دار الامان کا قیام اور خود کشیوں کا تدارک


ہنزہ سے رکن اسمبلی رانی عتیقہ غضنفر نے گلگت بلتستان اسمبلی کے 38 ویں اجلاس میں گلگت بلتستان کے تینوں ڈویژنوں میں دار الامان قائم کرنے کی قرار داد پیش کی، جس پر معمولی بحث کے بعد اسپیکر نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ قرار داد پیش کرتے ہوئے رانی عتیقہ غضنفر نے کہا کہ دار الامان کی عدم موجودی کی وجہ سے خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حال ہی میں ایک 15 سالہ بچی نے گھریلو معاملات سے تنگ آ کر پولیس سے رجوع کر لیا تھا جس پر انہیں دار الامان منتقل کر دیا گیا، جہاں سہولیات نام کی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔

دار الامان میں منتقل کرنے کے بعد وہاں ڈیوٹی پر مامور خواتین پولیس اہل کاروں نے اپنے جیب سے اخراجات پورے کیے ہیں۔ اس سے قبل بھی یہی روایت رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں گھریلو تشدد جیسے واقعات بڑھ رہے ہیں، جو کہ خواتین کی متعدد خود کشیوں کا سبب بنے ہیں۔ ایسے میں تینوں ڈویژنوں میں دار الامان قائم نہ ہونا المیہ ہے۔ رانی عتیقہ غضنفر کی جانب سے پیش کردہ قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ بد قسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں پر غیرت کے نام پر قتل کرنا قابل فخر کارنامہ سمجھا جاتا ہے، ہمیں ان رویوں کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ چند ماہ قبل بھی ایک ایسی ہی کہانی مجھ تک پہنچی تھی کہ ایک لڑکی کی جان کو خطرہ تھا مگر پولیس کے پاس اسے بچانے کے لئے کوئی بھی تدبیر نہیں تھی، قبل اس کے کہ حکومتی سطح پر کوئی قدم اٹھاتے، لڑکی کو بھائیوں نے قتل کر دیا اور بعد میں والد نے اپنے بیٹوں کو معاف کر دیا۔

صوبائی وزیر قانون اورنگزیب ایڈوکیٹ نے دار الامان کے قیام کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ پہلا دار الامان گلگت میں قائم ہو رہا ہے جس کے تمام لوازمات پورے ہو چکے ہیں اور تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ البتہ گلگت بلتستان میں خواتین پر گھریلو تشدد جیسے معاملات بہت بڑھ رہے ہیں جن پر قانون سازی کرنا نا گزیر ہو چکا ہے۔ میری تجویز یہ ہو گی کہ خواتین ارکاان متفقہ طور پر پرائیویٹ ممبر بل لے کر آئیں، میں اپنے محکمے کی جانب سے بھر پور تعاون کی یقین دہانی کراتا ہوں۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ مورخہ 21 اپریل کو روزنامہ اوصاف میں 70 ہزار میں طلاق، 80 ہزار میں دوسرا نکاح کے عنوان سے راقم کا کالم چھپا تھا، جب کہ 26 اپریل کو ’ہم سب ڈاٹ کام‘ پر بھی چھپا تھا جس میں مذکور 15 سالہ بچی کی درد انگیز کہانی بیان کی گئی تھی۔ اس میں اس بات کی بھی نشان دہی کی گئی تھی کہ دار الامان کی کیا صورت احوال ہے، دار الامان نہ ہونے کی وجہ سے خواتین پولیس سٹیشن ہی کو دارالامان قرار دیا گیا ہے لیکن سہولیات بالکل بھی نہیں ہے اور نا ہی کوئی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے میں رانی عتیقہ غضنفر کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ میرے کالم پر انہوں نے اسمبلی میں قرارداد پیش کی اور ممبران اسمبلی کا بھی خصوصی شکریہ کہ انہوں نے قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔

گلگت بلتستان اسمبلی میں 6 خواتین ارکاان ہیں جن میں سے چار خواتین کا تعلق مسلم لیگ نون سے ہے، ایک خاتون رکن اسلامی تحریک سے جب کہ ایک خاتون رکن مجلس وحدت المسلمین سے ہے۔ مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے چارخواتین ارکان میں سے ایک خاتون رُکن اب بھی ’مبینہ‘ طور پر وزیر ترقی نسواں کے عہدے پر فائز ہیں، حالاں کہ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ نے اسے کابینہ سے فارغ قرار دے کر پریس ریلیز جاری کر دی تھی۔ تاہم ابھی تک اس کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکا۔ بعض صحافتی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ نوٹیفکیشن روک دیا گیا ہے اور مفاہمت کی بھی باز گشت ہے۔

دوسری جانب کچن کیبینٹ کے بعض وزرا سے اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مفاہمت کی تردید کرتے ہوئے انہیں کابینہ سے فارغ ہی قرار دیا ہے۔ یوں ابھی تک معاملہ مبینہ ہی ہے۔ مذکور خاتون وزیر کا محکمہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، ترقی نسواں و بہبود آبادی ہے۔ یہ قدم بنیادی طور پر اسی محکمے کا تھا لیکن معلوم نہیں کہ محکمہ کن سر گرمیوں میں مصروف و مشغول ہے کہ جس کی وجہ سے انہیں فرصت نہیں مل سکی۔ اصولاً تو ایسا قدم محکمے سے ہی اٹھایا جانا چاہیے اور ایسے تمام معاملات کی نگرانی کرنا بھی محکمے کی ذمہ داری ہے لیکن میڈیا میں آنے کے بعد بھی محکمے کی جانب سے چپ سادھ لینا بڑا سوالیہ نشان ہے؟ گو کہ یہ بات نہیں کہی جا سکتی ہے کہ کوئی خبر چھپے یا کالم میں نشان دہی ہو تو فوری طور پر محکمے کی دوڑیں لگ جائیں، لیکن ان کی موجودگی میں کسی اور رکن کی جانب سے ایشو کو اسمبلی میں اٹھانا یقینا نا اہلی اور اپنے ذمہ داریوں میں کوتاہی ہے۔

گلگت بلتستان میں خود کشیوں اور گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافے کی ایک طویل داستان ہے، چند سال قبل تک خود کشیوں کی بات صرف ضلع غذر تک محدود تھی بعد ازاں اس کے دائرہ کار میں وسعت آ گئی اور بات ضلع ہنزہ اور گلگت تک بھی آ گئی۔ اس معاملے میں بھی مذکورہ محکمے کے پاس ابھی تک اپنے اعداد و شمار تک نہیں ہے، اور مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار پر اکتفا کر کے بیٹھا ہوا ہے۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان یقینا اس ساری صورت احوال سے لاعلم نہیں بیٹھے ہوں گے مگر پھر بھی کہنا پڑے گا کہ معاشرتی مسائل اور محکمے کی افرادی قوت اور استعداد کار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

کم از کم ایک سال قبل سے یہ بات شروع ہے کہ خود کشیوں کے روک تھام کے لئے ہیلپ لائن قائم کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہے۔ چند ایک کانفرنسز کے علاوہ ابھی تک ایسی کوئی قابل ذکر کار کردگی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ جب مسائل اور ان سے نمٹنے کے لئے استعداد کار میں فرق بہت زیادہ ہوں تو استعداد کار والوں کے لئے ہی دعا کی جا سکتی ہے۔ چند روز قبل پونیال کے طلبا کی جانب سے ایک ویلکم اور فیئر ویل تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں سیکریٹری محکمہ سوشل ویلفیئر بھی بطور مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔ ان کے خطاب سے محسوس ہو رہا تھا کہ شعور و آگہی پھیلانے کے چکر میں وہ طلبا کو پروگرام سے بھگا رہے تھے، جس لب و لہجے کے ساتھ خطاب کیا اس سے معلوم پڑ رہا تھا کہ وہ احکامات صادر کر رہے ہیں۔ بلکہ آسان الفاظ میں یہ کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ ’وہ طلبا و طالبات پر پھٹ پڑے‘، یونیورسٹی کے طلبا اور طالبات میں کم از کم اس چیز کی کمی نہیں ہے جس کی نشان دہی کی جا رہی تھی۔

اس کے بر عکس ڈاکٹر فضا مسلم صاحبہ نے اپنے خطاب میں غیر محسوس طریقے سے اس دریا جیسے موضوع کو لا کر کوزے میں بند کر دیا اور قرآنی حوالہ جات سے لے کر سماجی رویوں پر بڑی خوبصورتی سے گفتگو کی۔ اس لئے حساس موضوعات سے نمٹنے والوں کو چاہیے کہ حساس انداز میں ہی لائحہ عمل اپنائیں، جب سنانا پڑے تو محسوس ہی نہ ہوں۔ بعض موضوعات یقینا ایسے ہی ہوتے ہیں جس کو جارحانہ انداز میں روکنے کی کوشش کی جائے تو جارحانہ طرز پر ہی بڑھتے ہیں۔ بہر حال رانی عتیقہ غضنفر کی جانب سے قرار داد لانا اس بات کی نشانی ہے کہ وہ کم از کم خواتین کے مسائل سے لا علم نہیں ہے البتہ حکومتی سطح پر قرار دادوں پر عمل در آمد کا انداز بھی کچھوے کی چال چل رہاہے، جس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).