انڈین انتخابات کے بدلتے رنگ، انتخابی مہم کے اخراجات کی حد مقرر


انڈین انتخابات

انڈین انتخابات کی مہم میں گذشتہ چند برسوں میں کئی اہم تبدیلیاں آئیں ہیں

انڈین انتخابات کا شمار جمہوریت کی رنگا رنگ اور پرشور مشقوں میں کیا جاتا ہے۔ لیکن صحافی شیوم وِج کے مطابق گذشتہ چند برسوں میں انتخابی مہم کے سخت قوانین اور اخراجات پر حد قائم کرنے کی وجہ سے اب یہ ماحول بدل چکا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی کے قافلے نے جب عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے سات کلومیٹر کا فاصلہ اڑھائی گھنٹے میں طے کیا تو ڈھول کی تھاپ اور نعرے لگاتے زعفرانی ٹوپیوں میں ہزاروں لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ انھوں نے ’ہمیشہ مودی‘ کی ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں جبکہ مودی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔

مودی شمالی ریاست اترپردیش کے علاقے وارانسی میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے جا رہے تھے تاکہ وہ پارلیمان میں اس قدیم شہر کی نمائندگی کے لیے دوسری مرتبہ منتخب ہو سکیں۔

لیکن ایک اپوزیشن رہنما نے فوری طور پر الیکشن کمیشن آف انڈیا کو شکایت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اس روڈ شو پر آنے والا خرچہ امیدواروں کو مہم پر خرچ کرنے والی حد سے زیادہ ہے۔ یہ حد 70 لاکھ روپے ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین الیکشن کمیشن: 70 ملین ڈالر کا چھاپہ

انڈین سیاست میں بالی وڈ کا بڑھتا ہوا کردار

انڈیا الیکشن: کمیونسٹوں کے لیے یہ ’بقا کی جنگ‘ ہے

انڈین انتخابات

انتہائی مشکل ہے کہ کوئی امیدوار مقرر کردہ حد سے کہیں زیادہ اخراجات کیے بغیر پارلیمانی نشست جیت سکے

شکنجہ کس لیا گیا

الیکشن کمیشن آف انڈیا ملک میں جاری 17ویں عام انتخابات کو ’بڑا تہوار‘ یا ’جمہوریت کا تہوار‘ کے طور پر بیان کر رہا ہے۔ لیکن اب یہ پرانی بات ہو چکی ہے کیونکہ ظاہری طور پر تہوار نظر آنے والا انتخاب اب تہوار نہیں رہا ہے۔

ہر الیکشن کے ساتھ، امیدواروں کی انتخابی مہم پر آنے والے اخرجات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے قوانین میں سختی آ رہی ہے۔

اس قدر سختی ہو چکی ہے کہ گلیوں کی سطح پر ہونے والی مہم اب بمشکل ہی دکھائی دیتی ہے۔ پوسٹر، پینٹنگ، جھنڈے اور جھنڈیاں، لاؤڈ سپیکر پر بجنے والا اونچا میوزک اور پرشور جلوس سب غائب ہو گئے ہیں۔

سنہ 2010 میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے نئے قوانین بنانے اور اخراجات کو مانیٹر کرنے کے لیے ایک نیا ڈیپارٹمنٹ بھی قائم کیا۔ تب سے امیدواروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ انتخابی مہم سے قبل الیکشن کمیشن کو اپنے اخرجات سے آگاہ کریں اور اس بارے میں انھیں احتیاط سے کام لینا ہو گا۔

دیواروں پر عبارتیں لکھنے کی بھی اب اجازت نہیں رہی کیونکہ یہ پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کے زمرے میں آتا ہے جبکہ ماحول کو درپیش مسائل کی وجہ سے پلاسٹک کی جھنڈیوں کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ انتخابی مہم کے دنوں میں نگرانی کرنے والی خصوصی ٹیمیں چوہے بلی کے کھیل کی طرح ہر حلقے میں جاتی ہیں۔ غیرقانونی پوسٹرز کو اتارا جاتا ہے اور ان تمام اخراجات کو ریکارڈ کیا جاتا ہے جو ’خفیہ رجسٹر‘ کے مطابق منظور شدہ نہیں ہوتے۔

ہر طرح کے اخراجات کی حد متعین کی جاتی ہے۔ حتیٰ کے ایک ٹیم اس بات کی بھی تحقیقات کرتی ہے کہ کسی اخبار میں شائع ہونے والا آرٹیکل ’پیڈ نیوز‘ تو نہیں جو بنیادی طور پر ایک اشتہار ہوتا ہے جسے خبر کا رنگ دے کر شائع کیا جاتا ہے۔ یہ اخراجات بھی امیدواروں کے اکاؤنٹ میں شامل کیے جاتے ہیں۔

انڈین انتخابات

زیادہ تر امیدوراوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم پر ستر لاکھ روپے سے بھی کم رقم خرچ کرتے ہیں

خفیہ اخراجات

یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ دولت مند امیدوار کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ لیکن 16 لاکھ پچاس ہزار ووٹرز کے لیے مہم چلانے کے لیے 70 لاکھ روپے انتہائی کم رقم ہے۔ یہ انڈیا میں ایک پارلیمانی حلقے کی اوسط آبادی ہے۔

اس کو اس تناظر میں دیکھیں: ایک حلقے میں شامل ہر ووٹر کو بذریعہ ڈاک ایک خط بھیجنے کا خرچہ پانچ روپے ہے، مجموعی طور پرصرف ایسا کرنے پر آنے والا مجموعی خرچہ اسی لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔

اخراجات کی حد میں سنہ 2014 میں اضافہ کیا گیا تھا لیکن تب سے اسے مہنگائی کی شرح کے مطابق ٹھیک نہیں کیا گیا۔ کوئی بھی اس حد کو بڑھانے کا معاملہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ زیادہ تر امیدوراوں کا دعویٰ ہے کہ وہ 70 لاکھ روپے سے بھی کم رقم خرچ کرتے ہیں۔

بہت سے امیدوروں نے الیکشن کمیشن کو اپنے اخراجات کے حوالے سے مصنوعی اعدادوشمار پیش کیے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہائی مشکل ہے کہ کوئی امیدوار حکومت کی جانب سے متعین کردہ حد سے کئی گنا زیادہ اخراجات کیے بغیر پارلیمانی نشست جیت سکے۔

جس کے نتیجے مییں تمام امیدواروں کو الیکشن کمیشن کی مانیٹرنگ ٹیموں سے اپنے اخراجات چھپانا پڑتے ہیں۔

اگر الیکشن کمیشن اس بات کا تخمینہ لگا لے کہ کسی امیدوار نے متعین کردہ حد سے تجاوز کیا ہے تو الیکشن جیتنے کے باوجود اور پانچ سالہ دور مدت کے دوران کسی بھی وقت اسے نا اہل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم بہت کم ہی کسی امیدوار کو نا اہل کیا گیا ہے لیکن ایسا ہوا بھی ہے جس کی وجہ سے یہ خوف امیدواروں پر تلوار کی طرح لٹکا رہتا ہے۔

انڈین انتخابات

گلیوں میں ہونے والی انتخابی مہم اب ختم ہو چکی ہے

خفیہ مہم

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک وقت تک گلیوں میں ہونے والی مہم اب خفیہ ہو گئی ہے۔ امیدوار ووٹ کے حصول کے لیے ووٹرز میں پیسے اور شراب تقسیم کرتے ہیں، اور یہ سب اکثر رات کے اندھیرے میں ہوتا ہے۔ تاہم تحقیق کے مطابق رشوت دراصل ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی۔

حکام بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر دی گئی نقد رقم اور شراب پکڑ کر قبضے میں لے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق 26 مارچ سے لے کر اب تک 470 ملین ڈالر کے قریب نقد رقم، شراب، منشیات اورسونا برآمد کیا گیا ہے۔

حتیٰ کہ اگر حکام کی نظروں سے کوئی چیز بچ بھی جائے تو امیدوار کے مخالفین شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ میڈیا بھی ہے۔ لہذا الیکشن لڑنے والے امیدوار کوئی رسک نہیں لیتے بلکہ بچ نکلنے کے راستے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کوئی امیدوار مہم کے لیے پانچ گاڑیاں استمعال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسےہر گاڑی کے لیے ایک سٹکر دیا جائے گا۔ اگر کسی ایسی گاڑی کا استعمال کیا جائے گا جس کی اجازت نہیں دی گئی تو حکام اسے ضبط کر سکتے ہیں۔

عملی طور پر امیدوار گاڑیوں کے بونٹس پر پارٹی پرچم لگائے بغیر کئی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح وہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ گاڑی انتخابی مہم کے لیے استعمال نہیں کی گئی۔ لہذا پیسے خرچ تو کیے جاتے ہیں لیکن دکھائی ایسے دیتا ہے کہ یہ سڑک پر چلنے والی کوئی گاڑی ہے۔

ایس وائی قریشی، جنھوں نے ان میں سے بہت سے قوانین ترتیب دیے ہیں، کے مطابق اصل تہوار ووٹر ٹرن آؤٹ ہے جو کہ بڑھ رہا ہے۔ ’یہ گذشتہ دنوں میں 30 فیصد سے بڑھ کر اب 70 فیصد ہو چکا ہے۔ کون کہتا ہے کہ تہوار مر چکا ہے۔ یہ بس اب پہلے سے زیادہ منظم ہے اور بہت سے ووٹرز نے تعریف کی ہے کہ امیدوار اب ان کے گھروں کی دیواروں کو گندہ نہیں کرتے ہیں۔‘

انڈین انتخابات

پوسٹرز، جھنڈے اور پرہجوم ریلیاں انتخابی مہم سے اب غائب ہو گئے ہیں

انفرادی دلچسپی

یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی مہم میں اخراجات کے قوانین ہی واحد وجہ نہیں جس کی وجہ سے انڈین الیکشن کے رنگ کھو گئے ہیں۔ دنیا بھر کی طرح ٹیکنالوجی بھی اس کی ذمہ دار ہے۔ کیبل ٹی وی تک بڑھتی رسائی اور موبائل پر سستے انٹرنیٹ کی فراہمی کی وجہ سے انتخابی مہم اب عوام کی بجائے افراد کو ہدف بنا رہی ہے۔

ڈیجیٹل مارکیٹنگ ایجنسیاں فروغ پا رہی ہیں جس سے الیکشن کا سازومان بنانے کی ماہر کمپنیاں تباہ ہو رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

‘انڈین الیکشن ایک بہت بڑی شادی جیسے ہیں’

انڈین الیکشن: واٹس ایپ ’جعلی خبروں کا بلیک ہول’

مودی کی جگہ بی جے پی کون چلا سکتا ہے؟

اس سے چھوٹے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جانے والے اخراجات کو الیکشن کمیشن کی نظروں سے بچانے میں مدد ملتی ہے۔ ڈیجیٹل اخراجات کا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے اور اس سے پہلے اجازت لینے کے پریشانی سے بھی بچا جا سکتا ہے، جس سے انتخابی مہم سست روی کا شکار ہو جاتی ہے۔

انفرادی طور پر ووٹرز کو ہدف بنانے سے امیدواروں کی انتخابی مہم میں کی گئی سرمایہ کاری بہتر طریقے سے واپس آتی ہے۔ نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی کے سیاسی سائنسدان سائمن چوچارڈ نے انڈیا کے سیاستدانوں سے یہ پوچھنے میں کافی وقت صرف کیا ہے کہ وہ جیتنے کے لیے کس طرح اپنے پیسے کو خرچ کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے ’بہت سے امیدوار آن لائن حکمت عملی پر بھی خرچ کرتے ہیں، مثال کے طور پر مقامی واٹس ایپ نیٹ ورکس، لیکن آف لائن بھی خرچ کرتے ہیں۔‘

انڈین انتخابات

ایس وائی قریشی کہتے ہیں کہ اصل تہوار ’ووٹر ٹرن آؤٹ‘ ہے

’اب یہ سمجھ پیدا ہو چکی ہے کہ کوئی ہیلی کاپٹر میں آکر صرف تقریر نہیں کر سکتا۔ ایک فرد کو یہ جانچنا ہوتا ہے، ووٹرز سے ملنا ہوتا ہے اور کم از کم ان کو سننے کا دکھاوا کرنا پڑتا ہے۔‘

تعجب کی بات یہ ہے کہ انفرادی امیدوار بہت کم تعداد میں ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم پر خرچ کیے جانے والے پیسے کی کوئی حد نہیں جس سے سب کو ایک سطح پر لڑنے کا موقع دینے کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔

مالی عدم تناسب کی وجہ سے انڈین انتخابات صدارتی طرز کے ہو کر رہ گئے ہیں جہاں نریندر مودی اور راہل گاندھی جیسے بڑے رہنما انڈیا بھر میں بڑی بڑی ریلیوں سے خطاب کرتے ہیں وہیں گلیوں میں ہونے والی انتخابی مہم اب غائب ہو گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp