گجرات سے جلال پور جٹاں تک


ایک عرصے بعد گزشتہ دنوں گجرات (جلالپور جٹاں ) جانا ہوا۔ کچھ خاندانی مسائل تھے جو میری والدہ نے فی سبیل اللہ اپنے سر لے رکھے ہیں۔ مشہور چوک سروس موڑ سے جلالپور جٹاں کی بس پکڑی جس کا روٹ گجرات سے ہیڈ مرالہ ہے۔ گجرات سے ہیڈ مرالہ تک 50 45 کلومیٹر کے علاقے میں بس تقریباً تقریباً 80 کے لگ بھگ سٹاپ کرتی ہے۔ یہ لوکل روٹ اپنی مثال آپ ہے آج سے چالیس سال پہلے بھی وہی مسائل تھے جو کہ آج ہیں ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور اس پر سفر کرتی لوکل ٹرانسپورٹ موت کے کنویں میں چلتی موٹر سائیکل کا منظر پیش کرتی ہے۔

بسوں اور ویگنوں میں وہی بے پناہ رش اور سب سے اہم بات جو ہنوز نہیں بدلی وہ بس کے کرائے پر جھگڑا۔ اس کارخیر میں ملک کی آدھی آبادی کی اکثریت پیش پیش ہوتی ہے۔ لے اسیں کوئی پہلی واری ادھ والی کھوئی چلیں آں؟ ظلم خدا دا کل پیشی ولے گزات دا کرایا 15 روپیے دے کے گئی آں۔ توں ٹوٹ پینا ہونڑ وی ( 20 ) روپئے منگنا اے۔ اور دوپٹے کے پلو سے پندرہ روپے کھول کر دیتے ہوئے اسے بارور بھی کرایا کہ دنیا دو جائے میں نے کرایہ پندرہ روپے سے زیادہ نہیں دینا۔ اے لے پندرہ۔ روپے۔

پین جی کنیاں سواریاں؟ دو۔ اے مُڑا۔ ؟ میرا اے۔ کیوں؟ ایدا کرایہ؟ کیوں وائی بالاں دا کرایہ تے میں کوئی نئیں نہیں دینا۔

خدا کی قسم وہ خاتون جس کو بچہ بتا رہی تھی اسے سوائے ماں کے کوئی ذی شعور انسان بچہ کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کنڈیکٹر بھی کمر بستہ تھا نا میری پین نا ایسا دا کرایا لینا ای لینا اے۔ ابھی حق وباطل کی یہ جنگ جاری تھی کہ ایک نئے قضیہ نے جنم لے لیا۔ وے توں چرس پیتی اے؟ تینوں گزاتوں (گجرات سے ) دسنی پیئی آں میں کرکن نالے تے لینڑا اے او لنگ آیا ایں میں کلہ کوئی ٹُرو کے پیچھے جاناں دی؟

پین جی اے کرُکن ای اے۔ نئیں نئیں میں اَنی آں؟ تینوں سکولیاں کولوں پھنڈ پین آلی ہوئی اے (تجھے سکول کے لڑکوں سے مار پڑنی چاہیے ) ۔

لو جی گگا پیر کے چیلے نے ایک تھیلی سے سانپ برآمد کیا۔ اور پیر صاحب کی کرامات پر روشنی ڈالنا شروع کی۔ اس روشنی میں جو چیز اجاگر ہوئی وہ یہ تھی پیر صاحب اس علاقے کے تمام سانپوں کے مرشد ہیں۔ سانپ اس علاقے میں پیر صاحب کی اجازت کے بغیر پر نہیں مار سکتے۔ کاش سانپوں کے پر ہوتے۔ اور یہ کہ یہ دنیا فانی ہے کسی نے کچھ ساتھ لے کر نہیں جانا روپیہ پیسہ سب یہیں رہ جانے ہیں۔ مرید صاحب اردو ادب پر بھی اچھی خاصی گرفت رکھتے تھے اس کا اظہار یوں ہوا کہ سو برس کا سامان کر لیا ہے اگلے لمحے کی خبر نہیں۔ گگے پیر کا مزار پُر انوار زیر تعمیر ہے اس کے چندے کی اپیل کے ساتھ یہ خوش خبری بھی سواریوں کے گوش گزار کی کہ گگا پیر اولاد علی ہیں اور ان کے مزار پر دیے ہوئے چندے کا ثواب مکے مدینے میں دیے ہوئے چندے کے برابر ہے۔

میرے پیچھے دو کالج کی نوجوان لڑکیاں براجمان تھیں دونوں کے مسائل الگ الگ تھے ایک نصیب جلی تو اپنے بہن بھائیوں کی ہر سال بڑھتی ہوئی تعداد سے نالاں تھی اور اس اضافے کا موجب والد گرامی کی بے حسی کو سمجھتی تھی اور پوتڑوں کی دھلائی کا بوجھ بھی اسی کے ناتواں کندھوں پر تھا۔ دوسری نقب پوش کے ساتھ بہت بڑا ترہو (ظلم) یہ ہوا کہ پرسوں رات گئے ہونی والی بارش کی وجہ سے جب سب اٹھ کر پسار (بڑا کمرا) میں آئے تو اس کی ماں نے انکشاف کیا کہ جاگ والی چاٹی (دھی جمنے والا برتن) تو سیڑھیوں پر ہی رہ گئے ہے۔

بھاگتی ہوئی جاؤ اور چاٹی اٹھا لاؤ جیسے ہی بچاری چاٹی اٹھانے کے جھکی تو اس کے زنانہ save سے اچھل کر موبائل فون چاٹی میں جا گرا جس کا علم اسے بستر پر لیٹنے کے بعد ہوا۔ جب تک دودھ جو دھی بنے کے عمل سے گزر رہا تھا نے اپنا کام کر دیا ہوا۔ تھا اسے موبائل فون کے خراب ہونے سے زیادہ لمبڑاں دے منڈے کے ان میسجز کا دلی دکھ تھا جو اسے سوہنی ِثانی کے منصب پر فائز کر چکا تھا خیر کثیر بہن بھائیوں والی نادیدہ حسینہ نے مشورہ دیا کہ منیر لمبڑا کو کہو کہ اسے نیا موبائل لے کر دے۔ اسی دوران میری پسلی میں امی نے کہنی مار کے “ہمارا سٹاپ ملکاں دا دوجہ پٹرول پمپ آ گیا ای” کی اطلاع دی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).