’کوئی ہے جو مورگن کو آوٹ کر دے؟‘


کرکٹرز جب کچھ تعطل کے بعد کھیل کی جانب لوٹتے ہیں تو ڈریسنگ روم میں قدم جماتے دو چار دن لگ ہی جاتے ہیں مگر سرفراز کے لیے ایسا معاملہ نہیں ہے۔

سرفراز احمد پچھلے دو سال سے نمبر ون ٹی ٹونٹی کپتان ہیں۔ ان کی ٹیم ان پر اعتماد کرتی ہے۔ صرف اعتماد ہی نہیں، انھیں بہت ’مِس‘ بھی کرتی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز میں ہو بھی چکا ہے۔

جب سرفراز احمد نے لگ بھگ تین سال پہلے پاکستان ٹی ٹونٹی ٹیم کی قیادت سنبھالی تھی تو یہی کنڈیشنز تھیں، یہی انگلینڈ کی ٹیم مدِ مقابل تھی۔ پاکستان ون ڈے سیریز ہار چکا تھا۔ ایک اکلوتا ٹی ٹونٹی میچ بچا تھا جس میں قیادت سرفراز احمد کو کرنا تھی۔

پہلی بار کسی محلے کی ٹیم میں بھی کپتانی کی جائے تو اعصاب کھنچے ہوتے ہیں، ایک دباؤ سا ہوتا ہے مگر سرفراز احمد پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ انگلینڈ اس میچ میں بطور فیورٹ اترا تھا لیکن جب میچ ختم ہوا تو فیورٹ ٹیم پانچ اوور پہلے ہی نو وکٹوں سے میچ ہار چکی تھی۔

یہ سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان کا پہلا میچ تھا۔

کل شام کارڈف میں جب سرفراز کی ٹیم اتری تو اس میں وہ دونوں اوپنرز نہیں تھے جنھوں نے سرفراز کو اپنا پہلا میچ جتوایا تھا۔ وہ دونوں پی ایس ایل سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی نذر ہو چکے ہیں۔

ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ غلط نہیں تھا۔ بابر اعظم اور حارث سہیل کی پارٹنرشپ کے بعد پاکستان کا ہدف کیا ہونا چاہیے تھا، یہ ہے وہ نکتہ جس کے گرد پوری بساط پلٹ گئی۔

ٹی ٹونٹی بہت چھوٹے فرق کی گیم ہے۔ غلطیاں ہر کوئی کرتا ہے اور جب کھیل کی رفتار زیادہ ہو تو غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں مگر آخر میں جیت اسی کی ہوتی ہے جو کم غلطیاں کرتا ہے۔

مثلاً اگر ایک ٹیم نہایت مستحکم پوزیشن میں ہو اور اچانک ایک ہی اوور میں دونوں ’سیٹ‘ بلے بازوں سے محروم ہو جائے تو اگلی چھ گیندوں پر دیکھنا یہ ہو گا کہ آنے والے بلے باز اس ’غلطی‘ کا ازالہ کیسے کرتے ہیں۔؟

اس میں دو رائے نہیں کہ میچ میں اترنے سے پہلے ہی پاکستان پر دباؤ تھا۔

شعیب ملک اور شاداب خان کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ پچھلی سیریز کی شکست کی تلخی بھی کہیں نہ کہیں باقی تھی۔ سرفراز جس پابندی سے دوچار ہوئے، اس کا بھی کچھ نہ کچھ دباؤ باقی ہو گا۔

مگر دوسری جانب انگلینڈ کا بھی تو کچھ ایسا ہی معاملہ نہیں تھا؟ آئر لینڈ کے خلاف ان کی بیٹنگ لائن پر جو گذری اور پھر ٹیم میں اتنے سارے نوجوان، نو آموز چہرے۔

پاکستان کو کم از کم 190 رنز کا ہدف طے کرنا چاہیے تھا۔ یہ اس وکٹ پر ایک محفوظ ٹوٹل متصور ہوتا۔ بولنگ اٹیک پر بھی اس قدر دباؤ نہ ہوتا اور سرفراز پر بھی ایسا ویسا دباؤ نہ ہوتا۔

لیکن بہر حال اس محدود ٹوٹل کے دفاع میں بھی سرفراز کے بولنگ اٹیک نے اچھی کاوش کی۔ خاصی دیر میچ کو متوازن رکھا لیکن جب اوئن مورگن کریز پر آئے تو سرفراز کے پاس کوئی ایسا سپنر نہیں تھا جو قہر برپا ہونے سے پہلے ہی قصہ تمام کر سکتا۔

چلیے شاداب خان تو تھے ہی نہیں۔ ایک آدھ چھوٹا موٹا رسک تو لیا جا سکتا تھا۔ حارث سہیل سے ہی ایک اوور کروا لیتے۔ نتیجہ نہ بھی بدلتا تو کیا مضائقہ تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp