گم شدہ چہرہ اور فیس بک فرینڈ


ناظم نے فیس بک کھولی تو ایک نئی فرینڈ ریکویسٹ دیکھ کر چونک اٹھا۔ نام بے بی ڈول لکھا تھا اور پروفائل پکچر مہندی لگے ہاتھ تھے۔ عام طور پر لڑکیاں اس طرح کی تصویریں لگا لیا کرتی ہیں۔ اس نے وال چیک کی چند رومینٹک پوسٹس نظر آئیں۔ ناظم کے دل میں گدگدی سی ہونے لگی۔ کون ہے یہ لڑکی؟ کیا یہ مجھے جانتی ہے؟ اس کے دل میں طرح طرح کے سوال ابھرنے لگے۔ کہیں کوئی لڑکا تو نہیں جس نے فیک آئی ڈی بنائی ہو۔ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ یہ کسی لڑکی ہی کی آئی ڈی ہے۔ اس نے بے بی ڈول کی فرینڈ ریکویسٹ قبول کر لی۔

چند گھنٹوں کے انتظار کے بعد بے بی ڈول کی طرف سے تھینک یو کا میسج ملا۔ ناظم کو عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔ اس نے میسینجر پر دو تین میسج کیے۔ وہ بے بی ڈول کے بارے میں مزید جاننا چاہتا تھا۔ اسے اپنے سوالات کے جوابات کے لیے رات بارہ بجے تک انتظار کرنا پڑا تب بے بی ڈول آن لائن ہوئی۔ تاہم بے بی ڈول نے اپنے بارے میں کھل کر بتانے سے گریز کیا وہ پہلے ناظم کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ ناظم نے اسے مایوس نہ کیا اور اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا۔ اس کی ساری باتوں کا لب لباب یہ تھا کہ وہ انتہائی روشن خیال اور مہذب نوجوان ہے۔

فیس بک فرینڈ شپ دھیرے دھیرے پروان چڑھنے لگی۔ چند دنوں میں ہی ایسا لگنے لگا تھا جیسے وہ برسوں سے گہرے دوست ہوں۔ صبح گڈ مارننگ کے میسج سے رات گڈ نائٹ کے میسج تک کئی بار ان کا رابطہ ہوتا تھا۔ ناظم نے بے بی ڈول سے مزید تصویروں کی فرمایش کی۔ بے بی ڈول نے اسے مایوس نہ کیا اور میسینجر پر کئی تصویریں بھیج دیں۔ ان تصویروں کو دیکھ کر ناظم مسکرائے بغیر نہ رہ سکا کیونکہ ساری تصویریں ہاتھوں اور پاؤں کی تھیں۔ بلا شبہہ وہ بہت خوبصورت نسوانی ہاتھ پاؤں تھے لیکن وہ اس لڑکی کا چہرہ نہ دیکھ پایا تھا۔

ناظم کے دل میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ بے بی ڈول کیسی ہو گی؟ خوبصورت یا معمولی صورت کی۔ تجسس اس قدر تھا کہ فوراً اسے دیکھ لینا چاہتا تھا مگر بے بی ڈول اسے تڑپا رہی تھی اور اپنے جسم کے مختلف حصوں کی تصویرں بھیج دیتی تھی سوائے چہرے کے۔ اس نے ابھی تک اپنا اصل نام بھی نہیں بتایا تھا۔ ناظم نے شروع میں اصرار کیا تھا تب بے بی ڈول نے کہا تھا کہ اگر مزید اصرار ہوا تو دوستی کی ڈور ٹوٹ جائے گی۔ دوستی کی پہلی شرط ہی یہی تھی کہ وہ اس کے اصل نام کو جاننے کی کوشش نہیں کرے گا البتہ بے بی ڈول نے یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ مناسب وقت پر وہ خود اپنا اصل نام بتا دے گی۔ ناظم اس مناسب وقت کا انتظار کر رہا تھا۔

اب ناظم کے دل میں کچھ اور خواہشیں بھی مچلنے لگی تھیں۔ وہ بے بی ڈول سے کہتے ہوئے کترا رہا تھا۔ پھر ایک دن اس نے سوچا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بے بی ڈول سے تقاضا کرے۔ اس کا خیال تھا کہ بے بی ڈول اس کی محبت میں گرفتار ہو چکی ہے۔ چناں چہ اس نے نیوڈز کا مطالبہ کر دیا۔ اس بار بھی اسے مایوسی نہ ہوئی اور اسے ایک تصویر موصول ہوئی۔ یہ کلوز اپ تھا۔ اس تصویر کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کس کی ہے لیکن یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا تھا کہ جس کی ہے وہ انتہائی خوبصورت ہو گی۔

ابھی تک اس نے جتنے اعضا کی تصویریں دیکھی تھیں وہ سب نہایت متناسب تھے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ چہرہ بے ڈھب ہو۔ بے بی ڈول ابھی تک چہرہ دکھانے سے انکاری تھی۔ ناظم اس سے فون پر بات کرنا چاہتا تھا لیکن بے بی ڈول نے کال پر بھی پا بندی لگا رکھی تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ ابھی صرف میسجنگ ہو سکتی ہے۔

ناظم سے اب صبر نہیں ہو رہا تھا اس نے ملاقات کا مطالبہ کر دیا۔ خلافِ توقع بے بی ڈول نے آمادگی ظاہر کر دی۔ ناظم کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ یہی تو وہ چاہتا تھا اسی لئے اتنے دنوں سے اسے رام کرنے کی کوششوں میں لگا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب اس کی محنت کا ثمر ملنے والا ہے۔ رات کو ملنے کی پلاننگ ہو رہی تھی۔

بے بی ڈول نے لکھا کہ یہ ملاقات بہت سے راز کھول دے گی۔ وہ اپنا چہرہ بھی دکھائے گی اور بات بھی کرے گی۔ ملاقات کے لئے ایک پارک کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ناظم اپنی کامیابی پر بہت خوش تھا کہ بالآخر وہ بے بی ڈول کو راہ پر لے آیا ہے۔ ابھی جام لبوں تک نہیں آیا تھا لیکن وہ بن پیئے ہی جھوم رہا تھا۔ اس ملاقات کے لئے اس نے کچھ تیاریاں بھی کرنی تھیں۔ نیند اڑ گئی تھی۔ رات بھر وہ بے بی ڈول سے ملاقات کے بارے میں سوچتا رہا۔

اگلے روز صبح ہی سے تیار ہو کر وہ بارہ بجنے کا انتظار کرنے لگا کیونکہ ملاقات کا یہی وقت طے ہوا تھا۔ گیارہ بجے وہ پارک میں پہنچ گیا۔ وہ بے بی ڈول کو پہچاننا چاہتا تھا۔ پارک میں بہت کم لوگ تھے۔ ان میں چند لڑکیاں بھی تھیں لیکن بے بی ڈول کون ہے یہ پتا کیسے چل سکتا تھا۔ وہ ایک دو لڑکیوں کے قریب بھی گیا لیکن کوئی اندازہ نہ ہوا۔ شاید وہ ابھی پارک میں آئی ہی نہیں تھی۔

بارہ بج گئے وہ ایک مخصوص بنچ پر بیٹھ گیا جس کے بارے میں طے ہوا تھا۔ کئی منٹ گزر گئے۔ بے بی ڈول کا کچھ پتا نہ تھا۔ ایک ایک منٹ مشکل سے گزر رہا تھا۔ ایسے میں اسے دور سے ایک لڑکی آتی دکھائی دی اس لڑکی نے برقع پہنا ہوا تھا۔ چہرہ نقاب کے پیچھے پوشیدہ تھا۔ نہ جانے کیوں ناظم کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ لڑکی آہستہ آہستہ اسی کی طرف بڑھ رہی تھی پھر وہ اس کے قریب آ گئی۔ ناظم؟ اس نے سوالیہ انداز میں کہا۔

”ہاں! تم بے بی ڈول ہو؟“ اس نے فوراً پوچھا۔

”اور کون ہو سکتی ہے؟“ بے بی ڈول شاید نقاب کے پیچھے مسکرائی ہو۔ وہ اسی بنچ پر بیٹھ گئی۔ اپنے اور ناظم کے درمیان اس نے اپنا بڑا سا پرس رکھ دیا۔

”آج تو یہ پردے ہٹا دو۔“ ناظم نے بے تابی سے کہا۔

”تھوڑا صبر تو کرو۔ میں آج تمہیں اپنا چہرہ ضرور دکھاؤں گی لیکن مجھے ڈر لگتا ہے؟“

”ڈر۔ کیسا ڈر؟“ ناظم نے کہا۔

”کہیں میرے ساتھ بھی ویسا نہ ہو جیسا میری سہیلی کے ساتھ ہوا تھا۔“ بے بی ڈول نے کہا۔

”تمہاری سہیلی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟“ ناظم نے چونک کر کہا۔

”بتا دوں کیا؟ تم سنو گے؟“

”ہاں۔ کیوں نہیں۔“

”اچھا میں بتاتی ہوں۔ میری سہیلی کالج میں پڑھتی تھی۔ وہ روزانہ بس پر کالج جاتی تھی۔ اس نے نوٹ کیا کہ ایک لڑکا روزانہ وہاں آتا ہے اور اسے دیکھتا رہتا ہے۔ وہ تھی بھی بڑی پیاری۔ پھر ایک دن اس لڑکے نے اس سے بات کی۔ وہ لڑکا اس پر مر مٹا تھا لیکن میری سہیلی نے اسے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ اسے شکل ہی سے وہ لڑکا اوباش اور آوارہ لگتا تھا۔ سہیلی نے اس لڑکے کو صاف منع کر دیا کہ وہ اسے تنگ نہ کرے مگر وہ لڑکا تو اس کے پیچھے ہی پڑ گیا۔ اب تو وہ با قاعدہ اس کا پیچھا کرنے لگا تھا۔

ایک دن موقع پا کر اس لڑکے نے راستے میں اسے چھونے کی بھی کوشش کی۔ میری سہیلی نے اسے خوب برا بھلا کہا اور دھمکی دی کہ چیخ چیخ کر لوگوں کو بتائے گی، وہ پولیس میں کمپلینٹ کرے گی۔ اس وقت تو وہ لڑکا چلا گیا لیکن اگلے دن میری سہیلی کی زندگی کا بد ترین دن تھا۔ بس اسٹاپ پر پہنچنے سے پہلے ہی اس لڑکے نے راستے میں اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔ آنکھیں تو بچ گئیں لیکن وہ بے چاری اپنے چہرے کو کھو بیٹھی۔ اس کا چہرہ جھلس گیا تھا۔ ہاسپٹل سے واپس آ کر جب اس نے آئینہ دیکھا تو ایک خوبصورت چہرے کی جگہ ایک بھیانک چہرہ تھا۔ اس دن سے آج تک وہ اپنے گم شدہ چہرے کو ڈھونڈتی ہے لیکن وہ چہرہ اسے نہیں ملتا۔ کتنا بڑا ظلم ہے یہ۔ میں چاہتی ہوں تم اسے اس کا گم شدہ چہرہ ڈھونڈ کر دو۔‘‘

ناظم کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔ ”مم۔ میں کیا کر سکتا ہوں۔“ اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ ”پتا نہیں لیکن میں تمہیں اس سہیلی سے ملوانا چاہتی ہوں۔“ وہ بولی۔ ”ٹھیک ہے۔ میں اس سے ملوں گا۔“ ناظم نے یوں کہا جیسے وہ اس موضوع کو ختم کرنا چاہتا ہو۔

”تو پھر ملو اس سے۔ “ لڑکی نے نقاب ہٹا دیا۔ ناظم کے سامنے تیزاب سے جھلسا ہوا ایک چہرہ تھا۔ ”اب سمجھے وہ لڑکی میں ہوں، اور تم نے میرے چہرے پر تیزاب پھینکا تھا۔“ لڑکی کا لہجہ نفرت سے بھر پور تھا۔ ناظم ایک لمحے کے لئے گڑبڑا گیا۔ وہ شاید بنچ سے اٹھ کر بھاگنے والا تھا لیکن اسے دیر ہو چکی تھی۔ لڑکی پورا انتظام کر کے آئی تھی۔ اس سے پہلے کہ ناظم کچھ سمجھ سکتا۔ اسے اپنے چہرے پر شدید جلن کا احساس ہوا۔ لڑکی نے اپنے پرس سے بوتل نکال کر تیزاب اس کے چہرے پر پھینک دیا تھا۔ حساب برابر کرنے کے اس شان دار موقِع کو وہ کیسے ضائع کر سکتی تھی۔ جب پارک میں آئے ہوئے اکا دکا لوگ اس تک پہنچے وہ لڑکی نہ جانے کہاں جا چکی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).