رمضان میں انڈیا بھر سے روح افزا غائب؟


انڈیا میں سوشل میڈیا پر برصغیر کے مقبول ترین مشروبات میں سے ایک کا نام آج کل ٹرینڈ کر رہا ہے۔

’مشروبِ مشرق‘ روح افزا نسلوں سے بہت سے لوگوں کا پسندیدہ مشروب رہا ہے اور رمضان کے مہینے میں اس کی مانگ میں ہمیشہ اضافہ دیکھا گیا ہے، کیونکہ اکثر لوگ افطاری اس کے ساتھ کرنا پسند کرتے ہیں۔

رمضان کی آمد پر جہاں اس کی مانگ میں اضافہ ہوا وہیں، یہ بات بھی سامنے آئی کہ روح افزا اگر بازار میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہو گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر بعض اسے مشروب بنانے والے ادارے ہمدرد کے اندر جاری بحران کا نتیجہ قرار دے رہیں، تو کچھ اسے مسلمانوں کے لیے رمضان میں بحرانی صورت حال کہہ رہے ہیں۔

بی بی سی نے جب ہمدرد کمپنی کے عہدیداران سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ روح افزا اب مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

ان کے مطابق اس کی رسد میں کمی کا سبب بعض جڑی بوٹیوں کی عدم دستیابی تھی جو روح افزا کو واقعتاً روح افزا بناتی ہیں۔

انڈیا میں ہمدرد کے چیف سیلز اور مارکیٹنگ افسر منصور علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘اندرونی خلفشار کی باتیں محض افواہیں ہیں۔’

کمپنی کی جانب سے بی بی سی کو بھیجے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ہمیں بعض جڑی بوٹیوں کی فراہمی میں دقت پیش آ رہی تھی۔ اب اس (روح افزا) کی پیداوار اپنی پوری صلاحیت پر ہے اور یہ تمام طرح کے بازاروں میں دستیاب ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘صورت حال میں مزید بہتری آ رہی ہے اور اس کی فراہمی دور دراز کے علاقوں تک ہو رہی ہے۔ گرمی کے مہینے اور رمضان کے ایک ساتھ ہونے کے سبب اس (روح افزا) کی مانگ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔’

شربت پیچھے سے ہی نہیں آ رہا‘

تاہم بی بی سی نے دہلی میں ایک مسلم اکثریتی علاقے جامعہ نگر میں روح افزا کی دستیابی کی صورت حال جاننے کی کوشش کی تو تین میں سے صرف ایک دکان میں یہ مشروب دستیاب تھا۔ جبکہ دو دکانداروں نے کہا کہ پیچھے سے ہی نہیں آ رہا ہے۔

انصاف علی نامی دکاندار نے کہا کہ ان کی دکان پر ‘روح افزا نہیں ہے۔ دوسرے شربت ہیں لیکن اس کی فروخت بہت کم ہے۔’ جبکہ شارق نے کہا کہ ‘مال کم بن رہا ہے اور ڈیمانڈ زیادہ ہے۔’

روح افزا کی سب سے بڑی فیکٹری دہلی کے پاس مانیسر میں واقع ہے۔ جب بی بی سی نے منصور علی سے دریافت کہ کیا وہاں کی بجلی کاٹ دی گئی تھی اور کیا پیداوار رکنے کی یہی وجہ تھی تو انھوں نے اسے افواہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

انڈیا کے معروف صحافی شیکھر گپتا نے لکھا: ‘یہ سنجیدہ مسئلہ ہے! انڈین مسلم کے لیے رمضان میں بڑا بحران – بازار میں کوئی روح افزا نہیں۔’

اس کے جواب میں صحافی یشونت دیشمکھ نے لکھا: ‘نہیں۔ یہ انڈین مسلمانوں کے لیے بحران نہیں ہے۔ یہ روح افزا کو چاہنے والے تمام انڈین کے لیے بحران ہے۔ سنگین مسئلہ ہے۔’

انھوں نے ایک دوسری ٹویٹ میں کہا کہ شربت کے مداحوں کی انڈیا میں کمی نہیں اور انھیں یہ بچپن سے پسند ہے، چاہے دودھ میں ڈال کر پیئیں یا پھر لسی میں۔

نشا نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘اگر روح افزا نہیں مل رہا تو روز شربت، لیموں پانی، یا پھر سادہ پانی پیئیں۔ اس فالتو سی چیز کا بڑا مسئلہ بنا دیا ہے کچھ لوگوں نے۔’

بات پھر پاکستان اور انڈیا کے تعلقات پر جا پہنچی۔ صحافی شیوم وج نے اس مبینہ بحران پر جب اپنی سٹوری شیئر کی تو ہمدرد پاکستان کے سربراہ اسامہ قریشی نے ٹویٹ کرتے ہوئے پاکستان سے واہگہ کے ذریعے روح افزا انڈیا بھجوانے کی پیشکش بھی کر دی۔

ہمدرد کی کہانی

ہمدرد یونانی طب کے شعبے میں صافی، سعالین، سنکارا، مستورین، جوشینا جیسی کئی اہم اور معروف دوا بناتا ہے۔ اس کی بنیاد سنہ 1906 میں غیر منقسم ہندوستان کے تاریخی شہر دہلی میں حکیم حافظ عبدالمجید نے ڈالی تھی۔

یہ ایک وقف کے تحت چلتا ہے اور اس کے منافع کا 85 فیصد تعلیمی خیراتی ادارے ہمدر نیشنل فاؤنڈیشن کو جاتا ہے۔ اس فاؤنڈیشن کے تحت دہلی میں جامعہ ہمدرد نامی ایک یونیورسٹی قائم ہے اور یہ ہمدرد پبلک سکول بھی چلاتا ہے۔

فی الحال اس کے سی ای او حکیم حافظ عبدالمجید کے پوتے عبدالمجید ہیں لیکن ان کے کزن حماد احمد کا کہنا ہے کہ وہ اس کے اصل وارث ہیں اور اس سلسلے میں عدالت عظمی میں ایک مقدمہ جاری ہے۔

اس سے قبل تقسیم ہند کے بعد حکیم حافظ عبدالمجید کے چھوٹے بیٹے پاکستان چلے گئے تھے جہاں انھوں نے ہمدرد قائم کیا اور وہاں بھی روح افزا کی مینوفیکچرنگ شروع ہوئی۔

روح افزا کی تازہ عدم دستیابی کے سبب آن لائن پر پاکستانی روح افزا دستیاب ہے لیکن اس کی قیمت انڈیا میں بننے اور فروخت ہونے والے روح افزا سے زیادہ ہے۔

انڈیا میں روح افزا تقریباً ڈیڑھ سو روپے میں ملتا ہے جبکہ آن لائن اس کی کہیں زیادہ قیمت نظر آ رہی ہے۔

انڈیا کے اخبار اکانومک ٹائمز نے روح ا‌فزا کی کمیابی کو رپورٹ کرتے ہوئے لکھا کہ گرمیوں میں 400 کروڑ کے اس برانڈ کی فروخت میں 25 فیصد کا اضافہ ہو جاتا ہے اور روح افزا ایک ہزار کروڑ کے مشروب کے بازار میں تقریباً نصف کو کنٹرول کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp