شہاب نامہ سے گیم چینجر تک


سیاسی موضوعات پر لکھنا اور لکھتے چلے جانا، خاصا بیزارکن کم ہے۔ ہماری سیاست ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح ایک مدار میں گھومتی چلی جاتی ہے۔ وہی الزام تراشیاں، وہی دعوے، آپ کسی حکومتی رکن کے چند سال پرانے بیان اٹھائیں اور ان کے آخر میں ن لیگ کے کسی رکن کا نام لگا دیں، آپ کو تازہ خبر لگنے لگے گی۔ جیسے خان صاحب کے پٹرول کی قیمتوں پر دیے گئے بیان، بیرونی قرضوں کے حوالے سے خدشات، آپ انہی ٹویٹس کو موجودہ حالات کے تناظر میں ن لیگ کے تازہ بیان کے طور پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ ایسے میں سماج، ثقافت، موسیقی اور کھیل زیادہ دلچسپ موضوع محسوس ہوتے ہیں، کچھ تو نیا پن ہے، کچھ تو دل موہنے کا سامان ہے۔ چند روز سے شاہد آفریدی کی کتاب کے حوالے سے خاصا طوفان برپا ہے۔ تو چلیں اسی کی بات کرتے ہیں۔

شاہد آفریدی ایسے کرکٹر ہیں، جو کھری کھری باتیں کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ بات بنا کر کرنا نہیں آتا شاہد کو۔ اسی لئے اکثر میڈیا اس کی باتوں کے مخصوص حصوں کو لے کر تنقید کے نشتر برساتا رہتا ہے، لیکن پٹھان بھی باز نہیں آتا۔ گزشتہ سال کشمیر کے حوالے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کہہ گئے کہ جنہیں پورے تناظر کے بغیر چلانے سے بات کا مطلب بالکل مختلف بن گیا۔ اگرچہ شاہد کو سیاسی معاملات پر سوچ سمجھ کر ہی بات کرنی چاہیے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ شاہد آفریدی کے مداح صرف پاکستان میں ہی نہیں، بھارت، بنگلہ دیش اور کشمیر میں بڑی تعداد میں ہیں۔

مہندرا سنگھ دھونی کے سرینگر کے دورے پر بوم بوم کے نعرے اتنے زوردار تھے کہ دھونی کو میدان چھوڑتے ہی بنی۔ اس کے علاوہ شاہد اکثر و بیشتر کشمیر کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں بھی گفتگو کرتے رہے اور بھارتی کرکٹرز اور صحافیوں کے دانت کھٹے کرتے رہے۔ گوتم گمبھیر سے ان کا ٹاکرا تو خاصا یادگار تھا۔ اس تناظر میں شاہد کا کشمیر پر بات کرنا کچھ اتنا عجیب بھی نہیں تھا۔

ہمارے ہاں آپ بیتیاں لکھنے کا رجحان کم ہے۔ مغربی ممالک میں تقریباً ہر قابلِ ذکر سیاستدان، فنکار اور کھلاڑی اپنی زندگیوں کے واقعات کو قلمبند کرتے ہیں۔ شہاب نامہ اگرچہ ایک بہترین کتاب ہے، لیکن اس کتاب کے بعد سے آپ بیتی لکھنے والا ہر شخص اپنے آپ کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شخص محض انسان ہوتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے تو ہمیں وہ ہضم نہیں ہوتا۔ شاہد آفریدی سے بھی یہی غلطی ہوئی کہ سب کچھ اچھا لکھ کر ہیرو نہیں بن سکے۔

خیر واپس آتے ہیں شاہد آفریدی کی کتاب گیم چینجر کی طرف جس نے چند روز سے تلکہ برپا کر رکھا ہے۔ کتاب میں دو تین معروف کرکٹرز کے حوالے سے آفریدی کے ریمارکس کو لے کر خاصی تنقید کی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا مجاہدین تو اپنے حامی صحافیوں کی بھی معمولی تنقید برداشت نہیں کرتے۔ اس کتاب پر بھی اتنی تنقید نہ ہوتی اگر شاہد نے عمران خان کے بارے میں کچھ منفی ریمارکس نہ دیے ہوتے۔ اب کیوں کہ معاملہ عمران خان کا ہے، تو انصافینز کیسے معاف کر دیں۔ شاہد آفریدی کو غلط ثابت کرنے کے لئے میانداد کی شان میں ایسے قلابے ملائے جا رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ وہ جاوید میانداد جس سے عمران خان کی ساری زندگی نہیں بنی، اور وہ آج بھی کھل کر کپتان پر تنقید کرتا ہے۔

عمران خان کا ذکر کرتے ہوئے شاہد آفریدی نے ان کی خاصی تعریف بھی کی۔ آگے چل کر لکھا کہ عمران خان کی اپنی ٹیم میں کئی کھلاڑیوں سے نہیں بنتی تھی، اور ان کا کپتانی کا انداز جیلر جیسا تھا۔ شاہد نے عمران خان کے نئے پاکستان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ نئے پاکستان کے لئے اچھی ٹیم ضروری ہے، اور سنا ہے کہ خان صاحب آج کل بھی اسی طرح ٹیم چلاتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں تیس سال سے یہ بتایا جارہا ہے کہ عمران خان دنیا کے بہترین کپتان تھے۔

اور عمران خان کے بقول انہوں نے تن تنہا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ وہ فائنل جس میں میدانداد سے ان کی بول چال بند تھی، وہ فائنل جس میں وسیم اکرم کی بجائے مشتاق احمد کو اوور دینے جا رہے تھے، اور وسیم نے مانگ کر اوور لیا تھا۔ اور وسیم اکرم کے اسی سپیل نے میچ کا نقشہ بدل دیا تھا۔ اس ورلڈ کپ کا کریڈٹ کپتان اکیلے سمیٹتا رہا۔ برسبیل تذکرہ، کپتان صاحب تو یہ بھی کہتے رہے کہ وسیم اکرم ان کی دریافت تھی، حالانکہ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ وسیم اکرم، خان محمد کی دریافت تھے، اور ان کا ڈیبیو بھی میانداد کی کپتانی میں ہوا تھا۔ وسیم کی عمران خان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ دو سیریز کھیل چکے تھے۔ خیر سے کپتان کے پنجاب میں تعینات وسیم اکرم بھی بری طرح ایکسپوز ہو چکے ہیں۔

جاویدمیانداد کا ذکر کرتے ہوئے بھارت میں اپنے اولین ٹیسٹ کا ذکر کیا جس کے آغاز سے پہلے میانداد نے شاہد کو ٹیم کے ساتھ نیٹ پریکٹس کی بھی اجازت نہیں دی۔ شاہد نے میچ میں سینچری سکور کی، اور پاکستان کی جیت میں مین آف دی میچ قرار پائے۔ شاہد آفریدی نے بیان کیا کہ میانداد نے میچ کے بعد کی تقریب میں ان سے اپنی تعریف کرنے کی فرمائش کی۔ اسی طرح کے واقعات کی روشنی میں آفریدی نے میانداد کو ایک عظیم بلے باز لیکن چھوٹا انسان قرار دیا۔

خاکسار کو تو اس دعوے سے سو فیصد اتفاق ہے۔ اگرچہ ہماری قومی یادداشت کافی کمزور ہے، لیکن یاددہانی کے لئے عرض ہے کہ 2008 سے 2010 تک جاوید میانداد ستر لاکھ تنخواہ پر ڈائریکٹر پی سی بی تھے، جبکہ اس پورے عرصے میں وہ کبھی اپنے دفتر نہیں گئے لیکن ہر ماہ تنخواہ وصول کرتے رہے۔ عموماً ایسی نوکریاں جاوید میانداد اور محمد یوسف ٹائپ کے لوگوں کے منہ بند کرنے کے لئے دی جاتی ہیں، اور ان کا ساری تنقید ہی اس وقت تک ہوتی ہے جب تک انہیں بورڈ میں نوکری نہ مل جائے۔ اب جاوید میانداد ایک عظیم بلے باز تھے، لیکن مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ان کے منہ سے کبھی کرکٹ کے فائدے کی کوئی بات سنی ہو۔ اب ایسے انسان کو کوئی شخص اپنی ذاتی رائے میں چھوٹا انسان کہے تو کیا مضائقہ ہے۔

وقار یونس کے ساتھ شاہد آفریدی کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ شاہد کے کیرئیر کے ابتدائی سال وسیم اکرم کی کپتانی کے تھے۔ وسیم اور وقار کے بیچ میں ہمیشہ تناؤ رہا۔ شاہد چونکہ وسیم اکرم کیمپ کا سمجھا جاتا تھا، اس لئے وقار یونس کی کپتانی میں بہت کم موقع ملا اسے۔ وقار یونس کیسے کپتان تھے، یہ تو ان کے ریکارڈ سے واضح ہے۔ وقار بلاشبہ پاکستان کے بہترین فاسٹ باؤلرز میں سے ایک تھے، لیکن ایک تو وہ فطری طور پر قائد نہیں تھے، دوسرا جب وہ کپتان بنے تو ان کے کیرئیر کے آخری سال تھے اور ان کی باؤلنگ میں پہلے سی کاٹ نہیں تھی۔

اگر اس وقت وہ کپتان نہ ہوتے تو ٹیم میں ان کی جگہ بننا بھی مشکل تھا۔ شاہد آفریدی نے ان کی کوچنگ پر شدید اعتراض کیا۔ شاہد آفریدی کے بقول وہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں ٹانگ اڑاتے تھے اور کپتان کو چلنے نہیں دیتے تھے۔ اعجاز بٹ سے اختلافات بھی وقار یونس کی وجہ سے ہوئے تھے۔ اب اعجاز بٹ سے اختلافات ایک الگ موضوع ہے، جس کی وجہ سے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے والی ٹیم کے کپتان کو ٹیم سے باہر کر دیا گیا۔

اس کے علاوہ شاہد آفریدی نے 2010 کے سپاٹ فکسنگ تنازعے پر بھی کھل کر روشنی ڈالی۔ شاہد کی کپتانی میں ٹیم میں کچھ مشکوک معاملات چل رہے تھے، جس کی رپورٹ بارہا ٹیم مینجمنٹ کو دی گئی تاہم ٹیم مینجمنٹ اور بورڈ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ شاہد کے بیان کے مطابق اس نے مظہر مجید کے کھلاڑیوں سے تعلقات اور مظہر مجید کے موبائل فون کے لیک ہونے والے میسجز بھی رپورٹ کیے لیکن انگلینڈ کے دورے پر بھی مظہر مجید کی ڈریسنگ روم تک رسائی تھی۔ اس لئے شاہد آفریدی نے ٹیسٹ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا۔

شاہد آفریدی نے اپنے شاندار کیرئیر میں کئی غلطیاں کی ہوں گی۔ میلبورن میں گیند چبانے والا واقعہ ہو یا فیصل آباد میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کے دوران پچ کو خراب کرنے کو کوشش، ایسی بہت سی غلطیاں کی ہوں گی۔ ہمارے کئی ہیرو ایسے بھی ہیں جو ویسٹ انڈیز میں ساحل پر چرس پیتے پکڑے گئے اور باقاعدہ گرفتار بھی ہوئے۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں۔ لیکن شاہد آفریدی کی ایمانداری اور نیک نیتی پر شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ 2010 کے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے ہنگام میں ایک ویڈیو شاید آپ کو یاد ہو جب سٹنگ آپریشن کرنے والے صحافی نے مظہر مجید سے آفریدی کے بارے میں سوال کیا تو اس کا جواب تھی، آفریدی کو نہیں خریدا جا سکتا۔ تو بھائیو، ایسے شخص کو جس نے کبھی ملک کے ساتھ غداری نہیں کی، ہمیشہ پاکستان کی بات کی، اسے اتنا مارجن تو دیں کہ وہ اپنے ساتھی کرکٹرز کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکے۔ باقی آپ کو میانداد اگر پسند ہیں تو اپنی بیٹنگ کی وجہ سے ہے، نہ کہ ان گل افشانیوں کی وجہ سے جو وہ وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).