زمینی حقائق تو من مانی کا نام ہیں، آئین کچھ اور کہتا ہے


لوگ کہتے ہیں کہ فلاں زمانے میں صحافت پا بندِ سلاسل تھی، فلاں زمانے میں ضمیر کے سودے ہوتے تھے یا ضمیر کے مطابق لکھنے اور بولنے پر بندشیں تھیں. ہم پوچھتے ہیں آپ لوگ کس زمانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اس مملکتِ خداداد میں زمانہ تو آج بھی نہیں بدلا۔ شاید اس کے اطوار بدل گئے ہیں بلکہ اے میرے سنگدل محبوب تیری محفل میں بات کرنی جتنی آج مشکل ہے اتنی پہلے تو نہ تھی۔ اکبر الہ آبادی نے اپنے زمانے میں بدلتی تہذیب پر پھبتی کسی تھی کہ اس سے کوئی زیادہ فرق تو نہیں پڑتا ہے۔ ”مذاہب رہتے ہیں قائم، فقط ایمان جاتا ہے۔

”جنتا جتنا پہلے روتی تھی آج اُس سے کہیں زیادہ رو رہی ہے مگر یہ کہ آپ نے اس رونے دھونے کی آواز کو ماورائی ہاتھوں سے میوٹ کر دیا ہے اس لیے ساون کے اندھوں کی طرح ہماری دانشوری بھی بہرے پن کا شکار ہو رہی ہے. پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل  ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔ اے میرے سنگ دل و ستم گر محبوب دوسروں پر یک طرفہ کیچڑ اچھالنے کی جو کھلی آزادی اظہار آپ کو حاصل ہے۔ اے کاش اس کا عشر عشیر بھی اس ناچیز کو حاصل ہوتا۔

حضور یہ آپ کی کرشمہ سازی کا جوہر ہے کہ آپ سیکڑوں کے مجمع کو لاکھوں کا اور لاکھوں کو درجنوں کا دکھا سکتے ہیں اور دکھائے بغیر بھی جو یار کے من میں آئے فرما سکتے ہیں۔ قوم کی نظروں میں مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا۔ آپ کٹھ پتلیوں کو پاپولر عوامی قیادت اور عوامی قیادت کو کٹھ پتلیاں منوا سکتے ہیں اور کٹھ پتلیوں کی ضرورت محض سیاست میں نہیں ہوتی، سچائی و انصافی ایوانوں میں بھی ان کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں اپنے تئیں پھنے خاں سے پھنے خاں صحافی یا اینکر ہوں گے مگر کس میں یہ پوچھنے کا یارا ہے کہ اے میرے نا مہرباں محبوب، رسمِ عاشقی میں بھی کچھ ضوابط ہوتے ہیں۔ آپ نے ان سب کو پامال کر کے روندو کا کردار کیوں اپنا رکھا ہے؟ جو ون سائیڈڈ ہوں وہ دلائل نہیں پروپیگنڈہ کہلاتے ہیں۔ اس سے شعور نہیں پھوٹتا البتہ جہالت کی کاشتکاری و آبیاری ہوتی ہے۔ فیض نے کیا خوب کہا ہے نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔ آج ارادہ تو حضرت مولانا مسعود اظہر کو اقوامِ متحدہ کی طرف سے عالمی دہشت گرد ڈیکلئیر کیے جانے پر کالم لکھنے کا تھا، جن کی پہچان ہی جہاد کشمیر یا دہشت گردی کے ضمن میں تھی لیکن مسلم لیگ ن کی اندرونی سیاست نے جو پلٹا کھایا ہے، یہ اُس سے بھی دلچسپ مضمون بنتا ہے شریف برادران کو لندن یاترا پر بھیج کر نواز شریف کا بیانیہ کون آگے بڑھا سکتا ہے؟

بلاول بھٹو کی طرح کیا مریم نواز شریف بھی اس حوالے سے کوئی رول ادا کر سکتی ہیں یا شریف فیملی کو سیاست سے باہر رکھ کر پارٹی کو بہتر اسلوب میں چلایا جا سکتا ہے؟ مگر نہیں قوموں کے تشکیلی ادوار میں کچھ نازک و حساس لمحات تاریخ کا قرض ہوتے ہیں جن کی ادائیگی نہ کی جائے تو مورخ یہ لکھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا۔

ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے درویش جس طرح اپنی قوم سے محبت رکھتا ہے اسی طرح اپنے قومی اداروں کی شان پر ایمان و ایقان اور اس کے بیان میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے البتہ درجہ بدرجہ ترجیحات کے تعین سے بھی غافل نہیں اور یہ ترجیحاتی تعین اس سادھو کی ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ عالمگیر و آفاقی حقائق کی مطابقت میں خود آئین کے اندر تمامتر تفصیلات مو جود ہیں۔ اس پس منظر میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ ہمارے میڈیا میں ان دنوں تواتر سے ریاست کا لفظ کسی مخصوص ادارے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے خود آئین کے ریفرنس سے یہ بات کسی طور بھی مناسب نہیں ہے بلاشبہ جس طرح کوئی حکومت ریاست نہیں ہوتی اسی طرح کوئی حکومتی یا ریاستی ادارہ بھی ریاست کہلانے کا سزاوار نہیں ہوتا۔ پالٹیکل سائنس میں ریاست کے جو چار عناصر ترکیبی گنوائے جاتے ہیں علاقہ + عوام + حکومت اور ساورنئی یا اقتداراعلیٰ یہ سب اپنی جگہ لیکن ان کا مصدر کوئی ایک ادارہ کیونکر ہو سکتا ہے۔

ویسے تو سپریم جوڈیشری بھی ایک آئینی ادارہ ہے مگر کسی بھی سٹیٹ کے اصل مالک اس کے باشند گان ہوتے ہیں اور ساورنٹی ان کے معتمد نمایندوں کو حاصل ہوتی ہے اس تمامتر سٹرکچر میں کلیدی حیثیت اس عمرانی معاہدے کی ہوتی ہے جسے آئین کہا جاتا ہے۔ جس کے تحفظ کی تمام تر ریاستی و حکومتی ادارے قسمیں کھاتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں پر فائز ہوتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کی بائینڈنگ فورس یعنی آئین کا کھلواڑ کیا جاتا ہے تو درحقیقت یہ ریاستی شیرازہ بکھیرنے کی حرکت گردانی جاتی ہے۔

ریاست کے حقیقی مالکان کے معتمد ادارے پارلیمنٹ کی حیثیت سب پر واضح رہنی چاہیے یہ ادارہ عوامی اقتدارِ اعلیٰ کا مظہر اور منبع ہے جو آئین کی ماں ہے۔ دیگر تمام تر ریاستی اداروں پر لازم ہے کہ وہ اسے ماں کا تقدس و احترام دیں مگر بالفعل یہاں کیا سے کیا بے اعتدلیاں نہیں ہوئی ہیں؟ 71ء میں جو کچھ ہوا اور یہ ملک جس طرح ٹوٹا ہماری اکثریت کو آج بھی اس کا دکھ ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس اتنی بڑی جسارت کے ذمہ داران کا جو تعین کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد کی نوبت کیوں نہ آ سکی؟

کسی ایک کے خلاف بھی تادمِ تحریر کوئی کارروائی آخر کیوں نہیں کی گئی؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے مقتدر طبقات نے ذمہ داری کا تعین کرنے والی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو کبھی کھلے بندوں قبول کرتے ہوئے قوم کے سامنے رکھنے کی ذمہ داری ادا نہیں کی البتہ جو ان کی ذمہ داری نہیں تھی اس کی الائیشیں ضرور اپنے ہاتھوں میں لگائیں۔

سیدھی بات ہے ریاست و حکومت ہو یا کوئی ادارہ جو جس کا کا م ہے آئینی حدود اور تقاضوں کی مناسبت سے وہ وہیں تک رہے آئین کسی بھی مقدس یا تگڑے سے تگڑے ادارے کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنی حدود سے باہر پھلانگے۔ ابھی ہم نے جو اتنا بڑا پنڈال سجایا اور اس میں قومی بیانیے کا مکمل ضابطہ حیات جس اسلوب میں پیش کیا درویش اس کی قومی افادیت کا پروپیگنڈہ آخر کس طرح کرے۔ اگر یہ سب کچھ آپ نے کرنا ہے تو پھر وزارتِ داخلہ و خارجہ اور وزارتِ قانون و تعلیم کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟

رہ گیا یہ بیانیہ کہ اب ہمارا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا ہے کیونکہ اب ان کے لیے چھوٹ کی مزید گنجائش نہیں ہے یہ بہت ہی افسوسناک بات ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ 71ء نہیں ہے مگر حضورِوالا یہ بیانیہ 71ء والی سوچ ہی کا تسلسل ہے۔ ہمارے پختون نوجوان اس قوم کا مستقبل ہیں وہ بھی اس ملک کے اتنے ہی وفادار اور وارث و مالک ہیں جتنے کوئی اور لوگ ہیں ہمارے وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ان پختون نوجوانوں کے تما م مطالبات درست ہیں مگر لب ولہجہ درست نہیں ہے۔ حضور جب کسی مظلوم انسان کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو گا تو لب و لہجہ کیسے درست رہے گا۔ طعنے بازی سے بہتر ہے کہ ”دارو کوئی سوچ ان کی بھی پریشاں نظری کا۔“

دل توڑ گئی ان کا ”کئی دہائیوں“ کی غلامی۔ آج ان محروم و مظلوم لوگوں پر یک طرفہ الزامات کی جو بوچھاڑ کی جارہی ہے یہ کسی طور بھی قرینِ انصاف نہیں۔ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے تو آپ کی اپنی عدالتیں موجود ہیں جائیں اور ثابت کریں۔ کسی کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے سے ہم سب کو اجتناب کرنا چاہیے۔ جو اس قوم کی سیکیورٹی کے محافظ اور چوکیدار ہیں قوم اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی ضروریات پوری کر رہی ہے اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہر کسی کا جو دائرہ کار آئین نے متعین کر رکھا ہے سب اُس کی مطابقت میں چلیں گے؟ ہمارے بچوں کے سینوں پر جو زخم لگے ہیں انہیں نمک پاشی کی نہیں، مرہم کی ضرورت ہے۔

اب ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی پشاور میں یہ کہہ دییا ہے کہ آپریشن کے بعد قبائل کے مسائل جائز اور فطری ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ بھی مسئلہ نہیں ہے اس کے کچھ لوگوں سے مسئلہ ہے۔ اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے کہ پی ٹی ایم کی قیادت سے مل کر جن لوگوں کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہو رہا ہے مذاکرات کے ذریعے مسلے کا حل نکال لیا جائے۔ وہ ہمارے قومی وجود کا تسلسل ہیں۔ اپنے ناراض بچوں کی شکایات دور کرتے ہوئے ان کی دلجوئی کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).