کیا نواز شریف مکمل نظریاتی ہو گئے ہیں؟


مسلم لیگ (ن) کے ورکر اور رہنما مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کو ایک شاندار ریلی یا جلوس کی شکل میں کوٹ لکھپت جیل چھوڑ آئے ہیں۔ چھے ہفتوں کی چھٹی کے بعد قیدی دوبارہ جیل پہنچ چکا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف غیر معینہ مدت تک لندن میں ٹھہر چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے لندن میں ٹھہر جانے کے بعد اور نواز شریف کے دوبارہ جیل جانے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نواز شریف بیانیے والی قیادت کیا کچھ کرنے جا رہی ہے؟

نواز شریف کی بیٹی مریم نواز شریف اب سرگرم ہیں۔ کم از کم ٹویٹر پر تو وہ بہت ایکٹو دکھائی دے رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ مستقبل میں عملی میدان سیاست میں بھی سرگرم دکھائی دیں گی؟ کیا مریم نواز شریف جی ٹی روڈ بیانیے کو آگے لے کر جائیں گی؟ حکومت کے خلاف رمضان میں جلوس اور ریلیاں نکلیں گی؟ یا رمضان کے بعد کسی قسم کی تحریک کا آغاز ہو سکتا ہے؟ شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (ن) کے سینیئر وائس پریزیڈنٹ بن چکے ہیں۔ مریم اور حمزہ ایک سیٹ پر بیٹھ چکے ہیں۔ مسلم لیگ کے مایوس ورکر پر جوش دکھائی دے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) واقعی نظریاتی رہنماؤں کے کنٹرول میں آ چکی ہے؟

ماہرین سیاست مسلم لیگ کے نظریاتی ہونے پر ابھی تک شک کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1999 میں جب نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا تو سب نے کہا کہ اب مسلم لیگ (ن) نظریاتی پارٹی بن چکی ہے۔ لیکن اچانک شریف فیملی بوریا بستر اٹھا کر جدہ میں جا بسی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس نظریاتی پن کی شیلف لائف کیا ہے؟

سیاسی ماہرین کے مطابق اگر گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ یہ کہہ دیتی کہ نواز شریف علاج کے لئے لندن جا سکتے ہیں تو کیا وہ قافلہ جو نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل چھوڑے آیا تھا وہ انہیں ایئر پورٹ بھی اسی شدت کے ساتھ چھوڑ آتا یا نواز شریف چند لوگوں کے ساتھ ایئر پورٹ جاتے اور وہاں سے لندن چلے جاتے اور نظریاتی بیانیہ ائیر پورٹ پر مر جاتا؟

سیاسی ماہرین کے مطابق 1999 میں تو مشرف حکومت نے نواز شریف فیملی کو جدہ بھیجا تھا۔ اب تو وہ خود میڈیکل گراونڈ پر لندن جانا چاہتے ہیں۔ ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ریلی اور جلوس نواز شریف کو لندن بھجوانے کے لئے نکالے گئے ہوں۔ جو رہنما علاج کے لئے جیل سے باہر آ سکتا ہے، وہ لندن بھی جا سکتا ہے۔ نواز شریف لندن جا سکتے ہیں؟ مبصرین کے مطابق اب بھی شہباز بیانیہ چل رہا ہے۔ بظاہر ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ مریم نواز اینڈ کمپنی لڑنے کے لئے تیار ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے اور حقیقت صرف یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک حلقے نے مریم بی بی کو اشارہ دیا ہے کہ وہ احتجاج کریں اور ڈٹ کر کریں تا کہ عمران خان پر دباؤ بڑھا کر نواز شریف کو لندن بھیجا جا سکے۔

مسلم لیگ کے مایوس ورکروں میں جان پڑ گئی ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) کو چاہیے کہ وہ نظریاتی بیانیے کے سوئچ کو آن آف کرنا بند کریں اور مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ نظریاتی بیانیہ کو اب کمپرومائز نہیں ہونا چاہیے َ۔ اب مسلم لیگ نے سیاسی طور پر زندہ رہنا ہے تو اسے پارٹ ٹائم نظریاتی نہیں بلکہ مکمل نظریاتی بن کر دکھانا ہو گا۔

وہ لوگ جو نواز شریف کی گاڑی کے آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں، وہ نظریاتی ہیں۔ اب مسلم لیگ کی قیادت کو بھی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نظریاتی بننا ہو گا۔ ایسا نہیں کہ ایک بھائی لندن میں پہلے سے بیٹھا ہے اور دوسرا علاج کے بہانے چلا جائے اور بے چارے کارکن راہ دیکھتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).