ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی: تہران کا عالمی جوہری معاہدے سے ’جزوی دستبرداری‘ کا اعلان


Iranian President Hassan Rouhani (2nd L) listening to head of Iran's nuclear technology organisation Ali Akbar Salehi (R) during the

ایرانی صدر حسن روحانی اور ایران کے جوہری اثاثوں کے نگران علی اکبر صالحی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرتے ہوئے

امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ 2015 میں طے پانے والے عالمی جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کے ایک سال بعد تہران نے اعلان کیا ہے کہ وہ معاہدے کے کچھ اہم نکات سے دستبردار ہو رہے ہیں۔

ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ تہران افزودہ یورینیئم کے ذخائر ملک میں رکھے گا، تاہم ان کو کسی بیرونِ ملک فروخت نہیں کی جائے گی۔

انھوں نے انتہائی حد تک افزودہ یورینیئم (highly enriched Uranium) کی پیداوار 60 روز میں دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔

جوہری معاہدے کا مقصد ایران کو اقتصادی پابندیوں سے چھوٹ دے کر ان کے جوہری عزائم کو روکنا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ایران سے خطرہ: امریکی جنگی بیڑا خلیجِ فارس میں تعینات

کیا واقعی ایک کروڑ دس لاکھ ایرانی متاثر ہوں گے؟

امریکی اقتصادی پابندیاں ایران پر کتنی بھاری پڑ رہی ہیں؟

امریکہ کی جانب سے اس معاہدے کو چھوڑنے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے اور امریکہ نے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں دوبارہ لگا دی ہیں۔

ایران کی جانب سے اس اعلان سے ایک ہی دن قبل امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے عراق کا ایک غیر اعلانیہ دورہ کیا اور امریکہ نے ایک جنگی بحری بیڑا چلیجِ فارس میں بھیج دیا ہے۔

امریکہ کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کا کہنا ہے کہ یہ قدم ایران کی جانب سے ‘متعدد دھمکیوں اور اکسانے والے بیانات’ کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔

Donald Trump speaks at a the Stop The Iran Nuclear Deal protest in front of the U.S. Capitol in Washington, DC on 9 September 2015.

امریکہ کی جانب سے اس معاہدے کو چھوڑنے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک امریکی سرکاری اہلکار کا حوالے دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ جنگی بیڑے کی تعیناتی امریکی افواج پر ممکنہ حملے کے دعویٰ کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

جان بولٹن کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی حملے کی صورت میں ‘سخت قوت’ کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔

گذشتہ ماہ امریکی صدارتی دفتر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ امریکہ ایران سے تیل کی خریداری پر پانچ ملکوں کو دیا گیا عارضی استثنیٰ ختم کر دے گا کیونکہ چین، انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی تب تک ایران سے تیل خرید رہے تھے۔

اسی وقت امریکہ نے ایران کے خصوصی فوجی دستے پاسداران انقلاب کو غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔

ان پابندیوں نے تیزی سے ایران کی معیشت میں گراوٹ کی ہے، اس کی کرنسی کو ریکارڈ کم سطح پر لے آئی ہیں اور سالانہ افراط زر کی شرح کو چار گنا بڑھانے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دور کرنے، اور ملک میں حکومت مخالف مظاہروں کو فروغ دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32487 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp