وہ ایک لڑکی: چھوٹی سوچ سے ڈری نہیں اور پاؤں کی موچ سے رکی نہیں


وہ بظاہر ایک شرمیلی سادہ مزاج مگر حساس لڑکی تھی جو پولینڈ میں پیدا ہوئی۔ دوسروں کی نظر میں بظاہرایک معمولی واقعہ نے اس کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔ جس کے بعد اس نے یہ ثابت کر کے دکھایا کہ اپنی خوبیوں میں اضافہ کرنا اور اپنی ذات کا ارتقا ہی بہترین انتقام ہے۔ جب وہ انیس برس کی تھی تو پولینڈ کے ایک خوشحال اور متمول گھرانے نے اپنی دس سالہ لڑکی کی تعلیم و تربیت کے لئے اسے ملازم رکھ لیا۔

اس گھرانے کا نوجوان لڑکا کرسمس کی چھٹیاں گزارنے گھر آیا تو اس کی ملاقات اس لڑکی سے ہوئی جس کے آداب و اطوار، شائستگی اور حسنِ اخلاق نے اسے بہت متاثر کیا۔ اسے اس لڑکی سے محبت ہوگئی اور اس نے گھر والوں کے سامنے اس لڑکی سے شادی کا اظہار کر دیا۔ لڑکے کی سخت طبیعت والدہ نے یہ سنا تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور چلانے لگی کہ یہ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے جس کی معاشرے میں نہ کوئی عزت ہے نہ پہچان اور جو دوسروں کے گھروں میں ملازمت کر کے گزارہ کرتی ہے۔

اس بے عزتی اور غربت کی وجہ سے اور معاشرے کے ٹھکرائے جانے کے احساس نے اس کی حساس طبیعت پر بہت گہرا اثر ڈالا اور اس نے فرانس جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور اپنی زندگی سائنس کے لئے وقف کر دینے کا ارادہ کر لیا۔ یہ لڑکی 1891 میں یونیورسٹی آف پیرس میں سائنس کی شعبہ میں زیرِ تعلیم ہو گئی اور اپنی تعلیم میں اتنی مگن ہو گئی کہ اسے کبھی کوئی دوست بنانے کا خیال نہ آیا۔ اگلے چار برس اس نے اپنا گزارہ اس جمع پونجی سے کیا جو اس نے ملازمت کے دوران حاصل کی تھی یا پھر کبھی کبھار اس کی ماں اسے تھوڑے بہت پیسے بھیج دیا کرتی تھی۔

اس کے اخراجات تین شلنگ روزانہ تھے جس میں اس کے کمرے کا کرایہ خوراک لباس اور یونیورسٹی کے اخراجات شامل تھے۔ اس کا کمرہ بلڈنگ کی چوتھی سٹوری پر تھا جس میں صرف ایک کھڑکی تھی اور بجلی گیس یا گرمی سردی سے بچنے کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہ تھا۔ وہ ساری سردیاں کوئلے کی صرف دو بوریوں سے گزار دیتی تھی۔ وہ اپنے کوئلے کے ذخیرے کو بچانے کی خاطر اکثر سخت سرد راتوں میں سردی سے کانپتے اور لرزتے جسم سے ریاضی کے سوالات حل کرتی رہتی۔

اور سونے سے پہلے اپنے صندوق سے اپنے سارے کپڑے نکال کر کچھ نیچے بچھاتی اور کچھ اوپر اوڑھ لیتی تاکہ اسے سردی کا احساس کم ہو۔ اسے اپنا کھانا بھی خود ہی بنانا پڑتا جس سے اسے چڑ تھی کیونکہ اس میں اس کا وقت ضائع ہوتا تھا اس لئے زیادہ تر وہ فقط مکھن اور ڈبل روٹی پر گزارہ کر لیتی۔ بعض اوقت فاقہ کشی کی وجہ سے اس کا سر چکرانے لگتا اور وہ بے ہوش ہو کر بستر پر گر جاتی اور کئی گھنٹے بے ہوش پڑی رہتی۔ ایک بار وہ کلاس میں بے ہوش ہو کر گر پڑی تو اس نے ڈاکٹر کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ کئی دن سے سوکھی ڈبل روٹی پر گزارہ کر رہی تھی۔

یہ طالبہ جسے دس سال بعد شہرت کی بلندیوں پر پہنچنا تھا اپنی تعلیم میں اس قدر مگن تھی کہ اس نے کبھی اپنی بھوک پیاس کی پرواہ نہ کی۔ تین سال بعد اس نے ایک ایسے پینتیس سالہ فرانسیسی سے شادی کرلی جو خود بھی سائنس کا دیوانہ تھا اور اس کا شمار فرانس کے نامور سائنس دانوں میں ہوتا تھا۔ جس دن انہوں نے شادی کی ان کا کل اثاثہ صرف دو سائیکل تھے جن پر سوار ہو کر وہ ہنی مون منانے فرانس کے دیہاتوں کی طرف نکل گئے۔ وہ ڈبل روٹی پنیر اور پھل کھاتے اور راتوں کو خستہ حال سرائے خانوں میں قیام کرتے۔

تین سال بعد یہ لڑکی فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی تیاری کر رہی تھی جس کے لئے اسے انفرادی تحقیق کی ضرورت تھی۔ اس نے اپنی ریسرچ کے لئے ”یورینیم سے روشنی کیوں نکلتی ہے“ کا راز جاننے کی ٹھان لی یہ سائنس کی دنیا میں ایک انقلابی تحقیق کا آغاز تھا۔ اس لڑکی نے یہ جاننے کے لئے کے کیا دوسری دھاتوں سے بھی روشنی نکلتی ہے بے شمار دھاتوں پر دن رات تجربات کیے آخر وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ روشنی کوئی بے نام عنصر پیدا کر رہا ہے۔

اب اس بے نام عنصر پر ریسرچ میں اس کا خاوند بھی اس کے ساتھ تجربات میں شریک ہو گیا۔ کئی ماہ کی ریسرچ کے بعد ایک دن دونوں نے یہ دعویٰ کر کے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا کہ انہوں نے ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا ہے جس کی روشنی یورینیم سے بیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔ ایک ایسی دھات جس کی شعائیں سکے ّ کے علاوہ تقریباً ہر چیز سے گزر سکتی ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ کر کے سائنس کے ان بنیادی نظریات کی جڑوں کو ہلا دیا تھا جن پر سائنس دان صدیوں سے یقین کرتے آرہے تھے۔

اس عنصر کا نام انہوں نے ریڈیم رکھا۔ سائنس چونکہ صرف نظریات اور عقائد پر نہیں چلتی اس لئے ان سے ریڈیم کاعملی ثبوت کا دینے کا کہا گیا۔ لہذٰا وہ دونوں اگلے چار برس ایک ایسے احاطے میں مل کر کام کرتے رہے جس کا فرش تھا نہ ہی اس کی چھت سلامت تھی جو سردیوں میں بالکل یخ بستہ ہو جاتا تھا۔ ریڈیم حاصل کرنے کے لئے انہیں آٹھ ٹن لوہے کو ابال کر عملِ تقطیر سے گزارنا پڑا جو ایک جان جوکھم میں ڈالنے والا کام تھا اور بھٹی سے نکلنے والا دھواں لڑکی کی صحت کے لئے مہلک ثابت ہو رہا تھا بالآخر اس کے شوہر کو اس سے کہنا پڑا کے وہ کچھ عرصے کے لئے اس کام کو مؤخر کر دے مگر وہ نہ مانی اور اپنے کام میں لگاتارمصروف رہی اور آخر کار چند گرام ریڈیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی۔

اس دریافت کا نتیجہ یہ ہوا کے وہ لڑکی روئے زمین پر اپنے وقت کی مشہور ترین خاتون شمار کی گئی وہ تب بھی کہا کرتی تھی کہ میرے لئے اس سے زیادہ خوشی کے دن وہ تھے جب وہ مفلسی کی حالت میں اس بوسیدہ احاطے میں اس حالت میں کام کرتی تھی کہ سخت سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے میرے جسم پر مناسب لباس بھی نہیں ہوتا تھا اور وہ دن جب وہ اکثر بھوک کی نقاہت سے بے ہوش ہو جایا کرتی تھی۔

1902 میں جب ریڈیم کی افادیت ثابت ہو چکی تھی اور یہ بھی کہ ریڈیم کینسر کے علاج میں معاون ہو سکتا ہے ریڈیم کی مانگ میں روزبروز اضافہ ہو رہا تھا تب اس کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ امیر بننا چاہتی ہے یا سائنس کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔ کیونکہ ریڈیم ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرسکتی تھی اور وہ اس کے حقوق کسی کاروباری ادارے کو فروخت کیے جا سکتے تھے جسے بنانے کا طریقہ صرف اس کے پاس تھا۔ وہ چاہتی تو اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بھوک مٹا سکتی تھی اپنی مفلسی سے جی بھر کر بدلے لے سکتی تھی اور اپنی ہر مادی خواہش پوری کر سکتی تھی۔

اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر سے بھی آزاد ہوسکتی تھی لیکن اس نے انکار کر دیا اس نے جو پولینڈ کے غریب گھر میں پیدا ہوئی جسے اس کی غربت اور مفلسی کی وجہ سے بے دردی سے ٹھکرایا گیا جس نے کبھی اپنی غربت اور مفلسی کو اپنے رستے کی رکاوٹ نہ بننے دیا جس نے اپنے آہنی عزم استقامت اور مسلسل جدو جہد سے اپنی منزل کو پایا جس کا اصل نام مانیہ سکلوڈوسکا تھا جسے آج دنیا ”مادام کیوری“ کے نام سے جانتی ہے۔ جس نے یہ کہہ کر دولت کو ٹھکرا دیا تھا کہ یہ سائنس کے اصول و مقاصد کے خلاف ہے۔

اور ریڈیم کو چونکہ ایک مہلک بیماری کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اس لئے مجھے انسانیت کے نام پر اس سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ مادام کیوری جس نے ثابت کیا کہ چھوٹی سوچ اور پاؤں کی موچ انسان کو کبھی آگے نہیں بڑھنے دیتی جس کا نام سائنس کی دنیا میں اور مایوسی کی تاریک راہوں پر بھٹکنے والے مسافروں کے لئے امید کی شمع بن کر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).