نشواء جیت گئی


وہ 8 ماہ کی عمر میں ایسا کام کر گئی جو لوگ 88 سال کی عمر تک بھی نہیں کرپاتے۔ اُس نے ثابت کردیا کہ عمر تو جسم کی ہوتی ہے، روح کی نہیں۔ مجھے لگتا ہے یہ اُس کی روح تھی، جس نے پورے ایک نظام کو جھنجھوڑ دیا۔ سوال اٹھا دیے۔ پردے ہٹا دیے۔ اُس کی ذات نے 16 دن کی جدوجہد میں ساری مشینری ہلادی۔ صوبہ۔ وفاق۔ پولیس۔ جوڈیشری۔ وزارت صحت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن۔ ایسے ایسے ادارے اور مصروف شخصیات۔ جن کو بعض اوقات چیختے چنگھاڑتے جلسے جلوس بھی متوجہ نہیں کرپاتے۔ اُس بچی کی خاموشیوں نے سب کی دوڑیں لگوادیں۔ اُس کا نام تھا نشواء۔

جب نشواء (خوشبو) نام رکھا جارہا تھا، تو اعتراضات اٹھے۔ اتنا مشکل نام۔ کون یاد رکھے گا۔ اُس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایک دن یہ نام اتنا مقبول ہوگا، کہ بھلایا ہی نہیں جائے گا۔ صرف زبانوں پر ثبت نہیں ہوگا، دلوں میں بھی اُتر جائے گا۔ 8 ماہ کی بچی اتنی بڑی اسٹار بن جائے گی کہ شوبز کے اسٹار اُس کی ایک جھلک دیکھنے کو آئیں گے۔ لوگ اُس کے گھر، محلے اور رشتہ داروں کو اُس کے حوالے سے جاننے لگیں گے۔ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کا تعارف بن جائے گی۔ واقعی وہ خوشبو تھی۔ اور خوشبو مرتی نہیں ہے، سفر کرتی ہے۔ اس لئے وہ پیدا تو شہلا اور قیصر کی گود میں ہوئی، مگر آج اُس کی مہک ہر اُس گود تک پہنچ گئی ہے، جو انسانیت پر یقین رکھتا ہے۔ نشواء نے یہ بھی ثابت کردیا کہ ایسے لوگوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ہے۔

لگتا ہے، نشواء واقعی کسی پھول کی طرح تھوڑی دیر کے لئے کھلنے آئی تھی۔ اپنی خوشبو بکھیر کے اُس نے واپس جانا تھا۔ ایک ایسی خوشبو جس نے برانڈ بن کے اپنے جیسے دوسرے پھولوں کی حفاظت کے لئے ایک پلیٹ فارم بنانا تھا۔ جس کا نام ہے ”نشواء فاؤنڈیشن“۔ اسی لئے وہ اپنے ساتھ جڑواں بہن ”عُمائشہ“ کو بھی لے کر آئی تھی۔ اُس نے بہت ہی ننھی سی عمر میں بہت ہی بڑا کام کرنا تھا، اس لئے شاید ماں باپ کی دلجوئی کا سامان کرکے آئی تھی۔

یوں تو کہانی بہت مختصر سی ہے۔ اور اگر کسی اور حوالے سے کی جائے تو غیر دلچسپ بھی۔ کیونکہ یہاں تو روز کا معمول ہے۔ کسی نہ کسی اسپتال میں، کسی نہ کسی کا لخت جگر عملہ کی لاپرواہیوں اور کوتاہیوں کی بھینٹ چڑھتا ہے۔ آپ کسی بھی اسپتال کی بنچ پر جاکے بیٹھ جائیں، تھوڑی دیر میں ایسی کوئی نہ کوئی کہانی آپ کو ضرور سنائی دے گی۔ غلط انجکشن، غلط ٹریٹمنٹ، غلط آپریشن، لاپرواہی، بے حسی، سفاکانہ اخراجات۔ اب بھلا اتنی کہانیاں کون سنے؟

بس وہی جانتے ہیں، جن پہ گزرتی ہے۔ روتے ہیں، پیٹتے ہیں، چیختے ہیں، چلاتے ہیں اور پھر صبر کے نام پہ زندگی بھر کا روگ لئے خاموش ہوجاتے ہیں۔ اور جیسا کہ یہ المیہ لطیفے کے طور پر بھی مشہور ہے، کہ ڈاکٹرز کی غلطیاں زمین میں دفن ہوجاتی ہیں۔ اس لحاظ سے کچھ کو تو پتہ بھی نہیں چلتاکہ اُن کے مریض کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ وہ تو ”موت برحق ہے“ اور ”جو اللہ کی رضا ہے“ کی تسلیاں سن سن کر اجر و ثواب کی نیت سے اندر ہی اندر سسکتے رہتے ہیں، مگر حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ نشواء کی موت نے دوسرں کے گڑھے مردے اکھاڑنے کا بیڑا بھی اٹھالیا۔

مجھے یقین ہے کہ میرے مخاطبین میں سے سب ہی نے نشوا ء کے لرزتے جسم کی بے بسی اور اکھڑتی سانسوں کی دھمک دیکھی یا سنی ہوگی۔ اُس کی ساکت آنکھوں میں ڈوبتی بے چارگی کی تصویر تو کم از کم ہر کسی کو نظر آئی ہوگی۔ مگر پھر بھی۔ جن کو علم نہیں اُنہیں مختصراً بتادوں کہ واقعہ کیا ہے۔ نشواء، عُمائشہ کے ساتھ ہنستی کھیلتی ہسپتال آئی تھی۔ کیونکہ جڑواں بچے اپنی بیماریاں بھی آپس میں بانٹتے ہیں۔ اُس کی ماں کا وہم ڈائرہیا کی روٹین والی بیماری کو لے کر جتنا پریشان تھا، نشواء اُتنا ہی اچھل کود کر رہی تھی۔

اس حد تک کہ اُسے باقاعدہ سے تنبیہ کرنی پڑرہی تھی، کہ وہ دوسری بہن کو ڈسٹرب نہ کرے۔ وہ زندگی سے اتنی بھرپور تھی کہ دقیانوسی کی عینک سے دیکھا جائے تو اُسے کسی کی نظر کھاگئی۔ ماں باپ تو عُمائشہ کے لئے پریشان تھے۔ اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ لالچ، لاپرواہی اور لاقانونیت کا عفریت نشواء کو نگل جائے گا۔ ایسے ہسپتالوں میں جہاں مریض کو گاہک سمجھا جائے۔ وہاں دھکم پیل میں کسی نہ کسی کو غلط سودا تھما دینا ایک قدرتی بات ہے۔

ادھر بھی ایسا ہی ہوا۔ نشواء کو بھی اس افراتفری میں غلط انجکشن لگادیا گیا۔ جس کے ری ایکشن میں چند لمحوں میں نشواء نیلی پڑگئی۔ ماہر ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ اس سے فوراً موت واقع ہوجاتی ہے۔ مگر نشواء زندگی سے اتنی بھرپور تھی کہ دو ہفتوں تک موت سے لڑتی رہی۔ اور اُس کے چاہنے والے بے بسی سے اُس کو تڑپتا ہوا دیکھتے رہے۔ اور ہسپتال والوں نے بے حسی سے منہ موڑے رکھا۔ وہ اپنی یہ غلطی ماننے کو بھی تیار نہیں تھے۔

اُن کا رویہ اُس تربوز بیچنے والے دکاندار کی طرح تھا جو تربوز بیچ دینے کے بعد اُس کی خرابی پر ذمہ داری سے منہ موڑلیتا ہے۔ اور اُسے گاہک کی قسمت پر تھوپ دیتا ہے۔ اور دوسرا کوئی ہسپتال نشواء کو اُس وقت تک ٹریٹ کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ جب تک کہ پہلا ہسپتال اپنی یہ غلطی۔ کوتاہی یا دوسرے لفظوں میں اپنا جرم لکھ کر نہ دے دے۔ بچی تڑپتی رہی اور ماں باپ، عزیز دوست رشتے دار، ہسپتال انتظامیہ کے آگے ہاتھ جوڑتے رہے۔

وہ ہسپتال، جس کے داخلی دروازے پر قرآن پاک کی یہ آیت لکھی ہوئی ہے۔ ”جس نے ایک انسان کی جان بچائی، اُس نے انسانیت کی جان بچائی“۔ ایک لیٹر کے لئے وہاں کی انتظامیہ چکریں لگواتی رہی۔ بہانے بناتی رہی۔ پتہ نہیں ایسے لوگ اپنی شہرت کو بچانے کے لئے اتنے سفاک بن جاتے ہیں یا پھر اُن کے لئے انسان اور انسانیت کے معنی کچھ اور ہیں۔ اُن کے ہاں شاید روز کا معمول ہے۔ اس لئے رویہ تربوز فروش جیسا ہی بن گیا ہے۔ یا پھر شہر کے چوراہے میں بیٹھے اُس اتائی معالج کے جیسا جو کسی بھی ری ایکشن کی صورت میں مریض کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ ذرا سی چیخ و پکار کے بعد معاملہ دب جائے گا۔ مگر اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ نشواء قیصر علی کی بیٹی ہے۔

قیصر کسی جج کا بیٹا ہے نہ جرنیل کا، نہ جاگیردار کا۔ وہ کوئی سرمایہ دار ہے نہ صنعتکار۔ نہ ہی کسی سیاسی مافیا کا کارندہ ہے نہ کسی ایجنسی کا ایجنٹ۔ کسی گدی نشین کے جوتے سیدھے کرتا ہے نہ کسی کنگ میکر کا کاسہ لیس ہے۔ کسی بدمعاش کا دوست ہے نہ کسی دلال کا بھائی۔ وہ ایک سیدھا سادا معصوم انسان ہے۔ کام تو وہ شو بز کا کرتا ہے جس کو مولوی ناجائز سمجھتا ہے۔ مگر ایمان کا اتنا پکا ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر دریا پار کر جائے اور مولوی حیران کھڑا دیکھتا رہ جائے۔

اُس کی دوسری بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ پاکستان سے اُتنی ہی محبت کرتا ہے۔ جتنا دوسرے اس سے فلرٹ کرتے ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں دھرتی کا بیٹا ہے۔ جس نے ہمیشہ اس ملک کو اپنے ماں باپ جتنی عزت دی ہے۔ اُس کی اس عقیدت اور لگاؤ کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اُس نے اپنی شادی پر باقاعدہ طور پر اعلان کیا کہ ہم ہر دکھ، پریشانی اور تکلیف میں ملک کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ مگر خوشیوں اور کامیابیوں میں اس کو بھول جاتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2