نوازشریف خود اپنے ساتھ نہیں


سیاست کی اونچ نیچ سے کسی کو مفر نہیں، یہاں ہر عروج کو زوال ہے۔ بدنصیبی ہے کہ ہمارے مغالطوں کی فہرست طویل ہے۔ ایک مغالطہ عروج کا بھی ہے ہم اس کو عظمت کے ساتھ خلط ملط کردیتے ہیں۔ زوال عروج کو ہوتا ہے، عظمت کو نہیں۔ عظمت کھرے کرداروں سےملتی ہےاور عروج حادثے کی بھی پیداوار ہوسکتی ہے اور بروقت کئے گئے فیصلوں کا ثمر بھی۔ فیصلے بروقت بھی ہوں مگر ضروری تو نہیں کہ وہ درست بھی ہوں۔ کچھ عمل دخل انسان کے محدود اختیار کا بھی ہے ورنہ کوئی انسان کبھی خسارے کا سودا نہ کرتا۔ اسی انسانی محدود اختیار کو تقدیر کہتے ہیں۔

عروج اور زوال مقدر کا کھیل ہوتا ہے جب کہ کردار انسان کا اپنا ارادہ اور اختیار ہے۔ نوازشریف ہمارے سامنے عروج اور زوال کی زندہ مثال ہیں۔ اگر کردار کے کھرے ہوتے تو عظمت پاتے۔ اب وہ جیل میں ہیں مگر آبرومندی سے نہیں۔ وہ کردار کے کھوکھلے ہیں، اگر آبرو کا انہیں پاس ہوتا تو عدالت سے یہ نہ کہتے کہ انہیں علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے دیا جائے۔ وہ اپنی سیاسی بصیرت جو دراصل موقع شناسی ہے کے بل بوتے پر پھر عروج کو جانے والی راہوں پر کوئی پگڈنڈی ٹٹولنے کی غلطی کر رہے ہیں۔

المیہ ہے کہ کردار کی پختگی کے اصول سے وہی لوگ بہرہ مند نہیں جنہیں سب سے زیادہ اس اصول کا پابند ہونا چاہئے ۔ایسا نہیں کہ ہمارے رہنماؤں کو یہ ادراک نہیں۔ لیکن موقع سے فائدہ اٹھانے کا لطف اور ملنے والی راحت اصول پسندی کی راہ میں چٹان بن کرکھڑی ہوجاتی ہے۔ اصول پرستی ایک لمبا راستہ جو کردار کو زندہ وجاوید کر دیتا ہے اور موقع پرستی کا انجام زوال کے سوا کچھ نہیں۔

موقع پرست بھی ایک سے بڑھ کر ایک اس کارزار میں ملتے ہیں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی تڑپ سینوں میں پالنے والے۔ نوازشریف اور بھٹو میں ایک مماثلت ہے کہ دونوں کی تراش خراش ایک خاص ہنر کدے سے ہوئی۔ دونوں اپنے اپنے حالات اور واقعات کی مناسبت سے اپنا راستہ بناتے رہے۔ بھٹو مجیب الرحمان کے خلاف ریاست کے کاریگروں کے ہاتھ کا اوزار تھے تو نوازشریف ایک باغی کی بیٹی کے خلاف انہی کاریگروں کا ہتھیار۔

بھٹو نے جب ریاستی کاری گری کا کام اپنے ہاتھ میں لینا چاہا تو ایک ہاری ہوئی سپاہ کے سالار نے ان کو حسرت ناک انجام تک پہنچا دیا۔ تاہم بھٹو نے اپنے بچے کھچے وقت کا سرمایہ اپنی کردار سازی پر خرچ کیا۔ اس سرمایہ کاری کا نتیجہ تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی نسبت بھٹو کو کبھی زوال نہیں آیا۔ بھٹو آج اپنے نظریاتی مخالفین کے لئے بھی مزاحمت کا استعارہ بن چکے ہیں۔

نوازشریف صاحب کے سامنے عروج کے کمالات کی بھی حقیقتیں ہیں اور کردار کی عظمتوں کی داستانیں بھی۔ مگر وہ شاید کنفیوژ ہیں کہ کسی کردار پر کھڑے ہوں یا وقت کی دیوارمیں کوئی دراڑ ڈھونڈیں۔ وہ جب جلاوطنی سےلوٹ کر آئے تو لگتا تھا کہ اپنے لئے ایک نیا کردار دریافت کر چکے ہیں اور موقع پرستی کے بجائے اصولوں پر کھڑے ہوں گے۔ مگر جلد ہی انہیں کامران کیانی کی شکل میں ایک سیڑھی ملی جس کے ذریعے وہ جنرل کیانی تک پہنچے۔ تب اصول ان کے ذہن سے نکل گئے اور موقع ان کے ہاتھ لگا۔ انہوں نے بے دھڑک اپنا آپ ریاستی کاریگروں کے حوالے کردیا۔

اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے جو سوال اٹھا، نوازشریف کالا کوٹ پہن کر اس کا جواب منتخب وزیراعظم سے لینے سپریم کورٹ چلے گئے۔ شاید انہوں نے وقتی موقع پرستی اور جزوقتی اصول پرستی اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وقت اور حالات کو استعمال کرکے وہ وزارت عظمٰی تک تیسری بار پہنچ تو گئے مگر آئے اور یہاں سے انہوں نے نیم اصول پسندی کا آغاز کر دیا۔ وہ یوں کے پرویزمشرف پر تو انہوں نے آرٹیکل چھ لگانے کا اصولی فیصلہ کیا اور ان کے ساتھی جرنیلوں، ججوں اور سیاست دانوں کے معاملہ پر موقع شناسی آڑے آئی۔ کچھ کام یہاں سے خراب ہوا اور رہی سہی کسر جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع پر ان کی اصول پسندی نے نکال دی۔

پانامہ کے بعد نوازشریف نے ووٹ کو عزت دو کے مطالبے اور مجھے کیوں نکالا کے سوال پر اپنی اس نئی اصول پسندی کا آغازکیا۔ مگر نوازشریف صاحب کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان پر اس بار کوئی جرنیل براہ راست حملہ آور نہیں ہوا بلکہ اس بار ان کے دامن پر داغ کرپشن کا ہے اور فیصلہ عدالت کا۔

کاریگروں کے اس شاہکار منصوبے نے انہیں ایک بار پھر کنفیوژ کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ ووٹ کو عزت دو کا مطالبہ کبھی شدت سے اپناتے ہیں کبھی اس کو بھول جاتے ہیں۔ کبھی شہباز شریف ایک بازی گر کی طرح سیاسی فضا میں کرتب کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی پیچھے دھکیل دئے جاتے ہیں۔ یہ ہاتھ پاؤں مارنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ ایک بار پھر اس دلدل سے نکل آئیں جس میں انہیں ریاستی کاریگروں نے پھینکا ہے۔

نوازشریف کی خواہش اور ان کے جتن اپنی جگہ، تاریخ کا سبق ہے کہ موقع پرست کبھی بلندی نہیں پاتے۔ کٹھن حالات میں صرف استقامت کے ساتھ کھڑے رہنا ہی انسان کو معتبر کرتا ہے اور یہ استقامت مضبوط کردار کی طفیل ہے، ورنہ جیل تک چھوڑنے تو نوازشریف کو عوام کا بھڑکتا لپکتا بے پناہ ہجوم گیا تھا۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ لوگ اب بھی نوازشریف کے ساتھ ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ نوازشریف خود اپنے ساتھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).