”گرد کا طوفان“: نئے سانچوں میں ڈھلنے کو تلملاتی زندگی


شہر قائد پچھلی دو تین دہائیوں میں جن وحشتوں کی لپیٹ میں رہا، ہماری سوسائٹی جن دکھوں، اندیشوں اور المیوں کا شکار رہی، گرد کے طوفان میں کس طرح گِھری رہی اور اہلِ کراچی جن پتھر بھرے راستوں پر چلتے رہے، زندگی بسر کرتے رہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اقبال خورشید کا ناولٹ ”گرد کا طوفان“ اسی تناظر میں تحریر کیا گیا ہے۔ اس کا قصہ دو ایسے نوجوان دوستوں کے گِرد گھومتا ہے جو غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں استعمال ہوئے اور اپنی شناخت کے صدقے قربان بھی۔

اس ناولٹ کے ضمن میں ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کے مطالعے کے دوران یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہمیں انتظار حسین کا ناول ”آگے سمندر ہے“ نہ یاد آئے۔ اس کی وضاحت کے لیے ”آگے سمندر ہے“ کا پہلے ایک جملہ ملاحظہ کیجیے:

”سندھی، پنجابی، بلوچ، پٹھان، مہاجر، یاروں نے شہر بسایا ہے یا کھچڑی پکائی ہے؟“

اس سے آگے چل کر ”آگے سمندر ہے“ کا ایک کردار مَجوکہتا ہے:

”مہاجر کی کوئی ایک قسم تھوڑا ہی ہے، کوئی پورب کا، کوئی پچھّم کا، کوئی اُتّر سے آیا، کوئی دکن سے چلا، سارے ہندوستان سے ندیاں بہتی شور کرتی آئیں اور اس سمندر میں آ کر رل مِل گئیں۔ مگر رلی ملی کہاں، یہی تو مصیبت ہے ہر ندی کہتی ہے کہ میں سمندر ہوں۔“

اس اقتباس کے حوالے سے شہر کراچی کے گِرد گھومتا ہوا ”گرد کا طوفان“ ایسا ناولٹ ایک خاص حد میں انتظار حسین کے ناول ”آگے سمندر ہے“ سے رشتہ جوڑتا نظر آتا ہے۔ اور عمومی طور پر اِس کے تسلسل میں درج ہمہ گیر کیفیات سے آشنائی مہیا کرتا ہے۔

دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقت نگاری کے حوالے سے شوکت صدیقی نے اپنے ناول ”خدا کی بستی میں“ تنگ گلیوں کی لولی لنگڑی، لڑھکتی گھسٹتی زندگی اور غربت تلے پلنے والے جرائم سے لُتھڑی زندگی کو پینٹ کیا ہے۔ مگر اقبال خورشید کی آنکھوں کے سامنے گرد کا طوفان تھا، ٹوٹی پھوٹی گھسٹتی سسکتی زندگی نہیں تھی، بلکہ انسانی آبادیوں میں سنائی دینے والی ہچکیاں لیتی زندگی تھی۔

اقبال خورشید نے اپنے ناولٹ کی شعری جمالیات سے آج کے نوجوان قاری کی چشم کشائی کے لیے کچھ ہی عرصہ پہلے کے سماجی سیاسی منظر نامے کی آسودگی اور خود پسندی کی قلعی اس طرح کھول کر رکھ دی ہے کہ Perception اور Virtual Reality سے کہیں دُور صداقت کھڑی مسکراتی نظر آتی ہے۔

”گرد کا طوفان“ در اصل قصہ ہے نئے سانچوں میں ڈھلنے کے لیے تلملانے والی زندگی کا۔ یہ ناولٹ اپنے ماجرے میں محبت اور انسانی رواداری کی بنیاد پر قاری کو وہ بھروسا فراہم کرنے میں کام یاب نظر آتا ہے، جو سچائی اور حقیقت نگاری کی کڑی دھوپ میں سائے کی طرح پناہ کا باعث بنتا ہے۔

کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ مشاہدے کی قوت، بیان میں ایک تاثیر پیدا کر دیتی ہے۔ اقبال خورشید نے انتہائی مشتعل ماحول کے قصے کو اشتعال انگیزی سے پاک رکھا ہے اور دل چسپ امر یہ ہے کہ حقیقت کو حسن کی نظر سے دیکھا ہے یہاں تک کہ ناولٹ کے اہم کردار ”وکی“ کی موت میں بھی قاری کو دکھ آمیز پراسراریت محسوس ہوتی ہے، کرداروں کی نسبت سے انسانی تہذیبی صورت احوال کے ضمن میں ناولٹ میں نہ صرف اطراف کے ماحول کا عکس، بلکہ کسی حد تک انسانی سیرت کا عکس اتارنے کی سعی بھی نظر آتی ہے۔

دیکھیے! ناولٹ کے دو اہم کردار ہیں وِکی اور اوزی۔ یہ کردار جیتے جاگتے، کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بظاہر ان کے کام زندگی کے شانوں پہ بوجھ کے مانند لگتے ہیں مگر ان کے اگلے اقدام کے بارے میں کہ وہ اگلے لمحے کیا کرنے والے ہیں کوئی نہیں جانتا۔ یہ دونوں ہیرو ہوتے ہوئے بھی گم نام ہی رہتے ہیں، بارش کے پہلے قطرے کی طرح۔ مگر یہ وقت کے دائروں میں گھومتی، ٹھٹھرتی، جھاڑ جھنکار زندگی سے لپٹے محض دو کرداروں کا قصہ نہیں ہے بلکہ سسکتے، روتے، چیختے چلّاتے زمانوں کا ماجرا ہے، جس سے حقوق کے حصول کے لیے نبرد آزما نسلوں کے آزمائے ہوئے طریقوں پر بھی ایک بحث کا چھڑنا لازمی ٹھہرتا ہے۔

معزز حاضرین! ناولٹ میں قاری کو سماجی، معاشرتی، سیاسی، تاریخی اور جنسی رجحانات نظر آتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے اور غور فرمائیے کہ واقعات کو کس طرح Narrate کیا گیا ہے۔

”ان سرگرمیوں کے دوران کوئٹہ کی وہ ہوا اُس کے چہرے سے ٹکراتی، جس میں خون کی بو ہوتی ہے، مگر وہ اُسے نظرانداز کر دیتا کہ کام بہت تھا۔“

اور دیکھیے: ”حالات سے اور انجام سے بے خبر اوزی کام میں جٹا رہا، ایک محنتی گھوڑے کے مانند، جس کا نصیب ذبح خانہ تھا۔“

یہ بھی دیکھیے: ”فرید بڈھے کی بیوی اور بیٹے کو پولیس تھانے لے گئی تھی، عورت پانچ ہفتے بعد لوٹی تو پیٹ سے تھی۔“

ایک جگہ اور:

”شہر میں ایک خاموش، تقسیم ہو گئی تھی، وہ بسوں میں سفر کرتی، بازاروں میں چلتی پھرتی، بجلی کے تاروں سے لپٹتی نظر آتی، وہ موجود تھی، اوزی اور وِکی اُسے محسوس کر سکتے تھے۔“

زرا یہ بھی دیکھیں:

”ماورائے عدالت قتل کے خلاف این جی اوز بہت شور مچا رہی ہیں۔ بڑا دباؤ ہے حکومت پر۔ یہ پولیس کی کارروائی نہیں ہو سکتی، سالا کوئی اور چکر ہے۔

کوئی اور چکر! اوزی پھٹ پڑا! تو کیا ہم بھڑوے خود ایک دوسرے کو ٹھونک رہے ہیں؟‘‘

آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ناولٹ میں کرداروں کے ذریعے در حقیقت فرد کی فکری، جذباتی اور احساساتی دنیا نیز اُس کی داخلی کش مکش، انتشار، کرب، بد دِلی اور ماحول کی پیدا کردہ زندگی کی بے معنویت، یک سانیت اور نا چارگی کو آشکار کیا گیا ہے۔

فنی حوالوں سے شعور کی رو تکنیک، منظر نگاری، بہتا ہوا وقت اور ان حوالوں سے تجزیاتی اُپچ کے تحت ماحول کی گمبھیرتا کو ڈی کوڈ کیا گیا ہے۔

ہم سب واقف ہیں کہ ناول یا ناولٹ ایک سماجی عمل سامنے لاتا ہے، سوال اٹھاتا ہے، اُن حصوں کو جوڑتا ہے جو بیچ بیچ میں غائب ہوجاتے ہیں، اور یہ بھی سچ ہے کہ اپنے ایقان اور نظریے میں Dent مارے بغیر ناول میں سچ کو سمویا ہی نہیں جا سکتا، کیوں کہ تاریخ میں تو بے شمار جھوٹ ہوتے ہیں۔

”گرد کا طوفان“ میں یہ Dent کس قدر گہرا ہے یا یہ کہ واقعی کہیں انگوٹھا رکھا گیا ہے، یہ ذمے داری تو قاری اور نقاد کے حوالے، لیکن کیا ہمارے لیے یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ اس عہد کو، ہمارے تہذیبی شرف کو، ادب کے طالب علموں کو، آج کے نئے انسان کو ناول کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).