو غلطی سے محکمہ پولیس میں آ گئے ہیں اور وردی نے بھی ان پر کوئی خاص اثر نہیں کیا ہے۔

موصوف اچھے انسان تھے پھر انہیں کچھ دوست ملے جن کی صحبت میں رہ کر ایسے خراب ہوئے کہ ان احباب کی عادات کو اپنانا شروع کر دیا، اور دوستوں کی راہ پر چل نکلے، یہاں پہ بھی کامیابی نے ان کے قدم چومے، صحبت ِ یاراں کا ایسا اثر ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے عصر حاضر کے مزاح نگاروں میں شمار ہونے لگے اور ان کے مزاحیہ مضامین قومی اخبارات کی زینت بننے لگے اور پھر وہ وقت آ گیا جب اپنے مضامین کو کتابی شکل میں ڈھال کر اسے مزاح کبیرہ کا ٹائیٹل دے دیا۔

مزاح کبیرہ، گناہ کبیرہ سے تھوڑا چھوٹا ہے۔ مگر پھر بھی پڑھنے میں کبیرہ ہی ہے۔

مزاح کبیرہ ایک لذت بھری دیگ ہے جس کے ہر دانے کا ذائقہ منفرد اور لذید ہے، ایک قاری کی حیثیت سے اگر رائے دینا چاہوں تو ناصر ملک کے مزاح پاروں میں ان کی شخصیت کا اثر بھی دکھائی دیتا ہے، ان کے جملے مزاح سے بھرپور سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے گہرائی میں ہوتے ہیں جبکہ ان کے دوست گل نوخیز اختر کے جملے سیدھے، چست اورمزاح سے بھرپور ہوتے ہیں، دونوں کا تعلق مزاح نگاروں کے سلسلہ قاسمیہ سے ہیں۔

مزاح کبیرہ پر مزاح نگاروں کے سپہ سالار جناب عطاء الحق قاسمی صاحب صرف اچھی رائے ہی نہیں رکھتے بلکہ یہ لکھتے ہیں ”ناصر ملک کے مزاح پارے میرے نظریہ ء ادب بلکہ نظریہ مزاح کے عین مطابق ہیں، وہ یوں کہ ان کے مزاح میں بھرپور سنجیدگی موجود ہے۔ مجھے وہ مزاح بھی عزیز ہے جو آپ کو صرف ہنساتا ہے مگر وہ مزاح عزیز تر ہے جو آپ کو ہنسانے یا زیر لب تبسم کے علاوہ کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ “

”مزاح کبیرہ“ ناصر ملک کی پہلے تصنیف ہے، پڑھا تھا کہ اولین کتاب پہلی بیوی کی طرح ہوتی ہے مگر میں اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتا کیونکہ پہلی بیوی کے بعد دوسری بیوی کا سوچا جا سکتا ہے عملدرآمد نہیں کیا جا سکتا جبکہ پہلی کتاب کے بعد دوسری تصنیف کے بارے سوچا بھی جا سکتا ہے اور عمل بھی کیا جا سکتا ہے اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ اولین تصنیف کی اشاعت کے بعد حوصلہ ملتا ہے اور صاحب کتاب دوسری تصنیف کی تیاریاں شروع کر دیتا ہے، میرا ایک دوست کہتا ہے کہ ایک بندہ اگر چار بیویاں نہیں رکھ سکتا تو کم ازکم چار تصنیف ضرور لکھنی چاہئیں مگر میں اس سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا بیوی اور کتاب دونوں متضاد شے ہیں، بیوی کو صرف سنا جاتا ہے جبکہ کتاب کو پڑھا اور لکھا بھی جا سکتا ہے۔

”مزاح ِکبیرہ“ کا ٹائیٹل معروف کارٹونسٹ جاوید اقبال نے ڈیزائین کیا ہے جس میں صاحب کتاب کو ایک گملے کو پانی دیتے دکھایا گیا ہے۔ اب یہ مالی کو معلوم ہوگا کہ گملے میں لگایا پودا اس کے قلم سے نکلے مزاحیہ جملے ہیں یا پھر ان کا محکمہ پولیس ہے۔

مالی دا کم پانی دینا، بھر بھر مشکاں پاوے

مالک دا کم پھَل پھُل لانڑاں، لاوے یا نہ لاوے

ناصر محمود ملک کو ان کی اولین کتاب کی اشاعت پر مبارکباد دیتے ہوئے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ سلسلہ ء تبسم پرسوز جاری رکھیں گے تاکہ ہم جیسے قاری ان کی تازہ گدگداتی تحاریر سے مستفید ہوتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).