محبت کے اصول بہت سادہ ہیں، بھلائی کریں بھلائی ملے گی


دروازہ بجے جا رہا ہے۔ ’’بچو دیکھو دروازے پر۔ کوئی ہے جو دروازے کی کنڈی کھولے صبح کے آٹھ بج چکے ہیں، پروین گلی کی صفائی کے بعد کوڑا لینے آئی ہو گی۔‘‘ اماں ہاجرہ بڑبڑاتے دروازے کی طرف لپکی۔ مسکراتے چہرے سے پروین نے زور دار سلام کیا۔ ’’اماں بتاؤ کوڑا کدھر رکھا ہے، سارا جمع کر لوں۔‘‘ پروین تیزی سے گھر کے اندر لپکی۔ کچن باتھ روم چھت اور گھر کے جس بھی کونے میں کوڑا تھا پروین نے سمیٹا اور کوڑے دان میں ڈال دیا۔ ’’ارے کوئی سنتا ہے؟! کوثر، ارے ثروت، اٹھو جلدی سے پروین کے لیے ناشتا بنا دو۔ دُپہر ہونے کو ہے اس نے اور بھی کام کرنے ہیں۔‘‘

’’پروین، جا تو منہ ہاتھ دھو لے۔‘‘ اماں ہاجرہ کی آواز سن کر ثروت ناراضی سے بڑبڑاتے اپنے کمرے سے کچن میں آئی۔ اماں کو نہ جانے کیا ملتا ہے، اس عیسائی کی خدمت کر کے۔ پورے محلے میں اس کو کوئی اپنے برتن میں پانی نہیں دیتا اور ادھر یہ ہیں کہ بیگمات جیسا پروٹوکول۔ ثروت کو بولتے سنا تو جیٹھانی کوثر بھی کچن میں آن پہنچی اور ثروت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولی کہ گزشتہ دو سال سے ہر صبح یہی ڈراما چلتا آرہا ہے، اس گھر میں۔

برتن بھی نا پاک کرواتیں ہیں، اس کو کھانا دے کر اور ہمارا سکون بھی برباد کرتیں ہیںْ۔ پتا نہیں کب سمجھیں گئیں۔ ثروت ٹرے میں ناشتا سجائے باہر صحن میں آئی برتن نیچے پٹخے اور وا پس اپنے کمرے میں چل دیں۔ پروین نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور ناشتا شروع کیا۔ اماں نے محسوس کیا کہ پروین کی آنکھوں سے آنسووں بہہ رہے تھے اور اس کے حلق سے ہچکیاں نکل رہیں تھیں۔ اماں نے حیرت سے پروین کے سر پر ہاتھ رکھا اور پوچھا تو ٹھیک ہے؟ تیرے گھر میں کوئی پریشانی ہے میرے بچے؟

اماں کے الفاظ پروین کے کلیجے کو چیرنے لگے۔ اماں نے پانی پلایا اور پوچھا بتا کیا ہوا تجھے کوئی پریشانی ہے۔ تو پروین نے روتے ہوئے کہا کہ اماں مجھے اپنے نبی کا کلمہ پڑھا دو مجھے مسلمان کر دو۔ اماں ہاجرہ کا رنگ فق ہو گیا اور دھیمے لہجے میں بولیں پروین کیا تجھے کسی نے کہا ایسا کرنے کو؟ یا تو اس کھانے کہ وجہ سے بول رہی؟ پروین نے نفی میں سر ہلایا اور بتایا کہ اماں اپ مجھے عیسائی ہونے کے با وجود اتنے اچھے برتنوں میں کھانا پیش کرتیں ہیں۔

پہلی بار جب میں بھوکی پیاسی اپ کی دہلیز پر آئی تھی اور کھانا مانگنے پر جس عزت سے کھانا دے کر اپ نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا ایسا کوئی نہیں کرتا، ما سوائے نبی کریم کے امتی کے۔ میں نے مولوی صاحب کا بیان سنا ہے۔ اماں نے پیار سے کہا، دیکھ پروین میں تجھے اللہ کی رضا کے لیے اس کے نام پر کھانا دیتی تھی اور جب بات رب کی رضا کی ہو تو بغض کیسا۔ نہیں اماں مجھے کلمہ پڑھا۔ پروین اصرار کرتے ہوئے بتانے لگی، ’’کچھ دن پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت کا دن ہے۔ ہر طرف آگ اور شعلے ہیں، میں ننگے پاوں چلتے چلتے تھک گئی ہوں، حتی کہ پاوں پر تپش سے چھالے پڑ گئے ہیں، پھر اچانک سے میں نے سامنے ایک باغیچہ دیکھا، سرسبز شاداب۔‘‘

آسمان پر ابر اور آسمان سے برسنے والی رحمت میں نے محسوس کی، کہ میرے پاوں ٹھنڈے ہوتے جا رہے اور جب اس باغیچے کو غور سے دیکھا، تو کچھ جانے پہچانے چہرے آنکھوں کے سامنے سے گزرے۔ یہ سارے وہی لوگ تھے جو محبت اور بھائی چارے سے پیش آتے ہیں۔ اماں ہاجرہ تم بھی انہی لوگوں میں شامل تھیں، میرے آنسووں تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور جب میں سو کر اٹھی تو دیکھا کہ میری آنکھوں سے آنسووں رواں تھے عجیب سی کشمکش تھی دل و دماغ میں۔

اپ ہی تو کہتی ہیں اللہ کے پیاروں پر اس کے کرم اور رحمت کے سائے ہوتے ہیں اماں ہاجرہ آب دیدہ ہو گئیں اور بولیں، ’’بیٹا تجھے کھانا اللہ کی رضا کے لیے اس کے دیے گے رزق سے دیا۔ قرآن میں بار بار واضح کہا گیا کہ کسی بھوکے کو کھانا کھلاؤ۔ اسلام انسانیت کا درس دیتا ہے جہاں نہ ذات پات ہے نہ رنگ نسل۔‘‘ اماں ہاجرہ نے پروین کو کلمہ پڑھایا اور خود بھی سر بسجود ہو کر اللہ کے حضور دعا کرنے لگیں کہ اے رب تو مجھ سے راضی ہو جا۔

روز قیامت کس کو سزا ہو گی، کس کو جزا اس کا فیصلہ تو رب الکریم کرے گا۔ جو اس دنیا کا حقیقی مالک ہے۔ ہمیں اپنی ذہنی تسکین کے لیے نہ تو کسی کی ذات پر کیچڑا اچھالنا چاہیے اور نہ انسانیت کی تذلیل کرنی چاہیے۔ کیوں کہ رب العزت نہ تو بھوکے پیٹے کے روزے مانتا اور نا ہی ماتھے پر محراب، اس کے یہاں پسندیدگی اور محبت کے اصول بہت سادہ ہیں، بھلائی کریں بھلائی ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).