جلنے والے کا منہ کالا


سیاست معاشرے کی مجموعی نمو کی امین اور استعارہ ہوتی ہے اور چرخ کہن اس بات کا گواہ ہے کہ ہماری سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اقوام عالم اور خطے میں ہماری قومی توقیر کے پھریرے چار سو اگر لہرا رہے ہیں تو یہ ہماری اسی سیاسی انفرادیت کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔

پسماندہ اور غیر تہذیب یافتہ دنیا میں سیاست قومی کے اجزائے ترکیبی پر نظر دوڑائی جائے تو وہ لوگ اکیسویں صدی میں بھی سیاستدان، سیاسی جماعتوں، اورروٹین کے انتخابات پر ہی تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ جو کہ ان کی ذہنی نا رسائی اور دماغی بودے پن کا کھلا اظہار ہے۔ نا ہنجار آج بھی سیاست اور سیاستدانوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ سماج اور ملک کو آگے لے کر جائیں گے۔ یہ کوتاہ نظری اور کور چشمی ہم اپنے ہمسایہ ممالک میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

انہی خیالات فاسدہ و قدیمہ کے عذر لنگ کو بہانہ بناتے ہوئے ہمارے بنگالی بھائی علیحدہ ملک بنا بیٹھے۔ اور کیا ملا انکو؟ ہمارے ساتھ ہوتے تو آج عالم اسلام کی واحد ایٹمی مملکت کا حصہ ہوتے۔ چلیں وہ جانیں اور ان کا کام۔ ہمارے ہمسائے اور دیرینہ دشمن بھارت میں بھی ابھی تک صدیوں کے فرسودہ جمہوری ادارے چل رہے ہیں۔ اور کچھ سال بعد اسی گھسے پٹے نظام کے اندر سے وہی سال خوردہ سیاستدان ملک کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں۔ اور ملک ویسے کا ویسے ہی رینگتا رہتا ہے۔ دہائیوں سے سلگتا ہوا بھارت اسی طرح دھواں دے رہا ہے اور عشروں سے چلنے والی بغاوتیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا منہ چڑا رہی ہیں۔ اور ذات پات میں منقسم سماج لشتم پشتم چل رہا ہے۔ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ لگے رہو اس لولی لنگڑی سیاست کے پیچھے۔

یہ توتھے حالات گرد و پیش جو کہ قطعاً وجد آفریں نہیں۔ اب آتے ہیں مملکت خدا داد کی نیرنگئی سیاست کی جانب۔ صد شکر کہ ہماری قوم نے سیاست میں خاص درک پایا ہے اور ہم اپنے ہمسائیوں کی طرح کوتاہ ں ظر اور کوڑھ مغز نہیں نکلے۔ نہ ہم سیاست کے انہی گھسے پٹے اصولوں سے چمٹے رہے۔ بلکہ ہم نے اپنے ذہن رسا کو کام میں لاتے ہوئے سماج سدھار کے اس ادارے کو وسیع المشربی عطا کی۔ اورعدالت، میڈیا، مذہب، نیب، سیکیورٹی اداروں سے لے کر محکمہ زراعت تک کو نہ صرف شریک کار کیا بلکہ مستقل سٹیک ہولڈر بنا لیا ہے۔

اورستر سالوں میں نگوڑی جمہوریت سے زیادہ وقت ہم نے اپنے نجات دہندگان کو دان کیا اور ان نابغہ روزگار ہستیوں نے اپنا ارمان حکمرانی پورا کیا۔ جمہوریت کی اس افشاں بندی میں عدالت نے ہمیشہ ہمیشہ مدد بہم پہنچائی اور اگر پچھلے وقتوں میں جسٹس منیر صاحب کاکردار نا قابل فراموش ہے تو حالیہ دنوں میں پانامہ سے چل کر اقامہ پر باغی وزیراعظم کو نا اہل کرنے پر جسٹس نثار صاحب پر نثار ہونا بھی بنتا ہے۔ جنہوں نے سیاست کے تالاب کی صفائی کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو ایسی آئینی تشریح سے آلودہ کرنا بھی گوارا کر لیا جس پر آئینی ماہرین مسلسل انگشت نمائی کر رہے ہیں۔

قبل ازیں افتخار چوہدری صاحب نے نہ صرف مشرف صاحب کی حکمرانی کو سند جواز عطافرمائی بلکہ ان کو ائین میں من مانی کرنے کی کھلی چھٹی بھی دی۔ میڈیا اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا القسم ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا نے بھی قومی سیاست کی تعمیر میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن میڈیا کا کردار ادھورا رہ جاتا اگر ہمارا احتساب کا ادارہ کرپشن کیسوں کی صورت ان کو مدد بہم نہ پہنچاتا جس کی بدولت سر شام سے رات گئے تک ٹاک شوز مین مبینہ عجب کرپشن می غضب کہانیاں لوگوں کو سنائی جاتی رہیں اور سنائی جا رہی ہیں نے۔

اسی میڈیا کی بدولت ممکن ہوا کہ عشروں سے عوام کے دل و دماغ پر قابض عناصر کی اجارہ داری توڑی جا سکی اور ان عناصر کے خلاف عدالتی فیصلہ آنے سے قبل ہی ان کی حقیقت عوام الناس پر واضح کر دی گئی۔ اور جب عدالت نے حق کا بول بالا کرتے ہوئے ان کو گاڈ فادر اور سسلین مافیا قرار دیا اور جے آئی بناتے ہوئے اس روایتی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی تو اس وقت تک میڈیا کی بدولت ملزم کے جرائم خلق خدا کو ازبر کروائے جا چکے تھے اسی لیے عوامی تائید سے اس عدالتی فیصلے کو سند قبولیت ملی جس پر قانون دان آج بھی موشگافیاں کر رہے ہیں۔

بنیادی اور حقیقی جمہوریت کا کامیاب تجربہ کر کے ہم قبل ازیں دنیا کو دکھا چکے ہیں۔ (افسوس کہ کسی بھی ہمسائے نے ہماری تحقیق سے فائدہ نہیں اٹھایا) ۔ اب ہم ایک خانہ ساز جمہوریت کا کامیاب تجربہ کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں پرانے اورگھاگ سیاستدانوں کو دیوار کے ساتھ لگانا پڑا۔ کچھ محب وطن الیکٹیبلز کو نیب اور محکمہ زراعت کی شبانہ روز کاوش سے انصاف کے راستے پر گامزن کیا گیاچند اہل مذہب سے مخالفین کے خلاف کفر کے فتوی جاری کرائے گئے۔

کچھ کالعدم تنظیموں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی تا کہ وہ ووٹ توڑ سکیں۔ اور انتخابات کے دن کڑی نگرانی کے ذریعے مخالفین کی انقلاب اور انصاف دشمن کارروائیوں کو نا کام بناتے ہوئے اپنے ممدوح کو وزارت عظمی کی کرسی پر متمکن کروا دیا۔ گنتی کم ہونے پر ایسی جماعتوں کوبھی حکمران اتحاد کا حصہ بنا دیا گیا جو ایک دوسرے کو غدار قرار دینے سے بھی نہیں چوکتی تھیں۔ جمہوریت کا یہ اکیسویں صدی سے ہم آہنگ ماڈل سلور سکرین پر کامیابی سے جل رہا تھا کہ کچھ کوتاہ اندیشوں نے مہنگائی، روپے کی نا قدرتی، ڈالر کی اڑان، محصولات کی کمی، بیروزگاری میں اضافے اور معاشی اعشاریے منفی ہونے کا غوغا شروع کر دیا۔

اس پر وزیر خزانہ، گورنر سٹیٹ بنک اور ایف بی آر کے سربراہان کو بدلنے سمیت کابینہ میں بھی نئے جوش و خروش کے حامل پرانے اور آزمودہ کھلاڑی شامل کر دیے گئے ہیں عالمی مالیاتی اداروں سے معاملات بہتر کرنے کے لیے وزیر خزانہ، گورنر سٹیٹ بنک اور چئرمین ایف بی آر کی سیٹوں پر انہی اداروں کے مجوزہ رجال کار متعین کر دیے گئے ہیں۔ تا کہ فریقین باہم شیر وشکرہوتے ہوئے ملکی معیشیت کو ترقی پذیربنا سکیں۔ اگرچہ اپوزیشن اس عمل کو مستحسن قرار نہیں دے رہی اور یہ غوغا کر رہی ہے کہ ملک کوآئی ایم ایف کی کالونی بنا دیا گیا ہے اور غریبوں پر مہنگائی کے اثرات بد کی بات کرتی ہے۔ لیکن اپوزیشن بھول رہی ہے کہ وقت کبھی کبھی قوموں سے قربانی مانگتا ہے اور قربانی دینے والی اقوام ہی جہاں رنگ و بو میں مقام پاتی۔ ہیں۔ بقول شاعر

سو بار عقیق کٹا تب نگیں ہوا

میڈ یا پر قدغن، مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری بارے اپوزیشن کی دہائی اپنی جگہ لیکن ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن اور ہم جہاں بھر کے نیلے پیلے، اندرونی و بیرونی تجزیہ کاروں اور ناقدین کی رائے کے علی الرغم اس جدید جمہوری تجربے کی بدولت معاشی و سیاسی ترقی کی اس شاہراہ پر گامزن ہوں گے جو ہمیں ہماری منزل مقصود تک لے جائے گی۔

ناقدین و معترضین کو سر دست ہم یہی کہ سکتے ہیں کہ جلو مت کالے ہو جاؤ گے یا جلنے والے کا منہ کالا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).