رمضان کا مہینہ، مومنین کا حقیقی عکاس ہے


رمضان کا مقدس رحمتوں برکتوں والا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے۔ اس مہینے میں قرآن نازل ہوا، اس مہینے کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ‌، ”حضورﷺ ایک دن منبر پر چڑھے اور ہر سیڑھی پر آمین آمین آمین کہا۔ خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ کرام نے پوچھا، یا رسول اللہ! آپ نے منبر کی ہر سیڑھی پر آمین آمین آمین فرمایا ہے، (اس کی کیا وجہ ہے ) آپ ﷺ نے جواب دیا میرے پاس جبرئیلؑ آئے تھے اور انہوں نے پہلی سیڑھی پر فرمایا: جس نے اپنے والدین میں کسی ایک کو پایا اور اپنی مغفرت نہ کروا لی، تو اللہ اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔ جبرئیلؑ نے مجھ سے کہا: آمین کہو تو میں نے کہا آمین۔

دوسری سیڑھی پر جبرئیلؑ نے کہا: جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنی مغفرت نہیں کروا لی تو اللہ اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔ جبرئیلؑ نے مجھ سے کہا: آمین کہو تو میں نے کہا، آمین۔

تیسری سیڑھی پر جبرئیلؑ نے کہا: جس کے سامنے آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے تو وہ اللہ کی رحمت سے دور ہو جائے، جبرئیلؑ نے مجھ سے کہا: آمین کہو تو میں نے کہا، آمین۔ (مسند احمد وصحیح مسلم ) ایک جگہ ارشاد ہے، ’’تباہ ہو گیا وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنی مغفرت نہ کروا سکا۔‘‘

ایک حدیث میں ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمانوں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ حدیث قدسی‌ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے (پس) یہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا، اشرف المخلوقات کا درجہ دیا، عقل سلیم عطا فرمائی، عالم ارواح کے اندر سبھی انسانوں نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا، اور عہد الست لیا۔

لیکن انسان دنیا میں آ کر اپنے حقیقی رب کو بھول کر دنیاوی خداؤں کی پرستش کرنے لگا۔ ہزاروں لاکھوں بتوں کو اپنا خدا سمجھنے لگا۔ لیکن جو لوگ ایمان والے ہیں وہ ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو نبی تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح وہ شریعت اسلامی کے پا بند ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے۔ انہیں اللہ تعالیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنا ضروری ہے۔ تبھی وہ ایمان والے کہلاتے ہیں۔

روزہ اسلام کے اہم ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ جس کا مقصد تقویٰ، پاکی، پرہیز گاری، گناہوں سے دوری اختیار کرنا، نفسانی خواہشات کو مارنا، ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرنا، طاقتور کو اپنی طاقت کے غلط استعمال سے روکنا، مال و دولت والوں کو دولت کے نشے میں غریبوں پر ظلم کرنے سے روکنا، انا اور گھمنڈ کرنے والوں کو انسانوں کی عزت کو پا مال کرنے سے روکنا، مال داروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کا حق دینے کے لئے آمادہ کرنا، امیروں کو بھوک و پیاس کا احساس دلا کر فاقہ کش، غریب عوام، نا چاروں، یتیموں، مسکینوں، کے لئے خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرنا، عیش و مستی میں، لا شعوری میں زندگی گزارنے والوں کو بھوک و پیاس کی شدت کا احساس دلا کر اپنے آپ کی حقیقت کو تسلیم کرنے کی طرف توجہ دلانا، رزق کی اہمیت کو واضح کرانا، قیامت کی نفسا نفسی کے حالات کی سنگینی کی عکاسی کا منظر دکھانا ہے۔

سر کش شیطان کو اس مبارک مہینے میں زنجیروں میں جکڑ کر قید کردیا جاتا ہے۔ ایمان والوں کو اپنی روح کی اصل حقیقت سے رُو شناس کرانے میں بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے، اگر ایمان والا رمضان کے مہینے میں بھی جھوٹ، غیبت، چوری، دل آزاری، حرام خوری، سود کا لین دین، دغا بازی، مکر و فریب، جھگڑا فساد، شراب نوشی، زنا، جیسے حرام کاموں سے اپنے آپ کو نہیں روک رہا ہیں، اپنے نفس کو حرام خواہشات سے نہیں روک رہا ہے، تو اسے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے، کیونکہ شیطان تو رمضان میں قید کر دیے جاتے ہیں۔ اگر غلط اعمال سر زد ہو رہے ہیں، تو یہ گناہوں کی وجہ سے نفس کے سیاہ ہونے کی علامت ہے، جو انسان کو ملامت تک نہیں کرتا ہے۔ اور زندگی غفلت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے طریقوں سے ہٹ کر گزرتی ہے۔

انسان کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے۔ جب روح قبض کرنے کا وقت آتا ہے۔ لیکن وہاں پر کسی کی نہیں چلتی اور نا ہی مہلت دی جاتی ہے۔ اس لیے اس مہینے میں اپنا احتساب کریں، دل کو ضرور پڑھیں کہ ہم کس معیار پر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ مہینہ ہمارا حقیقی عکس ہے، جسے اپنی حقیقت دیکھنا ہو تو وہ اپنا محاسبہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مہینے کی رحمتوں، برکتوں، مغفرتوں سے مستفیض فرمائے، عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).