اقوام متحدہ رپورٹ: انسانی سرگرمیوں سے دس لاکھ سے زائد نسل کے جانوروں اور نباتات کی نسل کے معدوم ہونے کا شدید خطرہ


ماحول

زمین ہو، سمندر ہو یا آسمان، انسانوں کی وجہ سے ہونے والی بدترین تباہی کے مضر اثرات ہر جگہ موجود ہیں اور اس کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد نسل کے جانوروں اور نباتات کی نسل کے معدوم ہونے کا شدید خطرہ ہے۔

تین سال کے عرصے کی تحقیق اور 1800 صفحات پر مبنی اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی انتہائی جامع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زمین پر قدرتی چرند پرند کی نسل میں بہت تیزی سے کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور اس کی وجہ انسانوں کی کھانے اور توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب ہے۔

اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان مضر اثرات کو روکا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے انتہائی نوعیت کے اقدامات اٹھانے ہوں گے اور انسانوں کو قدرت سے قائم رشتے کو از سر نو طریقے سے استوار کرنا ہوگا۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

ماحولیاتی تبدیلی کیا ہے؟

جاندار ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے سے قاصر

کیا بنی نوع انسان کے لیے یہ آخری صدی ہے؟

پیرس میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں بھی انسانوں کے لیے گئے اقدامات نے زمین پر منفی اثرات چھوڑے تھے لیکن کرہ ارض کو جتنا نقصان انسانوں نے صرف گذشتہ نصف صدی میں پہنچایا ہے اتنا کبھی نہیں پہنچایا تھا۔

دنیا کی جو آبادی 1970 میں تھی وہ آج اس سے دگنی ہو چکی ہے۔ عالمی معیشت کا حجم اس عرصے میں چار گنا بڑھ چکا ہے جبکہ عالمی تجارت کا حجم دس گنا بڑھ گیا ہے۔

اس تیزی رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی کا پیٹ بھرنے اور بدن ڈھکنے کے لیے جنگلات کا تیزی سے خاتمہ ہوا ہے۔

صرف 1980 سے 2000 کے درمیان، دس کروڑ ہیکٹر جنگلات کا صفایا کر دیا گیا ہے جن میں سے زیادہ تر جنگلات لاطینی امریکہ یا مشرق بعید میں واقع تھے۔

دنیا بھر میں جنگلات سے بھی زیادہ نقصان دلدلی زمین کا ہوا ہے جو کہ اب سنہ 1700 کے بعد صرف 13 فیصد رہ گئی ہے۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب شہری علاقوں میں اضافہ ہوا ہے اور 1992 سے لے کر اب یہ علاقے دگنے ہو چکے ہیں اور ان تمام انسانی اقدامات کی وجہ سے ہر نسل کے چرند پرند میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔

مایحول

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے اندازے کے مطابق دنیا بھر کے 25 فیصد نباتات اور جانوروں کی نسل جس خطرے سے دوچار ہے گذشتہ ایک کروڑ سالوں میں ان کو کبھی اتنا خطرہ نہیں تھا۔

اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ اور امریکہ کی یونی ورسٹی آف منی سوٹا سے منسلک ڈاکٹر کیٹ برائومین کہتی ہیں کہ ہم نے حیاتیاتی انواع و اقسام اور قدرت میں پائے جانے والی چیزوں کی جو کمی دیکھی وہ آج سے پہلے کبھی اتنی نہ تھی۔

‘جب ہم نے تمام تحقیق کو اکٹھا کیا اور سامنے رکھا تو یہ ہمارے لیے انتہائی حیران کن تھا کہ مختلف نسل کے چرند پرند میں ہونے والی کس قدر زیادہ ہے۔’

اس رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ زمین پر پائی جانے والی مٹی کے معیار میں شدید گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے اور دنیا میں موجود پائے جانے والے خشک خطے کے 23 فیصد حصے کی پیداواری صلاحیت کم ہو گئی ہے۔

انسانوں کی نہ تھمنے والی بھوک کی وجہ سے پیدا ہونے والا ایک اور مسئلہ بڑی تعداد میں فضلے کی پیداوار ہے جس کی وجہ سے پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی میں 1980 کے بعد سے دس گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پلاسٹک کے علاوہ ہر سال تیس سے چالیس کروڑ ٹن بھاری دھاتیں، کیمیکل فضلہ اور دیگر مختلف نوعیت کے فضلے کو پانی میں بہا دیتے ہیں۔

ماحول

اس بحران کا ذمہ دار کون ہے؟

اس تحقیقی رپورٹ کے مصنفین کہتے ہیں کہ اس بحران کی مختلف وجوہات میں سے مرکزی وجہ زمین کا استعمال ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ قدرتی طور پر موجود زمین پر جنگلات کا خاتمہ کر کے ان میں فصل اگانا۔ سنہ 1980 کے بعد سے دنیا بھر میں ہونے والی کاشتکاری میں اضافہ جنگلات کو ختم کر کے ان کی زمین پر ہوا ہے۔

ایسا ہی کچھ حال کرہ ارض کے سمندروں کا بھی ہے۔

سنہ 2014 میں دنیا کے پانیوں میں سے تین فیصد ایسے تھے جن میں انسانی کاروائیاں نہیں تھیں۔ مچھلی جتنا شکار اب ہو رہا ہے وہ ماضی میں کبھی بھی نہ تھا۔

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ انسانوں کی خوراک کا بڑا حصہ اب گوشت اور مچھلی پر مبنی ہے اور اس وجہ سے زمین اور سمندر میں موجود حیاتیات اتنی تیزی سے معدومیت کی جانب بڑھتی جا رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp