سابق وزیر اعظم نواز شریف ایک بار پھر کوٹ لکھپت جیل کے راستے میں، لیگی کارکنان کی بڑی تعداد ہمراہ


پاکستان کے تین دفعہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد محمد نواز شریف العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں چھ ہفتے کی ضمانت ختم ہونے کے بعد دوبارہ کوٹ لکھپت جیل کی جانب روانہ ہو گئے ہیں۔

رات آّٹھ بجے کے بعد نواز شریف اپنی رہائش گاہ جاتی امرا سے اپنی بیٹی مریم نواز اور بھتیجے حمزہ شہباز کے ہمراہ روانہ ہوئے اور جیل جانے کے سفر میں ان کے ساتھ لیگی کارکنان کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

https://twitter.com/pmln_org/status/1125785991661412353

اس موقع پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، تہمینہ دولتانہ، رانا تنویر، سابق گورنر سندھ محمد زبیر سمیت مسلم لیگ نون کے کئی رہنما موجود تھے جو جیل جانے والے قافلے میں سابق وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔

اس سفر کے دوران مریم نواز مسلسل ٹوئٹر کا استعمال کرتی رہیں اور اپنی ٹویٹس میں گاڑی کے اندر سے ویڈیو اور دیگر لیگی کارکنان کی تصاویر شائع کرتی رہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ نواز شریف کے حمایتیوں کی بڑی تعداد وہاں موجود ہے۔

https://twitter.com/MaryamNSharif/status/1125795494893105159

اس کے علاوہ سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنی ٹویٹ میں پاکستانی میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا پر الزام لگایا کہ انھوں نے نواز شریف کو جیل لے جانے والے قافلے کے مناظر ٹی وی پر دکھانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

https://twitter.com/KhawajaMAsif/status/1125808445184200704

دوسری جانب کوٹ لکھپت جیل کے حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کیونکہ نواز شریف مقررہ وقت پر جیل نہیں پہنچے تو ان کا لاک اپ بند کر دیا گیا ہے اور اگلے قدم کے لیے صوبائی وزارت داخلہ کے فیصلے کے انتظار ہے۔

جیل مینوئل کے مطابق نواز شریف کو مغرب تک کوٹ لکھپت جیل پہنچنا تھا۔

کوٹ لکھپت جیل کے عملے نے جاتی امرا پہنچ کر سابق وزیراعظم نواز شریف کو خط دیا اور انہیں جیل قوانین سے آگاہ کیا البتہ نواز شریف نے جیل عملے کو گرفتاری نہیں دی اور کارکنوں کے قافلے کی صورت میں کوٹ لکھپت جیل کے لیے روانہ ہوگئے۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عدالت کےحکم میں صرف تاریخ لکھی ہوئی تھی اور اگروقت کاتعین ہوتاتوضرورعمل کرتے۔

یاد رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے سپریم کورٹ کی ہدایت پر دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فیلگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ سنایا تھا۔

عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں بری جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ ایک ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر علیحدہ علیحدہ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

علاوہ ازیں نواز شریف کو عدالت نے 10 سال کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے سے بھی نااہل قرار دے دیا تھا،مذکورہ فیصلے کے بعد نواز شریف کو گرفتار کرکے پہلے اڈیالہ جیل اور پھر ان ہی کی درخواست پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

مارچ میں نواز شریف کو چھ ہفتے کے لیے علاج کی غرض سے ضمانت دی گئی اور جب 30 اپریل کو انھوں نے اس ضمانت میں توسیع کی درخواست کی تو تین مئی کو سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے میں وہ اپیل رد کر دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp