ڈی جی صاحب نے مزید کیا کہا؟


چھ دن پہلے (انتیس اپریل) فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کی میڈیا بریفنگ میں فوج کے نقطہ ِ نظر سے معروضی حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے حسبِ توقع پشتون تحفظ موومنٹ کے مصالحے پر پورا فوکس کیا اور ڈی جی صاحب نے دیگر موضوعات پر جو اہم باتیں کیں ان کا سرسری تذکرہ کیا۔ چنانچہ میرا جی چاہا کہ ڈی جی صاحب کی ان باتوں پر فوکس کروں جو میڈیا نے قدرے آؤٹ فوکس کر دیں۔ یہاں میرے الفاظ ختم ہوئے۔ آگے آپ جو پڑھیں گے وہ ڈی جی صاحب کے فرمودات ہیں۔

(بھارت)

جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے بار بار جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ سچ ایک دفعہ بولا جاتا ہے۔

جن کے پاس جوہری صلاحیت ہوتی ہے۔ سمجھ داری یہ ہوتی ہے کہ اس جوہری صلاحیت کو استعمال کرنے کی بات نہیں کی جاتی۔ یہ ڈیٹیرنس کا ہتھیار ہے اور اس ملک کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے جس کے پاس یہ ہتھیار ہو۔

یہ بھی یاد رکھیں ( بھارت ) کہ یہ انیس سو اکہتر نہیں ، نہ وہ فوج ہے اور نہ وہ حالات۔

(میڈیا)

اگر انیس سو اکہتر میں ہمارا میڈیا آج کے میڈیا جیسا ہوتا تو وہ آپ کی (بھارت) سازشوں کو بے نقاب کر سکتا۔ وہاں ( مشرقی پاکستان )کے حالات کی رپورٹنگ کر سکتا، وہاں پر ہونے والی اندرونی زیادتیوں کو رپورٹ کرتا تو مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔

آج کے ماحول میں ریڑھی والا ، رکشے والا، تانگے والا، بیوروکریٹ، سیا ستداں ہر کوئی بول سکتا ہے۔ مگر ایک آرمی چیف ہے جس نے چالیس سال اس ملک کے لیے ایک سسٹم میں رہتے ہوئے کام کیا ہے۔ وہ پاکستان کا شہری ہے مگر وہ نہیں بول سکتا۔ میں اس کا ترجمان ہوں مگر آپ کو نہیں پتہ کہ میں کتنا بندھ کر بولتا ہوں۔ میرے پاس وہ آزادی نہیں کہ جو دل میں آئے وہ رات کو ایک بجے اٹھ کر بول دوں۔ میں نے بڑے دل سے کہا ہے کہ اگر آپ انیس سو اکہتر میں ہوتے تو ہمیں بتاتے کہ پاک فوج یہ غلطی کر رہی ہے۔ سیاستدان وہ غلطیاں کر رہے ہیں۔ انڈیا یہ گیم کر رہا ہے۔ ہم خود کو درست کرتے۔ آج پھر یہ موقع ہے۔ پلیز ہمارے کان اور آنکھیں بنیے، ہماری رہنمائی کیجیے۔

لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا کو شاید فوج یا آئی ایس پی آر کنٹرول کرتا ہے۔ کیا کوئی ایک اینکر بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ بات کرنے سے منع کیا گیا اور وہ بات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ گفتگو ضرور ہوتی ہے۔ میں آپ کو اپنی لاجک دوں گا۔ اگر آپ اس سے قائل نہیں ہوتے تو پلیز بات کریں۔

(انتہا پسندی اور مدارس)

ان (شدت پسند) تنظیموں کے اسپتال ہیں، مدرسے ہیں۔ اگر ان میں سے دس فیصد لوگ شدت پسندی کی طرف راغب ہیں تو نوے فیصد فلاحی کام کر رہے ہیں جس پر حکومت اور اداروں کی نظر ہے۔ ان کو پیسہ کہاں سے آتا ہے، کون کون فنانس کرتا ہے، کون کون چندہ دیتا ہے۔ مذہب کہتا ہے کہ آپ اس طرح خیرات دیں کہ دائیں ہاتھ کا بائیں کو پتہ نہ چلے۔ لیکن اگر دہشت گردوں کی فنانسنگ کو روکنا ہے تو پھر دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ کو پتہ ہونا چاہیے۔ اب اس رقم کے استعمال اور ان کے مدارس حکومتی عمل داری میں لانے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔

دنیا کے ایجوکیشنل انڈیکس میں شامل ایک سو انتیس ممالک میں سے ہمارا نمبر ایک سو تیرہواں ہے۔ یہ شرمندگی کی بات ہے۔ پچیس ملین پاکستانی بچے اسکول سے باہر ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں سرکاری و نجی اسکول اور مدارس شامل ہیں۔

انیس سو سینتالیس میں دو سو سینتالیس مدرسے تھے جو انیس سو اسی تک دو ہزار آٹھ سو اکسٹھ ہو گئے اور آج تیس ہزار سے زائد ہیں۔ ان میں ڈھائی ملین بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ ان میں سے متشدد انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے مدارس کی تعداد ہماری اسکریننگ کے مطابق سو سے بھی کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ باقی مدرسے انتہا پسند یا دہشت گرد پیدا نہیں کر رہے۔

ان مدارس میں آٹھ سال درسِ نظامی پڑھایا جاتا ہے، مزید دو برس کے تخصص سے ایک طالبِ علم مفتی بن سکتا ہے۔ مگر یہ فارغ التحصیل طلبا صرف دینی اداروں میں ہی روزگار حاصل کر پاتے ہیں۔ کیا ان کا حق نہیں کہ وہ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، جج، اینکر، رپورٹر یا فوجی بن سکیں۔

جامعہ رشیدیہ کے ایک طالبِ علم کو فوج میں کمیشن ملا کیونکہ وہ میرٹ پر اترتا تھا۔ لیکن ایسے مدارس کم ہیں۔ اب حکومتِ پاکستان اور مددگار اداروں نے ان مدارس کو مین اسٹریم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھیں وزارتِ صنعت کے بجائے وزارتِ تعلیم کے تحت کیا جا رہا ہے۔ انھیں تعلیمی بورڈ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منسلک کیا جائے گا۔ ان اداروں میں جدید مضامین پڑھائے جائیں گے۔

دینی نصاب وہی رہے گا مگر اس میں سے نفرت انگیز مواد خارج کر دیا جائے گا۔ آرمی چیف کہتے ہیں اپنا فقہ چھوڑو نہیں دوسرے کا چھیڑو نہیں۔ اب ہم دہشت گردی کے مقابلے سے نسبتاً فارغ ہوئے ہیں۔ اب ہمیں پرتشدد انتہا پسندی کا پاکستان سے خاتمہ کرنا ہے۔ اور یہ تب ہی ہوگا جب ہمارے بچوں کو یکساں تعلیم اور یکساں مواقع ملیں گے۔

(پی ٹی ایم اور لاپتہ افراد)

جب تحریکِ لبیک کے خلاف ایکشن ہوا تو لوگوں نے کہا پی ٹی ایم ( پشتون تحفظ موومنٹ ) بہت بولتی ہے آپ ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں کرتے۔

ان کے تین بنیادی مطالبات تھے۔ چیک پوسٹوں میں کمی، بارودی سرنگوں کی صفائی اور لاپتہ افراد کی بازیابی۔

فوج کی اڑتالیس ٹیموں نے پینتالیس فیصد ایریا بارودی سرنگوں سے کلیئر کر دیا ہے۔ اس کام کے دوران پاک فوج کے ایک سو ایک جوانوں کا جانی نقصان ہوا۔

لاپتہ افراد کی فہرست پر بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ اب ڈھائی ہزار کیسز بچے ہیں۔ میری آپ (پی ٹی ایم) سے درخواست ہے کہ ٹی ٹی پی (کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان) کی جو افرادی قوت اس وقت افغانستان میں بیٹھی ہے۔ ان کی لسٹ بھی مجھے دے دیں تاکہ موازنہ ہو سکے کہ آپ کی لاپتہ افراد کی لسٹ کا کوئی بندہ ان میں تو شامل نہیں۔ پھر ہم ڈھونڈیں گے کہ باقی لاپتہ افراد کہاں گئے۔ بہت ساری اور تنظیمیں بھی بہت سی جگہ لڑ رہی ہیں، آپ کے تو بہت وسائل ہیں۔ ان کی لسٹ بھی ہمیں دے دیں تاکہ ہم اپنے لاپتہ افراد کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں۔

ڈی جی صاحب نے پی ٹی ایم کے بیرونی ڈانڈوں (را اور این ڈی ایس سے مبینہ روابط) کے بارے میں بھی سوالات کی ایک فہرست سنائی۔ اور کہا کہ آپ کا وقت پورا ہوگیا۔ اب آپ سے قانونی طریقوں سے نمٹا جائے گا۔

حامد میر نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ تو پی ٹی ایم نے گزشتہ سال اٹھایا ہے مگر یہ بات تو دو ہزار پانچ اور چھ سے چل رہی ہے۔ آپ نے پی ٹی ایم کے سامنے جو سوالات رکھے ہیں تو پی ٹی ایم والے کہتے ہیں کہ ہم پر تو الیکٹرونک میڈیا کے دروازے بند ہیں۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ وہ میڈیا پر آ کر جواب دیں۔

اس پر ڈی جی صاحب نے فرمایا کہ حامد میر صاحب مجھے پتہ ہے کہ لاپتہ افراد کے ساتھ آپ کو دلی لگاؤ ہے۔ ہمارا بھی اتنا ہی لگاؤ ہے۔ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ کوئی بھی بندہ مسنگ ہو۔ مگر جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں۔ کہتے ہیں نا کہ محبت و جنگ میں سب جائز ہے۔ جنگ بہت سفاک ہوتی ہے اور افواجِ پاکستان اور دوسرے سیکیورٹی ادارے اسے فرض سمجھ کے لڑتے ہیں۔ یہ ان کی کوئی ذاتی جنگ تو نہیں۔ میں نے آپ سے کہا نا کہ لاپتہ لوگ وہ نہیں جو یہ کہتے ہیں۔ مجھے یہ ٹی ٹی پی کی لسٹ دے دیں تاکہ ہم اپنے مسنگ پرسنز کو کلیئر کر لیں۔

آج میں نے جو سوالات اٹھائے ہیں (را اور این ڈی ایس سے مبینہ روابط) یہ تو لوگوں کو پہلے سے نہیں پتہ۔ ان سوالوں کے جواب ہم قانونی طریقے سے لیں گے۔ میڈیا پر ڈبیٹ نہیں کروائیں گے۔ جب ان کی زبان سیدھی ہو جائے گی، جب وہ ایکسپوز ہو جائیں گے پھر آپ انھیں سات دن چوبیس گھنٹے ٹی وی پر رکھیں۔

(متفرقات)

پاکستان میں اس وقت کسی دہشت گرد تنظیم کا کوئی منظم ڈھانچہ نہیں۔ مگر یہ کہنا بھی درست نہ ہوگا کہ پاکستان میں دہشت گردی موجود نہیں۔ ابھی ہمیں بہت کام کرنا ہے۔

فوج کا کام ایسا ماحول مہیا کرنا ہے جس میں معیشت ترقی کر سکے۔ اللہ کا شکر ہے فوج بہت بہتری لے آئی ہے۔ اب جو کام باقی لوگوں نے کرنے ہیں، وہی کریں گے انشاء اللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).