خان صاحب کی خوشخبری


ہم کتنے مہینوں سے ”خوشخبری“ کے انتظار میں ہیں۔ گئے دنوں کی بات ہے جب خاں صاحب نے قوم کو جلد خوشخبری سنانے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن خاں صاحب خوشخبری پہ خوشخبری سنائے چلے جارہے ہیں خوشخبریاں ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ لیکن وہ ”خوشخبری“ جس کا عوام کو انتطار ہے وہ ابھی تک نہیں ملی۔ خان صاحب کی جانب سے سب سے پہلی خوشخبری عوام کو ملی وہ سعودیہ کی جانب سے پاکستان کو رقم کی فراہمی تھی۔ جسے قوم سے خطاب کر کے بتایا گیا۔

دوسری خوشخبری بھی اسی سے ملتی جلتی تھی کہ ہمارے گہرے دوست چین نے بھی پاکستان کو قرض دینے کی ہامی بھرلی۔ دیگر ممالک سے بھی جب ایسی پیشکش آئی تو ایوان میں بیٹھے حکومتی اراکین کی خوشی دیدنی تھی۔ خان صاحب خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے کہ وہ خوشخبریوں کی ہیٹرک کر رہے ہیں۔ اسی خوشی میں ایک اور خوشخبری سنا دی گئی کہ حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے کی تیاری کر رہی ہے۔ اسی خوشی کے موقع پر حکومت کی جانب سے غریب عوام کو باعزت روزگار ملنے کی نوید بھی ملی۔

جس میں مرد و زن کی تفریق کے بغیر ہر غریب گھر میں پانچ پانچ مرغیاں اور ایک ایک مرغا دینے کی خوشخبری آئی۔ ساتھ کہا گیا کہ مزید خوشخبری آپ کو ان مرغیوں کی جانب سے ملتی رہیں گی جب ان کے انڈوں سے چوزے نکلیں گے۔ جن لوگوں نے اس بات پر کان نہ دھرے اور مرغیاں مرغے سمیت بھون کر کھا گئے ان کی اپنی قسمت۔ لیکن جن لوگوں نے مرغیوں اور انڈوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھا ان کے ہاں ”خوشخبریوں“ کی لائینیں لگ گئیں۔ مرغیوں کا روزگار اتنا مقبول ہوا کہ مرغیاں کم پڑ گئیں۔

مرغیوں اور کٹوں کے باعزت اور منافع بخش روزگار کے بعد خان صاحب نے بکریوں کا روزگار دینے کی خوشخبری بھی دی ہے یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ خان صاحب کی طرف سے ملنے والی خوشخبریاں مونث کے صیغہ میں ہوتی ہیں شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ”خوشخبری“ آتی بھی مونث کی وجہ سے ہے۔ گذشتہ دنوں گیس اور پٹرول کے نرخ بڑھنے کی جان لیوا خبر کے ساتھ یہ خوشخبری سنائی گئی کہ جونہی سمندر سے تیل اور گیس نکل آئی۔ اسی دن مہنگائی کا خاتمہ ہوجائے گا۔

مہنگائی کے ہو شربا اضافے کے جلد رکنے کی خوشخبری سنائی گئی۔ ساتھ کہا گیا کہ عوام پریشان نہ ہو، صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے بس سمندر سے تیل اور گیس نکلنے کا انتظار کرے۔ جونہی تیل اور گیس نکلتی ہے آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کو اسی طرح گرادیا جائے گا جیسے آسمان سے شہاب ثاقب گرتے ہیں۔ البتہ ہو سکتا ہے کئی کمزور دل حضرات مہنگائی کی یہ گراوٹ برداشت ہی نہ کر سکیں اور خوشی سے فوت ہوجائیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے کئی لوگ شہاب ثاقب کی زد میں آکر مر مرا جاتے ہیں۔ پاکستان کی ساحلی پٹی سے ایران کے نیلے پانیوں تک چھ ارب بیرل تیل موجودہے۔ گوکہ یہ خوشخبری کئی دہائیوں سے عوام کو معلوم ہے پھر بھی شاہی فرمان موجود ہے کہ بس تیل نکلنے تک عوام صبر کریں۔

تیل کے ذخائر کی دریافت کی خبر بلا شبہ ایک بڑی خبر ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ مہنگائی بم گرا کر عوام کا تیل بھی نکالا جا رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ عوامی تیل نکلنے کو بھی خوشخبری سے منسوب نہ کر دیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جاننے کے لئے کہ سمندر سے تیل کب تک نکلے گا اس کے لئے کوئی وزارت بنادی جائے۔ بالکل ویسے ہی جیسے غریبوں کو خوشخبری دی گئی ہے کہ غریبوں کے لئے ایک وزارت بنائی جا رہی ہے۔

سونا اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ اندرون ملک لوگ اسے خریدنے کی سکت سے محروم ہو چکے ہیں لیکن کوئی بڑی بات نہیں کہ ہمارے وزیر خزانہ اسے بھی خوشخبری قرار دے دیں۔ کہ اگر بیرون ملک سے لوگ پاکستان آکر سونا خریدنے لگیں تو ملک کو کافی آمدن ہو سکتی ہے۔ اس طرح ہمارا سونا تو بکے گا اور بیرون ملک تاجروں کے آنے سے چاندی بھی ہو جائے گی۔ موجودہ حکومت جب سے آئی ہے ایسی خوشخبریاں سنائے جارہی ہے۔ اور حکومت کا فرمان یہ ہے کہ ایسی خوشخبریوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

آئے دن کی ملنے والی خوشخبریوں کے سلسلے کی وجہ سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ کوئی حکومت کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب سے حکومت آئی ہے نحوست پھیلا رکھی ہے۔ یاد آیا خان صاحب نے ایک مزید خوشخبری یہ بھی دی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کی وجہ سے ہمارا رمضان اچھا گزرے گا۔ خان صاحب جونہی خوشخبری کا نام لیتے ہیں کچھ بے تاب دل لوگ اسے ”وہ والی“ خوشخبری سمجھ لیتے ہیں لیکن افسوس یہ دوسری خوشخبری نکلتی ہے جس کا عوام کو خاصا دکھ ہوتا ہے۔

اور پوری قوم ایک بار پھر سے خوشخبری ملنے کی امید لگا لیتی ہے۔ حالانکہ اس کے ملنے کے امکانات واضح نہیں۔ یہاں یہ نوٹ کروانا ضروری ہے کہ ”جلد خوشخبری“ سنانے کی بات سراسر خان صاحب کی ذاتی خواہش ہے۔ اسے عوام کی اجتماعی یا کسی کی انفرادی خواہش سمجھنے سے اجتناب کیا جائے۔ البتہ خان صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے عوام ”اصل خوشخبری“ کے انتظار میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).