رمضان 2019: پاکستان میں مہنگائی، برطانیہ میں سستے پیکج، ماجرا کیا ہے؟


رمضان

پاکستان میں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بنیادی اشیائے خورد و نوش بالخصوص پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے جبکہ برطانیہ میں جہاں مسلمان ملک کی کل آبادی کا صرف پانچ فیصد ہیں وہاں بڑے بڑے سٹورزمیں بہت سی اشیا سستی کر دی جاتی ہیں۔

رسد اور طلب میں عدم توازن، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی اور متعلقہ حکومتی اداروں کی صورتحال پر قابو رکھنے میں مکمل ناکامی پاکستان میں اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جو کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بعض اوقات قیمتوں میں 100 فیصد یا اس سے بھی زیادہ اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

بی بی سی نے اس رپورٹ میں پاکستان اور برطانیہ میں رمضان کی آمد اور اس حوالے سے قیمتوں میں اضافے یا کمی اور اس میں کارفرما عوامل کا جائزہ لیا ہے۔

مہنگائی اور حکومتی سرپرستی

حکومتی ادارے روزانہ کی بنیاد پر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں اور یہ سرکاری نرخ کہلاتا ہے۔

وفاقی دارالحکومت کی مثال لیں تو یہاں روزانہ پھلوں اور سبزیوں کی تین مختلف فہرستیں یا نرخ نامے جاری کیے جاتے ہیں۔

ایک نرخ نامہ ان شہریوں کے لیے ہے جو سبزی اور فروٹ منڈی جا کر خریدتے ہیں، دوسرا اسلام آباد کے عام رہائشی سیکٹرز کے لیے جبکہ تیسرا شہر کے ان علاقوں کے لیے جن میں متمول افراد بستے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اخراجات بڑھ رہے ہیں، تنخواہ نہیں۔۔۔

پاکستان کی عوام پر بیمار معیشت کا کتنا بوجھ ہے؟

رمضان اور عید کے چاند کے تعین کے لیے کمیٹی قائم

آپ خوش قسمت ہوں گے اگر آپ کو دکاندار اس قیمت پر پھل یا سبزی بیچے جو سرکاری نرخ نامے میں درج ہے۔

ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی جیسی وجوہات کو پسِ پشت ڈال کر اگر صرف پھلوں اور سبزیوں کی رمضان کی آمد سے چھ روز قبل اور پہلے روزے والے دن کی سرکاری قیمتوں پر نظر ڈالیں تو پتہ یہ چلتا ہے کہ یہ قیمتیں سرکاری سطح پر پہلے ہی نو سے پچاس فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ ابھی 29 روزے باقی ہیں۔

ضلعی انتظامیہ سے حاصل کیے جانے والے نرخ ناموں کے مطابق سب سے تازہ آلو کی سرکاری قیمتِ فروخت یکم مئی کو 18 روپے فی کلو گرام تھی جو پہلے روزے کے دن (سات مئی) کو 24 روپے ہے، یعنی انتہائی بنیادی سبزی کی قیمت میں لگ بھگ 33 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح ادنیٰ معیار کے سیب کی سرکاری قیمتِ فروخت یکم مئی کو 145 روپے تھی جو چھ روز کے اندر اندر 180 روپے ہو چکی ہے یعنی تقریباً 25 فیصد اضافہ۔

اسی طرح ٹماٹر کی قیمت میں 18 فیصد اضافہ، لہسن 50 فیصد، پیاز نو فیصد، کیلا 17 فیصد جبکہ امرود آٹھ فیصد تک مہنگے ہو چکے ہیں۔

رمضان

سبزی منڈی میں پھلوں کے آڑھتی سلیم خان کا کہنا ہے کہ ’آج (یکم رمضان) سے پھلوں کی قیمت صبح اور شام کی بنیاد پر بڑھے گی اور ان کے مطابق اس میں آڑھتی، پرچون فروش یا حکومت کا قصور نہیں ہے بلکہ پھلوں کی طلب میں اضافہ ہے جبکہ رسد تقریباً جوں کی توں ہے۔‘

گراں فروشی

یہ بات تو سرکاری نرخ کی تھی، اصل مسئلہ تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے جو اشیائے خورد و نوش کا ان کی سرکاری قیمتِ فروخت پر نہ ملنا ہے۔

سبزی منڈی سے ملحقہ شہر کے ایک معروف سٹور کی بات کی جائے تو یہاں سرکاری نرخ 24 روپے کے بجائے آلو 49 روپے فی کلو میں دستیاب ہیں جبکہ کیلا 179 روپے سے 225 روپے فی درجن میں دستیاب ہے جبکہ اس کا سرکاری نرخ 140 روپے ہے۔

اسی طرح ٹماٹر 119 روپے (سرکاری نرخ 66 روپے)، لیموں 499 روپے فی کلو (سرکاری نرخ 340 روپے)، سیب 290 روپے سے 360 روپے (سرکاری نرخ 180 روپے) میں دستیاب ہیں۔ اسی طرح دوسری سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں بھی سرکاری نرخ سے کہیں زیادہ ہیں۔

سٹور کے مینیجر کے مطابق آج کے دن کی جو قیمتِ فروخت سرکاری طور پر متعین کی گئی ہیں وہ سٹور مالکان کی قیمتِ خرید سے بھی کم ہے۔ ’ہمیں آٹے کا 10 کلو گرام کا پیکٹ 720 روپے میں فروخت کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے دوسری طرف اسلام آباد کی کسی بھی فلور مل سے اس کی قیمت خرید 740 روپے سے کم نہیں ہے۔ 740 میں خرید کر 720 میں کیسے بیچ سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکام اپنے بتائے گئے ریٹ پر ہمیں اپنی طرف سے اشیائے خورد و نوش فراہم کریں تو ہم اس قیمت پر بیچ سکتے ہیں وگرنہ نقصان ہے۔

ذمہ دار کون ہے؟

سابقہ سیکرٹری خزانہ وقار مسعود کہتے ہیں گذشتہ کئی برسوں سے لوگوں کو یہ خدشہ ہو جاتا ہے کہ رمضان میں قیمتیں بڑھ جائیں گی جس کے باعث وہ ایک کے بجائے دو چیزیں خریدتے ہیں جس کے وجہ سے اشیا کی اضافی مانگ پیدا ہو جاتی ہے۔

’مانگ میں اضافہ طلب اور رسد میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے جس سے چیزیں مہنگی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف کوئی محتسب اس طرح کا نہیں ہے جو ہر گراں فروش کو پکڑ سکے۔‘

رمضان

ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت مشکل ہے کہ حکومت ہر سبزی، پھل فروش پر نظر رکھ سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ چند اقدامات ہیں جن کی بدولت اس صورتحال پر کچھ حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ ’عوام کو چاہیے وہ سادگی اختیار کرے اور طلب کو بلاوجہ نہیں بڑھانا چاہیے جبکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سستے بازار بنائے جہاں وہ اپنی بتائی گئی قیمتوں پر عملدرآمد کروا سکے۔‘

برطانیہ میں صورتحال

برطانیہ بھر میں ہر سال کی طرح رمضان کی آمد کے ساتھ ہی تمام بڑے بڑے گراسری ( کریانہ) سٹورز جن کا جال ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے ملک کی پانچ فیصد مسلمان اقلیت کے لیے بہت سی اشیاء ریاعتی نرخوں پر لگا دیتے ہیں۔

یہ ہی نہیں رمضان کا چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی ٹیسکو، ایسڈا، سینسبریز اور موریسن سمیت دیگر سٹورز کے اندر رمضان مبارک کے پوسٹر بھی آویزاں کیے جاتے ہیں اور خصوصی شیلف ممتاز کر کے لگائے جاتے ہیں جن پر رمضان میں رعائتی نرخوں پر فروخت کی جانے والے اشیاء بڑے اہتمام سے لگا دی جاتی ہیں۔

رمضان پیکجز کا اعلان کرتے ہوئے یہ سٹور مسلمانوں کی ضروریات کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء جن میں کھجوریں، بیسن، چاول اور مخلتف قسم کے جوس اور حلال مشروبات شامل ہیں وہ رعائتی نرخوں پر لگائی گئی اشیاء میں نمایاں کر کے لگا دیے جاتے ہیں۔ ان کے نرخ عام دنوں سے یا تو کم ہوتے ہیں یا پھر ‘بائے ون گیٹ ون فری’ یعنی ایک خریدو ایک مفت لو کے تحت صارفین کو مہیا کیے جاتے ہیں۔

رمضان

سنہ 2011 میں برطانیہ میں ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق برطانیہ کی کل آبادی میں مسلمانوں کی شرح صرف پانچ فیصد ہے۔ کل آبادی میں مسلمانوں کی کم شرح کے باوجود ٹیسکو، سینسبریز، موریسن اور ایسڈا مختلف ‘ڈیلز آفر’ کرتے ہیں۔ ان سٹورز کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہوں۔

ایسا لگتا ہے کہ تمام سٹورز زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو اپنا مستقل گاہک بنانے کے لیے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش میں ہوں۔

لندن کے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی تعداد ذرا زیادہ ہے ان علاقوں میں ان سٹورز میں غیر مسلمانوں کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ مسلمانوں کے روزے رکھنے کا مہینہ چل رہا ہے۔

لندن کے علاوہ برمنگھم، کونٹری، لیسٹر، مانچسٹر اور بریدڈ فورڈ جہاں مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی، بنگلہ دیشی اور دیگر ملکوں کے مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں وہاں رمضان کا احساس اور بھی زیادہ شدت سے ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں مسلمانوں کی دکانیں تقریباً ہر بازار میں مل جاتی ہیں۔ مسلمانوں کی یہ دکانیں نرخ کم کرنے کی دوڑ میں بڑے بڑے سٹورز کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ یہاں معاشیات کا اصول ’اکونومی آف سکیل‘ کار فرما نظر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp