میانمار: روہنگیا قتل عام پر رپورٹ کرنے والے روئٹرز کے دونوں صحافی رہا


وا لون اور کیاو سو او

وا لون اور کیاو سو او کو میانمار کے صدر کی جانب سے معافی دیے جانے پر رہائی ملی ہے

میانمار میں روہنگیا کے بحران کی رپورٹرنگ پر قید کیے جانے والے خبررساں ادارے روئٹرز کے دو صحافیوں کو رہا کر دیا گيا ہے۔

33 سالہ وا لون اور 29 سالہ کیاو سو او کو میانمار کے صدر کی جانب سے معافی دیے جانے پر رہائی ملی ہے۔ انھوں نے دارالحکومت یانگون (رنگون) کے مضافات کے جیل میں 500 دن سے زیادہ کی مدت گزاری۔

انھیں سرکاری رازداری ایکٹ کی خلاف ورزی میں گذشتہ سال ستمبر میں سات سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

ان کی گرفتاری کو پریس کی آزادی پر ضرب کے طور پر دیکھا گیا اور اس نے میانمار میں جمہوریت پر سوال کھڑے کردیے۔

یہ بھی پڑھیے

’آنگ سان سوچی میں ’اخلاقی قیادت‘ کا فقدان ہے‘

میانمار: ’صحافیوں کے پاس روہنگیا ہلاکتوں کے ثبوت تھے‘

جیل سے رہا ہونے کے بعد وا لون نے بی بی سی کے نک بیکے کو بتایا کہ وہ صحافت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا: ‘میں اپنے اہل خانہ اور ساتھیوں کو دیکھ کر پرجوش اور واقعی خوش ہوں۔ میں اپنے نیوز روم میں جانے کے لیے بے چین ہوں۔’

وا لون

ان سین جیل سے رہائی کے بعد وا لون کی خوشی تھمتی نظر نہیں آتی

ان کے گھر بار اور چھوٹے بچے ہیں۔ وا لون کی اہلیہ پین ایی مون کو ان کے شوہر کی گرفتاری کے بعد پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہیں۔ اور انھوں نے اپنی بیٹی کو چند بار ہی دیکھا ہے جب جیل میں ان کی اہلیہ ان سے ملنے کے لیے جاتی تھیں۔

ان صحافیوں کو عام معافی کے تحت ہزاروں دوسرے لوگوں کے ساتھ رہائی ملی ہے۔ میانمار میں ہر نئے سال کے موقعے پر عام معافی دی جاتی ہے۔

روئٹرز کے مدیر اعلی نے کہا کہ گذشتہ ماہ ان دونوں صحافیوں کو گرانقدر پیولٹزر انعام سے نوازا گیا ہے اور وہ پریس کی آزادی کی ‘علامت’ بن گئے ہیں۔

مدیر اعلی اسٹیفن جے ایڈلر نے ایک بیان میں کہا: ‘ہم بہت خوش ہیں کہ میانمار حکومت نے ہمارے جرات مند صحافیوں کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ پریس کی آزادی کی ایک علامت بن گئے ہیں۔’


معرکہ سر ہوا ہے لیکن جنگ نہیں جیتی گئی ہے

بی بی سی نامہ نگار نک بیک، ینگون

جب صحافیوں کو رہا کیا گیا تو وہاں افراتفری کا عالم تھا۔

اپنے ہی دو صحافیوں کی رہائی پر وہاں صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ برما کے بہت سے صحافیوں کے لیے یہ ذاتی قسم کا معاملہ تھا۔ انھیں خوف تھا کہ جو وہ لکھتے ہیں اگر وہ حکام کو پسند نہیں آئے تو وہ بھی جیل جا سکتے ہیں۔

روئٹرز کے دونوں صحافی اب آزاد ہیں لیکن آنگ سان سوچی کی حکومت نے انھیں 18 مہینوں تک جیل میں رکھا ہے۔

اسی دوران حکام نے ایسے مزید صحافیوں اور رضاکاروں کو گرفتار کی جنھوں نے ملک کے مستقبل کی راہ پر سوال کھڑے کیے۔


وہ کس چیز کی جانچ کر رہے تھے؟

یہ دونوں صحافی میانمار کے شہری ہیں اور بین الاقوامی نیوز ایجنسی روئٹرز کے لیے کام کرتے ہیں۔

وہ ستمبر 2017 میں شمالی رخائن کے ایک گاؤں ان ڈن میں دس روہنگیا مردوں کے فوج کے ہاتھوں قتل کے شواہد اکٹھا کر رہے تھے۔

وہ دو پولیس والوں کی جانب سے ایک ریستوراں میں چند دستاویزات دیئے جانے کے بعد رپورٹ کی اشاعت سے قبل گرفتار کر لیے گئے۔

رخائن روہنگیا

ان دس روہنگیا کے قتل کی دونوں صحافی جانچ کر رہے تھے

سماعت کے دوران ایک پولیس گواہ نے بتایا کہ ریستوراں میں پولیس کے ساتھ ان کی ملاقات دونوں صحافیوں کو پھنسانے کے لیے رکھی گئی تھی۔

اس واقعے کے متعلق حتمی رپورٹ کو جس میں دوسرے صحافیوں کا بھی تعاون تھا بہترین قرار دیا گيا کیونکہ اس میں مختلف لوگوں کے شواہد تھے۔ ان میں بودھ مذہب کے حاملین نے قبول کیا تھا کہ انھوں نے روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا اور ان کے گھر کو نذر آتش کیا۔ نیم فوجی دستوں کے بیان نے فوجی کو براہ راست اس میں ملوث بتایا۔

اس سے قبل فوج نے رخائن کے متعلق لگائے جانے والے الزامات پر اپنی تفتیشی رپورٹ جاری اور خود کو تمامتر الزامات سے بری قرار دیا۔ حالانکہ روہنگیا پناہ گزینوں نے بڑے پیمانے پر ان کے ظلم و ستم کی داستانیں بیان کی ہیں۔

اس کے بعد حکام نے ان ڈں گاؤں کے قتل کے بارے میں اپنی جانچ شروع کی اور قتل عام کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مرتکبین کے خلاف کارروائی ہوگی۔

اس قتل و غارت گری مین سات فوجیوں کو جیل کی سزا سنائی گئی۔

فوج نے کہا ہے کہ ان فوجیوں کو ‘قتل میں شامل ہونے اور تعاون کرنےکے لیے’ دس سال کی جیل ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp