ہنزہ میں حلال گوشت کہاں سے ملے گا؟


سائیکی کیفے کاؤنٹر پر چند نوجوان تشریف لائے۔ دعا سلام کے بعد پوچھنے لگے ادھر نائٹ کلب کہاں پر ہے؟

میرے چہرے پر حیرت دیکھ کر کہنے لگے، ایک دوست نے بتایا تھا۔

میں نے ان کی غلط معلومات کی کچھ تصحیح کی ہی تھی کہ ایک نوجوان نے کہا، میرا تو یہاں دل ڈوبا جا رہا ہے۔ پوچھا کہ بھائی یہاں آپ کا دل کیوں ڈوبا جا رہا ہے، کہنے لگے سمجھ نہیں آتی کہ یہاں حلال گوشت کہاں سے ملے گا؟

ایک مشہور کیفے پر ایک لاہور کی فیملی بیٹھی تھی۔ وہ لوگ کافی وغیرہ پی رہے تھے۔ اچانک کیفے میں کچھ لوگ داخل ہوئے اور انتہائی ڈھٹائی سے بلندآواز سے کاؤنٹر پر کھڑے لڑکوں سے پوچھا۔ ۔ یار ادھر حلال گوشت کہاں سے ملے گا؟ ہنزہ کے لوگ ایسی بدتمیزی پر عموما غصے کا ردعمل نہیں دیتے۔ صبر سے کام لے کر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس دن عجب واقعہ یہ ہوا کہ۔۔۔ اس سے پہلے کہ کیفے کے نوجوان ردعمل دیتے لاہور کی فیملی ان پر ٹوٹ پڑی۔ سب نے حلال گوشت پوچھنے والوں پر چڑھائی کر دی اور کہنے لگےتم لوگوں سے جان چھڑا کر چند لمحے ملک کے اس کونے میں جینے آتے ہیں اور یہاں بھی تم لوگ پیچھا کرتے پہنچ جاتے ہو۔

یہاں کریم آباد میں تاریخ ادب پر دسترس رکھنے والی ایک شخصیت ماہر تعلیم شیرباز صاحب ہیں۔ کمال کی دلفریب شخصیت ہیں۔ گھنٹوں گفتگو کرتے رہیں تو بھی طبعیت سیر نہیں ہوتی۔ اہل علم میں سے ہیں اور کمال کی حس ظرافت پائی ہے۔ فرمانے لگے ایک دن ایک گروپ کو بلتت قلعہ کا گائیڈڈ ٹور کروا رہا تھا۔ تاریخ کے حوالے ایک اہم نکتہ بیان کرتے ہوئے دیکھا کہ گروپ کی کچھ خاص دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ خیر یہ معمول کی بات تھی کیونکہ مقامی سیاح ان باتوں میں کم ہی دلچسپی لیتے ہیں۔ اچانک ایک صاحب نے ٹوکتے ہوئے سوال کیا۔ ۔ صاحب ادھر حلال گوشت کہاں سے ملے گا؟ یہاں ہنزہ میں کتنے فیصد مسلمان ہیں؟

شیر باز صاحب اس انتہائی غیر متعلقہ سوال پر ٹھٹھک کر رک گئے۔ پھر کہنےلگے۔ حضرت آپ کے سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہےکہ آپ کے نزدیک مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ اب وہ سب لوگ خاموش ہو کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ شیر باز صاحب نے یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگے حضرات اگر مجھے اجازت دیں تو ایک تعریف میں کروں، کیا ہم کسی بھی ایسے شخص کو مسلمان کہہ سکتے ہیں جو توحید ورسالت،قرآن، فرشتوں اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو۔ سب کہنے لگے بالکل بالکل۔ ۔ یہی مسلمان کی تعریف ہے۔ شیرباز صاحب نے فرمایا دیکھئے اس تعریف کے اعتبار سے تو ہنزہ میں سو فیصد مسلمان ہیں۔ لیکن آپ اس تعریف سے آگے جا کر مزید کھنگالنے کی کوشش کریں گے تو شاید دو فیصد بھی مسلمان نہ رہ پائیں جیسا تمام اسلامی دنیا میں چلن ہے۔ دائرہ اسلام کو، قلب اسلام کی مانند وسیع رکھیں گے تو کافی دنیا اس دائرے میں آ سکتی ہے۔

پسو ان میں گذشتہ سال کافی دفعہ اتفاق ہوا کہ مقامی سیاح گلگت سے گوشت خریدتے اور ساتھ لے آتے۔ میرے پنجاب سے تعلق کی وجہ سے گفتگو میں بے تکلفی آ جاتی۔ میں اس بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عموما پوچھتا کہ آپ لوگ گوشت گلگت سے لے آتے ہو جبکہ مسالے، گھی، گیس وغیرہ مقامی ہوٹلوں کا استعمال کرتے ہوئے خود پکاتے ہو۔ ہوٹل کی ان سروسز کا معاوضہ بھی نہیں دیتے۔ کیا گوشت کے علاوہ یہ ساری اشیا حلال کے زمرے میں آ جاتی ہیں؟

ہمارے ایک ہنزائی دوست کے ایک دوست ہیں جو خیبر پختونخوا سے آتے ہیں۔ ہنزائی دوست کہتے ہیں کہ جب بھی وہ آئیں تو سبزی کی فرمائش کرتے ہیں لیکن میں ساتھ گوشت بھی پکا کر رکھ دیتا ہوں۔ گوشت کے سالن کی مہک سے مجبور ہو کر وہ سبزی کے بجائے ہمیشہ گوشت سے ہی کھانا کھاتے ہیں۔ بس ایک احتیاط کرتے ہیں کہ شوربے سے کھانا کھاتے ہیں جبکہ بوٹیاں نہیں کھاتے میں کہتا ہوں یہ شوربہ کیسے حلال ہو جاتا ہے جبکہ بوٹیاں حرام کے زمرے میں سمجھتے ہیں آپ؟

ایک دفعہ کچھ سیاحوں نے پوچھا کہ آپ لوگ مرغی کو حلال کرتے ہو یا جھٹکا کرتے ہو۔ ایک ہنزائی دوست جنہوں نے کمال کی حس مزاح پائی ہے انتہائی سنجیدگی سے کہنے لگے صاحب جھٹکا تو بہت معمولی بات ہے ہم تو زندہ مرغی کی گردن پاؤں کے نیچے رکھتے ہیں اور دوسرے ہاتھ جھٹکا دے کر علحدہ کر دیتے ہیں۔ پھر کھال کھینچتے ہیں اور اندر آنتوں وغیرہ کی صفائی بھی نہیں کرتے۔ ۔ سالم پکا لیتے ہیں۔ جب آپ جیسا کوئی دوست آتا ہے تو ان کے سامنے آنتیں وغیرہ نہیں رکھتے بلکہ دوسری بوٹیاں ڈال لیتے ہیں۔ وہاں ایک صاحب بیٹھے تھے انہوں نے ان کو ڈانٹا اور کہا کہ تمہارا مذاق ہے اور ان کی جان پر بن جائے گی۔ پھر ان مقامی سیاحوں کو سمجھایا۔

یاد آیا ایک واقعہ کا ذکر تارڑ صاحب نے اپنی کسی کتاب یا کالم میں کیا تھا۔ تارڑ صاحب پہلی دفعہ یورپ جا رہے تھے۔ نو عمر تھے تو والد کو تشویش تھی۔ ائیر پورٹ پر ایک مولانا بھی بغرض تبلیغ یورپ جارہے تھے۔ تارڑ صاحب کے والد صاحب نے مولاناکو کہا کہ بیٹے کا خیال رکھئے گا، راستے میں فلائیٹ کا کسی جگہ تھوڑی دیر قیام تھا۔ مولانا اور نوعمر تارڑ صاحب ایک ریسٹورنٹ میں جا بیٹھے، مولانا نے کہا میرے لیے سبزی منگوا دو یہاں حرام حلال کا کیا پتہ۔ ۔ تارڑ صاحب نے اپنے لیے مرغ جبکہ مولانا کے لیے سبزی کا آرڈر دے دیا۔ تھوڑی دیر بعد مولانا کے سامنے ادھ کچی سبزیاں تھیں اور تارڑ صاحب کے آگے سلگتا ہوا مرغ۔ مولانا نے کچھ دیر بے مزہ سبزی کھائی پھر کن اکھیوں سے تارڑ صاحب کے مرغ کو دیکھا۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو کہا کہ اس مرغ کا ذائقہ کیسا ہے۔ تارڑ صاحب نے جواب دیا کہ مزیدار ہے۔ مولانا نے کہا میرے لیے بھی منگواؤ، شکل سے تو حلال ہی لگتا ہے۔

ایک دلچسپ تجربہ یہ دیکھنے میں آیا کہ مقامی سیاح نہ جانے کیسی الٹی سیدھی معلومات لے کر یہاں ہنزہ آ جاتے ہیں۔ لیکن جب ان کو سنجیدگی سے ساری صورتحال بتائی جائے تو سمجھ بھی جاتے ہیں اور مطمئن بھی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاحوں کی اکثریت کیلاش اور ہنزہ کو گڈ مڈ کر لیتی ہے۔ معلومات کا یہ عالم کہ عطا آباد جھیل کے کنارے لوگوں سے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ اس جھیل کا نام کیا ہے۔ اس لیے مقامی سیاح دوستوں کو زیادہ دوش بھی کیا دینا۔

مجھے جو ملتا ہے تو اس کو یہی سمجھاتا ہوں کہ بھائی ادھر آپ کی طرف نیچے میں تو کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ مختلف شہروں میں معلوم نہیں آپ کیا کیا کھا رہے ہوتے ہیں۔ شادی ہال کھانوں میں کس طرح کی مرغیاں آتی ہیں یا بڑے فاسٹ فوڈ چین ریسٹورینٹس میں کیا ہو رہا ہے لیکن یہاں ہنزہ میں کم از کم میں یہ گارنٹی دے سکتا ہوں کہ جو بھی آپ کے نزدیک حلال کی تعریف ہے، اس تعریف پر ہنزہ اور گلگت بلتستان ہی سو فیصد پورا اترتا ہے۔ یہاں بجائے اس کے کہ آپ خوش ہوں آپ کا دل اسی بات پر ڈوبا رہتا ہے کہ حلال گوشت کہاںسے ملے گا جبکہ دوسری طرف آپ کے اخلاقی رویوں میں کمزوریاں آپ کے ماتھے پر جگمگا رہی ہوتی ہیں۔

ایک طرف آپ ہنزہ نگر اور گلگت بلتستان بالعموم کے حسن اخلاق کی تعریف کرتے نہیں تھکتے، ان کی سچائی اور دیانت کے گرویدہ ہو جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف کم علمی کی وجہ عجیب خوف پالے ہوتے ہیں۔ یہ خوف آپ کے ٹور کو بھی برباد کرتے ہیں اور مقامی باشندوں کی تضحیک کا باعث بھی بنتے ہیں۔ اگر میری اس یقین دہانی کے باوجود آپ کے اندیشے قائم ہیں تو ایک مشورے پر عمل کیجئے۔ گوشت نہیں کھانا تو نہ کھائیں لیکن بدتمیزانہ، پارسائی لیے متکبرانہ لہجے میں، میزبانوں سے یہ نہ پوچھا کریں کہ حلال گوشت کہاں سے ملے گا؟ یہ بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik