اگلے پچاس سال عمران خان کے ہیں


عمران خان کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ جو وہ آہستہ آہستہ پھینک رہے ہیں۔ جو رہ گئے ہیں، وہ ٹکسال پر لگا دیے ہیں۔ بہادر لیڈر یہی کام کرتے ہیں جو عمران خان کر رہے ہیں۔ ایران کے انقلاب کی تاریخ میں رہبر انقلاب امام خمینی نے شاہ کو نکال باہر کرنے کے لئے شطرنج کی چال چلی اور شاہ سمیت کئی گھوڑے گرا کر بازی اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پاک سرزمین پر اقتدار کی بساط پر بازی لینے کا جو کھیل پچھلے چند سالوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ اس میں کئی کھلاڑی جنہیں اپنے مہروں پر فٹ ہونے کا یقین تھا اور چال پر بھی ناز تھا۔ آج باہر محوتماشا ہیں۔ جنہیں یہ زعم تھا دنیا ان کے اشاروں پر چلتی ہے، ان کے اشارے بھی خاک ہوئے اور جنہیں گمان عظمت تھا وہ محض خبط ثابت ہوا۔ کچھار بھی ٹکے ٹوکری ہوئی اور کمان کا مان بھی کہیں کا نہ رہا۔ جو نئے مہروں کے ساتھ بازی پلٹے کا مان لے کر میدان میں اترے۔ اپنی ہی چال کا شکار ہوئے۔ جب کہ کھلاڑی دوسروں کے مہروں پر کھیل کر مات دے گیا ہے۔

کرائے کے کھلاڑی تب سمجھتے ہیں جب بازی ہاتھ سے نکل گئی ہوتی ہے۔ کھلاڑی پلٹتا ہے۔ جھپٹتا ہے۔ مات دیتا ہے اور نئے شکار کی جانب لپکتا ہے۔ نومبر زیادہ دور نہیں ہے۔ پھر اک نیا دور شروع ہو گا۔ نئے کھلاڑی اتریں گے۔ نئی بساط بچھائی جائے گی لیکن تب تک شاید کھیل اپنے اختتام کی حدیں چھو رہا ہواور فاتحین کی اک نئی صف کھڑی ہو جائے۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کے صفحات حیرت کے نئے باب رقم کر رہے ہوں۔ میری اس بات کو آج خام خیالی قرار دیا جا سکتا ہے۔ دیوانے کا خواب کہا جا سکتا ہے۔ مگر کیا کروں۔ دوسری آنکھ سے دیکھنے کی خو ہے۔ کہنے اور لکھنے کو نا اہل، نا تجربہ کار اور بہت کچھ جو کہا اور لکھا جا رہا ہے، دھڑلے سے بھائی بندوں کی طرح کہہ دیتا، لکھ دیتا۔ تو کیا تھا۔ کون منع کر رہا تھا۔ مگر چند سالوں میں ہونے والی ان ہونیاں کوئی اور خبر دیتی ہیں۔ جی ہاں۔ کیا یہ ان ہونی نہیں ہے کہ بڑے بڑے جگادری صرف جگالی کرنے تک محدود کر دیے گئے ہیں۔ پارلیمان میں سلکٹیڈ پرائم منسٹرکی صدا بلند ہوتی ہے۔

یہی سلکٹیڈ پرائم منسٹر غیر ملکی صحافی کو انٹرویو میں آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ کالعدم تنظیمیں فوج نے بنائی ہیں۔ ایران میں بھی سچ ہی کہہ دیتا ہے۔ تازہ ترین بیان کہ فوج ملک نہیں سنبھال سکتی ہے یہ کام عوام اور عوام کے منتخب نمایندوں کا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ا لیکٹیڈ پرائم منسٹر کی جرات نہیں ہوئی، وہ سلکٹیڈ پرائم منسٹر کی طرح کوئی بات کرے اور کرسی اقتدار پر بھی براجمان رہے۔ تنقید کی نئی راہ نکلی ہے۔ لکھنے والے اب حساس ادارے کا براہ راست نام لکھ کر بات کر تے ہیں۔

صرف سیاسی کردار ہی بے نقاب نہیں ہوئے ہیں۔ پارسائی اور تقدس کے بت بھی پاش پاش ہوئے ہیں۔ بات یہی رک جاتی تو اور بات تھی۔ سیاست کی طنابیں اک طرف اپنی ماں کی قربانی پرکھڑے غصیلے جوان اور دوسری طرف بربادیوں، نا انصافیوں، ظلم و جبر کی داستان لئے نڈر نوجوان کے ہاتھوں میں جا چکی ہیں۔ وزیرستان کے دیہاتی اسکول ٹیچر کے اس سپوت نے صرف بندوقوں کے رخ ہی نہیں موڑ دیے بلکہ موت کامنظر مرنے کے بعد کیا ہو گا، کی حقیقت کھول کر خوف کی ماں مار دی ہے۔

یہی ان ہونیاں ہیں۔ جو دوسری آنکھ دیکھتی ہے۔ یہ بات مکمل یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ پاکستان کے جمہوریت پسند اور غیور عوام بھٹو کو بھول جائیں گے اور اگلے پچاس سال جمہوری سیاست کے ماتھے کا جھومر عمران خان کا نام ہو گا۔ یہ ان ہونی ہو گی اور ہو کر رہے گی۔ ان ہونی ہونے جا رہی ہے۔ ان ہونی ہونے والی ہے۔ ملک کا جغرافیہ نہیں بدلے گا۔ ریاست کا مزاج بدلے گا اور طرز سیاست تبدیل ہو گی۔ وہ طرز سیاست عمران خان دے کر جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).