آٹھ ہزار فٹ بلند چراگاہ سری کوٹ


اَڑنگ کیل (نیلم) سے سری کوٹ اِس طرح سے مختلف ہے کہ ایک تو اڑنگ کیل کا ایریا بہت زیادہ ہے دوسرا چوٹی کی بہار میں وہاں کی ہریالی کا رنگ سیاہی مائل سبز، جب کہ سری کوٹ کا ہلکا ہَرا ہوتا ہے۔ باقی دونوں مقامات پر پہنچنے کے بعد فرحت کا احساس کم و بیش ایک سا ہے۔

پرانے صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختون خواہ کے ضلع مانسہرہ اور آزاد کشمیر کے دار الخلافہ مظفر آباد کے سنگم پر چھوٹا سا کاروباری مرکز ہے۔ جو شہید گلی کہلاتا ہے۔ بمشکل دو درجن کے قریب دُکانیں ہوں گی۔ یہاں سے آٹھ ہزار فٹ بلند چراگاہ سری کوٹ کو جانے کا راستہ نکلتا ہے۔

مظفر آباد سے شہید گلی تقریبا چھے کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور روڈ بھی ویسی ہے جیسی چار پہیوں کے دوڑنے کے لیے کم از کم ہونی چاہیے۔ شہید گلی سے سری کوٹ کے سبزہ زار کا سفر شروع ہوتا ہے۔ جو اعداد کے لحاظ سے محض دس کلو میٹر ہے مگر عملی کہانی اس سے کچھ زیادہ ہے۔ سفر شروع ہوتے ہی روڈ ایک دم سے بلندی کو جاتی ہے اور شدید ڈھلوان ہے۔ اس پر دو آتَشہ یہ کہ اس راستے میں بے حساب چھوٹے پڑے پتھر بکھرے ہوئے ہیں۔ جو کسی بھی ٹائر یا پاوں کے گزرنے پر تیزی سے پھسل پھسل کر احتجاج کرتے ہیں۔ اس پھسلن میں اگر مسافر بھی شریک ہو جائے تو اللہ اللہ۔ غالباً اسی راستے کے بارے میں کہا گیا تھا:

ان ہی پتھروں پر چل کر اگر آ سکو تو آو

سری کوٹ کے راستے میں کوئی روڈ نہیں ہے

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس راستے کو روڈ سے تشبیح دینا روڈ کی ہتک عزت ہے۔ مقامی افراد وِیلے جیپ پر سفر کرتے ہیں جب کہ موٹر بائیک پر صرف ایک مسافر سوار ہو کر کے بمشکل اوپر کو جا سکتا ہے۔ سیاحوں کے لیے ہائکنگ، مقامی وِیلے جیپ یا خچر اور گدھا کار آمد رہیں گے۔ سادے گدھا کے ساتھ گزارا بھی مشکل ہے ہاں اگر فور بائی فور گدھا ہو تو زیادہ آسانی رہے گی۔ خیر راستے کی تلخیاں اپنی جگہ مگر راستے میں انتہائی دیدہ زیب نظارے ہیں۔ ایک جانب مظفر آباد کی پہاڑوں سے گِھری پیالہ نما وادی اور ایک دوجے سے لپٹے نیلم جہلم دریا اور دوسری طرف خطہ ہزارہ کا دلکش نظارہ۔ جی بھر کر دیکھیے، دل نہیں بھرتا۔

دیودار، صنوبر اور چیڑ کے سائیں سائیں کرتے درختوں کی تازہ آکسیجن میں سانس بحال کرتے اور تتلیوں کے اڑتے جھرمٹوں کے بیچوں بیچ چلتے چلتے ہم سری کوٹ کے سبزہ زار میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر آپ کی ساری تھکن منٹوں میں اتر جائے گی اور روح میں تراوٹ سی اتر آئے گی۔ لانبے لانبے کونی فَرز پیڑوں کی باڑ کے بیچ ملائم گھاس کی دل کش چراگاہ، اس میں چرتی ہوئی مَیل سے اَٹی بھیڑیں، چہچہاتی، پھدکتی بلبلیں اور نایاب رنگین چھوٹے چھوٹے پَنچھی۔ قدرتی حسن کے یہ نظارے انسانی فطرت کے نزدیک تر ہونے کے ناتے سے دکھنے میں بھلے لگتے ہیں۔ جن تتلیوں کو ہم نے بچپن میں دیکھا یا کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کی بہتات ہے۔ رنگ برنگی قسم قسم کی بے شمار تتلیاں اور چھوٹی چھوٹی نیلی نیلی چڑیاں شاید اس لیے بھی یہاں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ یہ جگہ ابھی انسانی ترقی معکوس سے کوسوں دور ہے۔

ہمارا ٹولہ جن میں خاکسار، راجہ بہرام، عثمان مانی اور اسد علی شامل تھے نے سبزہ زار میں واقع واحد چھپر نما دُکان سے قریب قریب زائد المعیاد بسکٹ، نمکو اور کولڈ ڈرنکس خریدیں اور وہیں نرم گھاس پر دراز ہو کر زہر مار کیں کیوں کہ اس کے علاوہ خور و نوش کی کوئی چیز دستیاب نہیں ہے۔

اگر آپ کا کبھی سری کوٹ کا رخ کرنا ہو تو یا تو کھانے کی لوازمات ساتھ لیے جائیں یا وافر سرمایہ ساتھ رکھیں۔ چوں کہ ہمارے ساتھ ان دونوں اشیا کا ساتھ نہیں تھا اس لیے سہ پہر کو بقول عثمان جب بھیڑیں اچانک غائب ہونے لگیں تو ہم بائیک گھسیٹے واپس مظفر آباد کو چلے آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).