سلطان ٹیپو کے خلاف انگریزوں، مرہٹوں اور اہل نوایط کا اتحاد


سرکاری طور پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا سلطان ٹیپو کو خراج پیش کرنا انگریز راج کی ہندستان میں لوٹ مار کی مذمت کی علامت ہے۔ اب یہ علامت محض ٹویٹ تک محدود ہے یا نہیں یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ انگریز راج میں مقامی گماشتوں کے ذریعے سے سلطنت کو وسعت دی گئی۔ بنگال میں میر جعفر کی مدد سے سراج الدولہ کو شکست دے کر ہندستان داخل ہوئے اور 52 سال بعد میسور میں میر صادق کی وفاداری سے سلطنت خداد داد پر قبضہ کر لیا۔

میر صادق تو حاکم سلطنت بننے کا خواب لیے دوران جنگ ہی سلطان ٹیپو کی فوج کے ہاتھوں قتل ہو گیا لیکن اس عظیم غداری کے عوض کمپنی بہادر نے سرنگا پٹم فتح کر کے قلعے کی پوری دولت لوٹ کر اپنی جڑیں ہندستان میں مضبوط کرنے کے دوسرے دور کا آغاز کیا۔ اس سے قبل انگریز مغل بادشاہ فرخ سیر کی بیٹی کے علاج کے عوض ڈاکٹر ہملٹن کے توسط سے بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ٹیکسوں سے چھوٹ دلوا چکے تھے جب کہ مقامی صنعتوں پر ٹیکس عائد رہے۔

سلطان ٹیپو کی سلطنت میں ہندوؤں کے ساتھ سرکاری سطح پر تفریق نہیں تھی۔ سلطنت کا وزیرِ خزانہ ہندو برہمن ”پورنیا“ تھا۔ یہی ”پورنیا“ سلطان کا نائب دوم بھی تھا۔ سلطان کا ذاتی منشی اور معتمد ِخاص ”لالہ مہتاب رائے سبقت“ نامی ایک ہندو برہمن تھا، جومیدانِ جنگ میں بھی شاہی کیمپ میں رہتا تھا اور اخیر تک سلطان کا وفادار رہا۔

میسور کی فوج کا افسرِ اعلیٰ ہری سنگھ تھا، جس کا بھائی بھی با وجود ہندو ہونے کے حکومت کا ایک بڑا عہدے دار تھا۔ کورگ کی فوج کا افسرِ اعلیٰ ایک برہمن تھا۔ علاوہ ازیں تین ہزار کی ایک فوج سردار سیواجی کی کمان میں رہتی تھی۔

میسور کی فتح کے لیے انگریزوں کو مرہٹوں، نظام اور اہل نوایط کا سہارا لینا پڑا اس کے لیے ان تینوں طبقات کو انگریز نے اقتدار کی لالچ دی تھی۔ صرف یہی نہیں مجلس سلطان کے صدر اعظم میر صادق کو بھی حاکم سلطنت بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ میر صادق با اعتبار اختیارات سلطان کے بعد وہی طاقت ور شخص تھا۔ ٹیپو نے آئین سلطانی کے ذریعے سے غلاموں اور لڑکیوں کی خرید و فروخت بند کی، زمینداروں کا خاتمہ کر کے کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔ کوآپریٹو سوسائٹیز قائم کیں، مفت تعلیم کا نفاذ کیا، میسور سمندر کے قریب ہونے کی بنا پر حفاظت کے لیے بحری بیڑا بنوایا۔ ساٹھ صفحات پر مشتمل آئین سلطانی پڑھ کا معلوم ہوتا کہ یہ سلطنت جمہوریت کی بنیاد پر قائم تھی۔

انگریز مورخ مل اور میجر ٹارنس لکھتے ہیں کہ ٹیپو سلطان 1792ء میں اپنے تمام اختیارات مجلس وزرا کے صدر کو تفویض کر دیے اور عوام کو بھی سلطنت کے انتظام میں حصہ دینے کے لیے ”زمرہ غم نبا شد“ کے نام سے پارلیمنٹ بنائی۔

میجر اسٹورٹ کے مطابق سلطان کے ذاتی کتب خانے میں 2000 کتابوں کا ذخیرہ تھا جس میں تصوف، علم الاخلاق، انشا، علوم و فنون، علم حساب، علم نجوم، طب اور فلسفہ کی کتابیں شامل تھیں۔

انگریز اپنی دغا بازی، معاہدات کی خلاف ورزی اور چال بازی سے میسور سلطنت میں داخل ہوا۔ میسور کی چوتھی جنگ شروع ہونے سے حیدر آباد سے مدراس تک یہ مشہور کرا دیا گیا کہ سلطان وہابی ہو گیا ہے۔ انگریز کی جانب سے وہابیت کے اس نعرے سے میسور کو شکست دینے کے لیے مدراس اور بمبئی کی فوجوں کی بھی مدد لی گئی۔

امریکا میں برطانوی کالونی کے خاتمے پر امریکا میں تعینات برطانیہ کے گورنر جنرل کارنوالس کو برطانوی وزیر اعظم پٹ نے خصوصی مشن پر ہندستان بھیجا تھا۔ کیپٹن لٹل نے اپنے سفر نامے میں لکھا ہے کہ عام رعایا میں سلطان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے کارنوالس نے مذکورہ دو اہم کام کیے:

1۔ ٹیپو نے مذہبی اصلاحات کے سلسلے میں محرم کی رسومات پر پاپندی عائد کر رکھی تھی، کارنوالس نے پھر ان رسومات کی اجازت دے دی۔

2۔ ٹیپو نے درگاہوں میں پیروں کو نذرانے لینے سے منع کر دیا تھا کارنوالس نے پھر ان رسوم کو جاری کر دیا بلکہ خود بھی نذرانے دیے۔ یہ اقدمات میسور کی تیسری جنگ کے دوران سرنگا پٹم کے صلح نامہ کے دوران اُٹھائے گئے تھے۔ اسی عرصے میں میر صادق کو انگریز نے اپنا گماشتہ کر لیا، مجلس سلطان کا صدر اعظم ہونے کے با وجود وہ مسلسل انگریزوں کے لیے مخبری کرتا رہا۔ میر صادق کے ساتھ اس سازش میں میر غلام علی، میر قمر الدین، میر قاسم علی اور ہندو وزیر مالیات پورنیا بھی شامل تھا۔

ان کے ساتھ اہل نوایط (ملاحوں کا ایک قبیلہ جو حجاج بن یوسف کے دور میں ہندستان آ کر آباد ہوئے) نے انگریزوں سے وفا داری کی۔ اہل نوایط حیدر علی کے دور میں میسور دربار میں شامل ہوئے تھے۔ اہل نوایط کے میر غلام علی کو ٹیپو نے تُرکی اور فرانس کے ساتھ انگریزوں کے خلاف لڑنے کے لیے معاہدہ کرنے کی غرض سے قسطنطنیہ بھیجا تھا لیکن میر غلام علی نے فرانس کو لکھے گئے ٹیپو سلطان کے پورے پلان سے متعلق انگریزوں کو آگاہ کر دیا۔ اس پلان کو کم زور کرنے کے لیے سلطان وہابی ہے کا انگریزی پراپگنڈہ کیا گیا۔

میسور کی تیسری جنگ کے دوران ہی انگریزوں نے اہل نوایط اور مرہٹوں کو میسور سلطنت میں نوابیاں دینے کے لیے خفیہ وعدے کر لیے تھے۔ مرہٹے مغربی اور جنوبی علاقوں میں پہلے ہی اپنا تسلط قائم کر لیا تھا اور مرہٹوں کا اقتدار دہلی کے ارد گرد کے علاقوں میں بھی بڑھ رہا تھا حتیٰ کہ 1758ء میں مرہٹوں نے پنجاب پر بھی قبضہ کر لیا تھا آدینہ بیگ کو پنجاب کا حاکم مقرر کر دیا تھا۔ مرہٹے جنگ جو تھے اور بزور طاقت اقتدار چھیننے کے قائل تھے اس لیے انگریزوں نے مرہٹوں کی جنگی صلاحیتوں کی بنا پر سلطان کے خلاف سہارا لیا۔ فروری 1799ء میں انگریزوں نے میسور پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل در آمد شروع کیا۔ سرنگا پٹم تک پہنچنے میں مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

جنرل ہیرس نے مارچ 1799ء میں میسور اور پھر بنگلور پر قبضہ کر لیا۔ اس کی فوج میں ساٹھ ہزار بیل اور بہت سے ہاتھی تھے۔ ٹیپو سلطان کو صلح کے لئے شرمناک شرائط پیش کی گئیں جو اس نے مسترد کر دیں۔ اپریل کے اواخر میں سرنگا پٹم کے قلعے کے باہر انگریزوں نے توپیں نصب کر دیں اور گولہ باری شروع کر دی۔ تین مئی کو قلعے کی فصیل میں چھوٹا شگاف پڑ گیا۔ 4 مئی کو میر صادق کے مشورے پر انگریزوں نے حملہ کیا اور میر صادق نے تنخواہیں دینے کے بہانے ان سپاہیوں کو بلا لیا جو فصیل کے اس شگاف کی حفاظت پر مامور تھے۔ چناں چہ انگریز فوج قلعے میں داخل ہو گئی۔

میر صادق نے وہ دروازہ بند کروا دیا تھا تا کہ ٹیپو سلطان باہر نہ جا سکیں۔ ٹیپو سلطان کے وفاداروں نے میر صادق کی غداری کو بھانپتے ہوئے اسے قتل کر دیا اور ٹیپو سلطان انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ میر صادق کے ساتھ اس سازش میں میر غلام علی، میر قمر الدین، میر قاسم علی اور ہندو وزیر مالیات پورنیا بھی شامل تھا۔

سرنگا پٹم اہل نوایط کی غداریوں اور مرہٹوں کی مدد سے فتح ہو گیا۔ سلطان کی شہادت کے بعد مارکوئیس ویلزلی کو تین مسائل تھے:

اول: سلطان کے بچوں کو حکومت دی جائے یا نہیں
دوئم: اہل نوایط کی غداری کا صلہ
سوئم: پورنیا اور رانیوں کو ان کی غداری کا صلہ

اہل نوایط حیدر علی کے دور میں فرانسیسیوں کے ہم درد تھے اور انگریزوں کے خلاف تھے لیکن اقتدار کی لالچ نے انھیں عظیم غدار بنا دیا۔ سرنگا پٹم کی فتح کے بعد اہل نوایط کو جاگیریں دی گئیں جب کہ میسور کی ساری دولت پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ پلاسی کے بعد سے ہی ہندستان کی دولت لٹ لٹ کر لندن پہنچنے لگی تھی۔ اس دولت نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں صنعتی انقلاب کی بنیاد ڈالی۔ صنعت و حرفت میں ترقی کے لیے بنگال اور کرناٹک کے خزانے ہی انگریزوں کے کام آئے۔ یوں کمپنی کو ہندوستان میں استحکام ملا۔

لیکن استحکام کے پیچھے وہ غدار ہیں جنھوں نے آیندہ دو سو سالوں کے لیے اس خطے کو انگریز کی غلامی میں دھکیل دیا۔ ہر وہ فرد جو قومی مفاد کو سودا کرتا ہے، قومی رازوں کو فروخت کرتا ہے، قومی خزانہ لوٹتا ہے اور قوم کو غلامی کی زنجیروں میں ڈالتا ہے وہ اپنی اپنی جگہ پر میر صادق اور میر جعفر ہی ہے۔ سلطان ٹیپو کی برسی کے موقع پر یہ عزم ہونا چاہیے کہ اپنے ارد گرد ایسے میر جعفروں اور میر صادقوں کو تلاش کریں۔ بقول جسٹس رمدے ہم غیروں کے مارنے سے نہیں بلکہ اپنے ہی میر صادقوں اور میر جعفروں سے مارے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).