سابق گورنر پنجاب کا بیٹا اور تیزاب سے جھلسنے والی بیوی کی خودکشی


14 مئی 2000 تاریخ اور دوپہر ڈھائی بجے کا عمل۔ فاخرہ یونس نیپئیر روڈ، کراچی میں واقع اپنی ماں کے گھر بے خبر سو رہی تھی، تب اچانک ہی اس کا شوہر بلال کھر اونچی آواز میں ”فاخرہ۔ فاخرہ۔ اٹھو۔ “ کہتا ہوا داخل ہوتا ہے۔ پہلے وہ فاخرہ کے سر کے بالوں کوپیچھے سے پکڑ کر اس کا منہ کھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ جیسے وہ زبردستی کچھ پلانا چاہ رہا ہو لیکن اس کے بعد وہ اسی تیزاب کو اس کے منہ اور باقی جسم پر پھینکتا ہوا فرار ہو جاتا ہے۔ پہلے تو فاخرہ بلال کے پیچھے بھاگتی ہے لیکن پھر تیزاب کی جلن سے بے حال فاخرہ کی نظر اپنے کپڑوں پر پڑتی ہے جو جو اس کے جسم کے گوشت کے ساتھ پگھل رہے تھے۔

بے ہوش ہونے کے بعد فاخرہ کو کچھ خبر نہیں کہ کیا ہوا لیکن تیزاب نے اس کے سر کے بالوں کو جلا دیا۔ ہونٹوں کو ایکدوسرے سے جوڑ دیا، ایک آنکھ سے نابینا اور سینہ کے گوشت کو تحلیل کر دیا۔ اس طرح لمحوں میں بائیس سالہ خوبصورت فاخرہ یونس کا جسم مسخ ہو چکا تھا۔ وہ چھ ماہ کوما میں رہی اور ایک سال بعد بھی ٹھیک سے سانس نہیں لے سکتی تھی۔ اس کا شوہر مفرور تھا۔ گو اس کے خلاف فاخرہ کی بہن کی ساس شاہدہ ملک نے ایف آئی آر درج کروائی تھی اور اس کے جرم کی گواہی کے عینی شاہد شاہدہ کے علاوہ عرفان ملک (بہنوئی) اور بہن کرن بھی تھی لیکن یہ گرفتاری واقعہ کے دو سال بعد 31 اکتوبر 2002 کو مظفر گڑھ میں پیش آئی جو عارضی ثابت ہوئی۔

بلال سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے جاگیردار گھرانے کا فرد تھا اور جو سابق ممبر پنجاب اسمبلی بھی رہ چکا تھا۔ اس کا باپ غلام مصطفٰی کھر ایک وقت میں پنجاب کا گورنر تھا اور شیرِ پنجاب بھی کہلایا جاتا تھا۔ کیا بدنصیبی کہ شیر کا بچہ گیڈر کی طرح فرار ہوا اور خاندانی نام و نمود و رسوخ کی بنیاد پر قانون کو ہاتھ میں لے کر توڑتا موڑتا رہا۔ ادھر فاخرہ سالوں تک 39 پلاسٹک سرجری کے آپریشنز سے نبٹتی رہی۔ مگر پھر بھی اس کا مسخ چہرہ بہتر نہ ہو سکا۔ اس کا کہنا تھا۔ ”میں اب انسان نہیں لگتی ہوں۔ میرا چہرہ میری قید بن چکا ہے۔ “

وہ دس سال تک روم (اٹلی) میں پناہ گزین تھی۔ جہاں وہ مستقل پلاسٹک سرجری سے گزر رہی تھی۔ تنہائی، ڈپریشن، مایوسی، غریب الوطنی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دن اس نے اپنے فلیٹ کی چھٹی منزل سے کود کر موت کو گلے لگا لیا اور زندگی کی قید سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہو گئی۔ شاید اس امید پر کہ جان کی یہ قربانی قانون کا چہرہ مسخ کرنے والوں کو گرفتار کر کے سزا دینے میں کامیاب ہو سکے۔ فاخرہ کا آخری پیغام یہ تھا۔ ”حکمرانوں کی بے حسی پر خود کشی کر رہی ہوں۔ کاش ملزموں کو کٹہرے میں دیکھ سکوں۔ “

لیکن صورتحال یہ ہے کہ بلال کھر کے خلاف گواہی دینے والے چشم دید گواہ نے ظالم طاقتور کے خوف سے اپنا بیان بدل دیا ہے اور ایک عورت کی موت کا مجرم بلال کھر ملتان میں اپنی پانچویں بیوی کے ساتھ عیش کر رہا ہے جو آزاد کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ کی بھانجی ہے۔

اس واقعہ کا سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ فاخرہ کی موت سے محض ایک سال قبل ہی پاکستان کی شرمین عبید چنائے کی اس موضوع پر بننے والی دستاویزی فلم ”سیونگ فیس“ کو آسکر ایوارڈ ملا تھا۔

اس قسم کے واقعات کمبوڈیا، افغانستان، انڈیا، بنگلہ دیش، پاکستان اور قریبی ممالک میں کوئی نئی بات نہیں کہ جہاں گھریلو تشدد، کاروکاری، غربت کے نام پر قتل، چولہے اور تیزاب سے جلنے کے واقعات عام ہیں۔ جو طاقتور کی کمزوری پر بالادستی اور قابو پانے کی مثالیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ 80 فیصد واقعات میں تشدد کا شکار عورتیں ہی ہیں۔

عورتوں کی ہزیمت اور نظر انداز کرنے کا سب سے کریہہ عمل تیزاب کا پھینک کر نہ صرف زندہ درگور کرنا ہے بلکہ عورت کے وجود سے انکار اور بے شناخت کرنے کا عمل بھی ہے۔

گو چہرے پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں ڈھاکہ (بنگلہ دیش) سرِفہرست ہے۔ مگر پاکستان میں ہونے والے سالانہ چار سو واقعات بھی ہمارے سماجی اخلاقی اور نفسیاتی رویئے کے عکاس ہیں۔

تشدد کے ان واقعات میں اکثریت (80 فیصد) عورتوں کی ہے لہذا یہ بات واضح ہے کہ اس کی بڑی وجہ صنفی امتیاز کا رویہ ہے۔ جس کی بنیاد پہ مرد عورتوں کے جسم کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہوئے جو سلوک چاہیں روا رکھتے ہیں۔ خاص کر جب عورتیں ان کی جانب سے آئے ہوئے رشتے کو ٹھکرا دیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے غرور اور من مانی کا توڑ ان کی انفرادیت، شناخت اور خوبصورتی کی مسماری ہے۔ تاکہ اس کے بعد وہ کسی اور سے تعلق جوڑنے کے لائق نہ ہو سکیں۔

بازار میں سستے داموں بکنے والے ایسڈز کی قیمت مہنگی ہوتی ہے۔ جسمانی طور پہ اگر زخم مندمل ہو بھی جائیں تو اس کے نفسیاتی اثرات دور رس ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ شدید ڈیپریشن، احساسِ کمتری اور عدمِ اعتماد ہے۔

قانونی سطح پر 2010 میں اس بیہمانہ جرم کے خلاف ایسڈ کنٹرول اینڈ ایسڈ کرائم پریوینٹیشن بل کی منظوری تاریخ ساز فیصلہ ہے۔ جس کے تحت ایسڈ پھینکنے والے مجرم کو چودہ سال سے تاحیات قید کی سزا دی جا سکتی ہے اور دس لاکھ روپے تک کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ 2017 میں بھی پاکستان کی قومی اسمبلی میں ”دی ایسڈ برن بل 2017“ منظور کیا گیا۔ جس کے تحت ایسے حملہ سے متاثر افراد کا مفت علاج ہو گا اور حکومت طبی اور بعد کے اخراجات کی ذمہ دار ہو گی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ تیزاب پھینکنے کا عمل بیمار معاشرہ کی کریہہ علامت ہے اور مردانہ سماج میں پاور اور کنٹرول کامکروہ اور مسلسل تماشا۔ نفسیاتی طور پر غیر متوازن رویوں کا علاج، محض معاشرتی سوچ میں تبدیلی سے ہی ممکن ہے کہ جب عورت اور مرد کے درمیان حاکم اور محکوم کے بجائے دوستی برابری اور اور احترام کا رشتہ ہو۔ جس کی ابتدا گھروں سے ہو اور صنفی مساوات کا رویہ اسکولوں میں نصاب میں شمولیت کے ذریعہ ہو

تو حکومتی سطح پہ قانون کے لاگو ہونے سے۔ تاہم قانون کا بننا اس وقت کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک اس کے نفاذ میں اونچے منصب والے اپنے مفاد کی خاطر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے رہیں گے اور حق و انصاف کو اپنی زندگیوں میں لاگو نہ کریں گے۔ یقینا معاشرتی تبدیلی کا جھرنا اوپر سے ہی بہتا ہے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).