”ٹوٹی ہوئی سڑک“ کا آدمی


جمیل اختر کی ”ٹوٹٰی ہوئی سڑک“ پڑھ کر احساسِ قوی ہوا کہ انہیں اس معاشرتی، اخلاقی اور نفسیاتی سڑک کی مرمت کی فکرمجھ ایسوں سے زیادہ ہے، جسے وہ افسانہ در افسانہ مرمت کرنے کا مصمم ارادہ کیے ہوئے ہے۔ بہت کچھ ہے جسے اُس نے افسانوں میں کہہ کر اپنے لئے ایک مناسب راہ چن لی اور بہت کچھ ہے جو ان افسانوں کو پڑھنے والا کہنا چاہے گا۔ پہلی کاوش پہلے تاثر سا اثر رکھتی ہے جسے کسی بھی تخلیق کار کے تعارف کی بنیاد رکھنے میں برابر کا حصے دار سمجھا جا سکتا ہے۔ جمیل کا یہ تاثر کیسا رہا یہ جانچنے کو کتاب کو الٹنا پلٹنا ضروری ہے کہ محمد جاوید انور، اقبال خورشید اور محمد حامد سراج کے تبصرے تب ہی نظر آسکیں گے۔

پڑھنے والے جانتے ہیں کہ کچھ کتابوں کے بارے جی چاہتا ہے کہ وہ کبھی مکمل نہ ہوں، یا انہیں ایک نشست میں دانستہ ختم نہ کیا جائے۔ ”ٹوٹی ہوئی سڑک“ کا سفرمیرے لئے بس ایسا ہی ہے۔ 16 افسانوں اور مختصر کہانیوں کوصفحہِ فہرست پر نمبروں کی فہرست سے مستثنٰی رکھا گیا ہے۔ شاید یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حقیقتہََ ”افسانہ“ کبھی ختم ہوتا ہے نہ اِسے کسی اعداد و شمار میں قید کیا جا سکتا ہے۔

جمیل کے افسانوں میں زندگی کی سی خوبصورتی ہے جو اچانک شروع یا ختم ہونے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ان کا مختصر ہونا۔ ان کے سبجیکٹ میٹر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نہ ان کے مطلوبہ نتیجے پر۔ پہلے افسانے ’ریلوے اسٹیشن‘ میں بظاہر سادہ کردار، تجسس اور تخیلاتی پرواز کی منفرد مثال ہے۔ سب سے بڑھ کر لکھاری کا لکھت انگ، متاثر کن ہے جو ایک سادہ سے جملے میں حقیقت کے سنگ صدماتی رنگ جماتا ہے۔ بظاہر جملے سیدھے مگر گہرے معنی دے جاتے ہیں۔ اسی افسانے کی چند سطریں دیکھیے:

”میں جس بنچ پر آج بیٹھا ہوں، عین ممکن ہے اب سے تیس برس پہلے بھی بیٹھا ہوں۔“ (صفحہ: 13 )

”ایک بزرگ ہاتھ میں عصا لئے بیٹھے تھے، شاید میرے ہم عمر ہی ہوں گے۔“ (صفحہ: 13 )

اس سے اگلا افسانہ ”ٹِک ٹِک ٹِک“ مجھے ایڈگر ایلن پو کے افسانے ”دی ٹیل ٹیل ہارٹ“ اور پاکستانی اردو افسانے ”دستک“ (معذرت، مجھے لکھاری کا نام یاد نہیں آ رہا) کی یاد دلاتا رہا۔ نام سے ظاہر ہے یہ ضمیر کی الجھی ہوئی آواز ہے جسے لکھاری نے تجسس کی ٹیکنیک برقرار رکھتے ہوئے اوپن اینڈیڈ رکھا ہے۔ یہ ہر قاری کی اپنے ضمیر سے ملاقات کروانے کا ایک انوکھا اور کامیاب تجربہ ہے۔ اس کے دو جملے پیش ہیں:

” گانے سنتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لئے وال کلاک کو بھول گیا تھا۔ عجیب بات تھی وہ چاہتا تھا کہ شور ہو لیکن وال کلاک کے شور سے وہ بھاگتا تھا۔ “ (صفحہ: 20 )

انسانی نفسیات کی عجب حسیں عکاسی ہے کہ انسان شور بھی اپنا پسندیدہ چننا چاہتا ہے!

افسانوں میں حالاتِ حاضرہ کا بے باک رنگ ان کی عصری ادبی قدر میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ ”ایٹو موسو“ (اس کا مطلب دھماکے کا خوف ہے) ایک علامتی خوف پر مبنی شاندار کاوش ہے جس کا کردار بالکل اس کے ابتدایئہ جیسا ہے:

” مکمل دیوانگی اور ہوش میں ایک ایسا عالم بھی ہوتا ہے کہ جب آپ ایک خلا میں ہوتے ہیں جب آپ کو نہ تو دیوانہ کہا جا سکتا ہے نہ عقلمند۔“ (صفحہ: 24 )

اس کردار کی زندگی میں کئی طرح کے نفسیاتی و علامتی دھماکے موجود ہیں جنہیں جمیل نے نہایت مہارت سے خوف انگیز بنا دیا ہے۔ ایک خوف سے نکلنے کی خواہش انسان کو اک نئی اسیری میں مبتلا کر دیتی ہے، جیسے یہ کردار ایک ظاہری خوفناک حادثے سے گزر کر باطنی و نفسیاتی قفس کا قیدی ہو چکا ہے۔ اس کا اختتام اتنا ہی دلگیر ہے جتنے آج کل کے ملکی و معاشرتی نا مساعد حالات!

”ٹوٹی ہوئی سڑک“ کا لکھاری کسی ایک ٹیکنیک کا روایتی کھلاڑی بننے کی بجائے، جا بجا، نت نئے تجربات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ”وہ آنکھیں“ کا کرداری قیدی بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل کی آنکھ اکٹھی کھولے سارا افسانہ بن رہا ہے اور لکھاری کامیابی سے ایک کے بعد کئی در وا کرنے میں کتنی آنکھوں کی حسرتیں اور خواب بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ ”مِرر ٹیکنیک“ کی عمدہ مثال ہے۔ اسی طرح استعاراتی سہاروں سے، جمیل نے کئی افسانوں میں عام جملوں سے ہجرتِ کے درد پھیلاتے مناظر، جدید زندگی کے دعوے داروں کے شعوری و معاشرتی المیے، جذباتی مدو جزر، انفرادی شکست و ریخت بیانی اور انسیت و عناد کے پیکر تعبیر کیے ہیں، جن میں ”اُداس ماسی نیک بخت، دُنیا کا آخری کونا، میں پاگل نہیں ہوں، کس جرم کی پائی ہے سزا، استاد جی، مَیں“ قابل ِ ذکر ہیں۔ ان افسانوں کے سادہ و پرکار جملے ان کی تاثیر میں یوں حصہ ڈالے ہوئے ہیں:

”اِس دور میں دولت انسان کو یاد رکھنے اور رکھوانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے (میں پاگل نہیں ہوں، صفحہ: 36)

”غریب کی بات بھی بھلا کوئی بات ہوتی ہے۔‘‘ (میں پاگل نہیں ہوں، صفحہ 38)

”اس کمرے میں رہتے رہتے میں نے ہر بات جو سوچی جا سکتی تھی سوچ ڈالی ہے۔“

”میری عمر اب سینتیس برس ہے، جبکہ میں تیس سال میں مَر گیا تھا۔“ (کس جرم کی پائی ہے سزا، صفحہ: 41)

”یہ گمشدگی قسظوں میں ہوئی تھی آہستہ آہستہ کر کے مَیں کو گم کیا جا رہا تھا۔‘‘ (میَں، صفحہ: 62)

”ایک چھلانگ کے بعد یہ دُکھ بھی اکیلے رہ جائیں گے۔“ ( دنیا کا آخری کونا، صفحہ: 75)

افسانوی نثر کا شاعرانہ ہونا ایک الگ خوبی ہے مگر پیراڈوکسِز، امیجری، کردار سازی، پلاٹ، برجستہ کلامی اِسے ممتاز کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان افسانوں میں کئی ایک بظاہر مختصر مگر ساخت میں ایک ایک علامت سے کئی سطحوں پر فکر انگیز ماحول عطا کرتے ہیں۔ قاری کی دلچسپی کا سامان تجسس سے شروع ہوتا ہے سو جمیل اختر کا افسانہ ”دھند میں لپٹی شام“ ان سب پہلوؤں سے مزین، ایک جھنجھوڑ دینے والی داستان ہے۔ مجھے ورجینیا وولف کا ناول ”مِس اِز ڈیلاوے“ یاد آ گیا ہے جس میں ایک دن کی کہانی زندگی کے فلسفے پر تیز روشنی ڈالتی ہے، دُھند میں لپٹی شام، معصومیت میں ڈھلی وہ مختصر بیانی ہے جس میں ایک ہی منظر ساری داستان سنانے کو کافی ہے۔ پڑھنے والوں کو سلیم اور ساجد پر قتل و غارت کے کھیل میں ملوث ہونے کے باوجود ترس آتا ہے، یہی لکھاری کی مہارت کا بھرپور رنگ ابھارتا ہے۔

کتاب کا عنوان ”ٹوٹی ہوئی سڑک“ بلاشبہ ایک مکمل استعاراتی پیرایہ ہے، بانو قدسیہ کا مشہورِ زمانہ ناول ”راجہ گِدھ“ آدھے حصے میں علامتی توڑ پھوڑ کا حوالہ ہے۔ جمیل نے صحیح طور پہ یہ نام کتاب کے لئے چنا ہے۔ اس کہانی کی سڑک اک حسرت کی سڑک ہے جو جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے، ارد گِرد اٗگی جھاڑیاں اور وہاں کا گہنایا ہویا سورج، شہر اور گاؤں کی اکائیوں اور کڑیوں کو ملاتی گمبھیر کتھا ہے۔ راجہ گدھ کا قیوم اور اس کا والد، اسی طرح کے استعاروں سے ہجرت و یاس کی تصویر بنے نظر آتے ہیں، اس افسانے کا ”وہ اور مَیں“ بھی اپنی اپنی کرداری خوبصورتی کے ساتھ ٹوٹا ہوا انفرادی اور معاشرتی منظر بخوبی پینٹ کر رہے ہیں۔

ان سارے بیانات کے باوجود شاید میں اس کتاب پر اپنے تبصرے سے مطمئن نہیں ہوں کہ جمیل کا قلم، باقی تمام افسانوں میں بھی (جو اسی کتاب کا حصہ ہیں)، اس سے زیادہ رواں ہے۔ مجموعی طور پر اس کتاب کا لکھاری مجھے اپنے سفر کی پرامید مگر سادہ بنیاد اٹھاتا دکھائی دیتا ہے، مجھے جمیل ایسے حقیقت پسند لکھاری سے اس سے زیادہ کی امید ہمیشہ رہے گی کہ نوجوان سنجیدہ لکھاری ہمارا اثآثہ ہیں، وہ اپنے دعویٰ میں بجا لگتا ہے کہ میں افسانے لکھتا نہیں، میں افسانوں میں رہتا ہوں۔

ادب میں جتنے اعلیٰ افسانوی نمونے ہمارے ہاں اور ساری دنیا میں پائے گئے ہیں وہاں ایسا دعویٰ کسی حد تک درست ثابت کرنے کی کوشش بھی ہرگز آسان نہیں۔ ہر چند افسانوں کی بنت مضبوط مگرکہیں کہیں بیانیہ، فی الحال، قدرے درمیانے درجے کا محسوس ہوا ہے۔ میں نے کئی کہانیوں اور جملوں کو رُک رُک کر لُطف لینے کو دو بار پڑھا اور مختصر کہانیوں کا حصہ، دانستہ، ابھی تک نہیں پڑھا کہ میں ”ٹوٹی ہوئی سڑک“ کو اپنے ساتھ مزید رکھنا چاہتی ہوں۔ کتاب کا پیش لفظ جمیل کے اعتماد کا واضح اور خوبصورت اظہار ہے، جو صرف اس ایک جملے پر مشتمل ہے:

” افسانوں کی کتاب پر میں پیش لفظ کو اضافی سمجھتا ہوں، میں نے جو کچھ کہنا تھا وہ افسانوں میں کہہ دیا ہے۔“

دعاؤں کے ساتھ اگلی کتاب کی منتظر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).