امریکہ چین کی شدت اختیار کرتی تجارتی جنگ


چین کی یانگشان بندرگاہ

امریکہ اور چین کے مابین تجارتی جنگ جو بظاہر خاتمے کی جانب بڑھ رہی تھی ، ایک بار پھر اچانک شدت اختیار کر گئی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمعہ کے روز 200 ارب ڈالر کی مالیت کی چینی مصنوعات پر اضافی محصولات لگائیں گے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ چینی مصنوعات پر مزید محصولات بعد میں نافذ کی جائیں گی۔

ان تمام دھمکیوں کےباوجود امریکہ اور چین تجارتی جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔

امریکی صدر کی طرف سے چینی اشیا پر مزید محصولات کے نفاذ کی دھمکی اس طرح کے دعوؤں کے بعد سامنے آئی ہے کہ چین تجارتی معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

امریکہ اور چین پہلے ہی ایک دوسرے پر اربوں ڈالر کی اضافی محصولات عائد کر چکے ہیں۔

دنیا کی دو بڑی معیشتیں کے مابین تجارتی جنگ سے عالمی معیشت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ کے اہم نکات

تجارتی جنگ

امریکہ کا تجارتی خسارہ کیسے بڑھا

صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ نے چین پرغیر منصفانہ تجارتی حربے استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے خلاف تجارتی جنگ شروع کی تھی۔

امریکہ چین پر الزام لگاتا ہے کہ وہ تخلیقی جملہ حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ چین اپنی مقامی کمپنیوں کو ‘غیر منصفانہ فائدہ’ دینے کی معاشی پالیسیاں ترک کرے۔

امریکہ کا چین سے مطالبہ ہے کہ وہ 419 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے امریکی اشیا کو خریدے۔

تجارتی خسارے میں کمی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالسیوں کا بنیادی جز ہے۔

ابھی تک کون سے محصولات نافذ کیے گئے

تجارتی جنگ

امریکہ نے گذشتہ سال چینی مصنوعات پر 250 ارب ڈالر کے محصولات عائد کیے ہیں۔ چین نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر 110 ارب ڈالر کی محصولات کا نفاذ کیا ہے۔

امریکہ کی طرف سے رواں برس 200 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات پر ڈیوٹی 10 فیصد سےبڑھا کر 25 فیصد تک کیے جانے کا اعلان کیا گیا لیکن بعد میں اسے موخر کر دیا گیا۔

اب امریکی صدر کہہ رہے ہیں کہ یہ اضافہ جمعہ کے روز سے نافذ المعل ہو جائے گا کیونکہ چین کے ساتھ بات چیت کا عمل بہت سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

اس کے علاوہ صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ وہ جلد ہی مزید 325 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات پر 25 فیصد ڈیوٹی نافذ کریں گے۔

کونسی مصنوعات پر ڈیوٹی لگے گی؟

جن چینی مصنوعات پر امریکہ کی طرف سے اضافی محصولات عائد کی گئی ہیں وہ بہت وسیع ہیں۔

پہلے مرحلے میں امریکہ نے 200 ارب ڈالر کی مالیت کی چینی مصنوعات پر دس فیصد ڈیوٹی نافذ کی۔ ان اشیا میں مچھلی، ہینڈبیگ، ملبوسات اور جوتے شامل ہیں۔

امریکہ انھیں اشیا پر ڈیوٹی 10 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

چین امریکہ پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے تاریخ کی سب سے بڑی تجارتی جنگ شروع کر دی ہے۔ چین نے امریکی مصنوعات جن میں کمیمیکل سے لے کر سبزیوں اور وسکی پر جوابی محصولات عائد کر دی ہیں۔

چین نے خاص طور پر ایسی امریکی مصنوعات کو نشانہ بنایا ہے جو ایسی امریکی ریاستوں میں تیار ہوتی ہیں جہاں ریپبلکن پارٹی کا کنٹرول ہے۔

تجارتی جنگ کا مارکیٹس پر اثر

تجارتی جنگ

امریکہ اور چین کے مابین تجارتی جنگ مالیاتی منڈیوں میں غیریقینی کا سبب بنی۔ غیر یقینی کی فضا سے سرمایہ کاروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

2018 میں ہانگ گانگ کا سٹاک انڈکس 13 فیصد کم ہو گیا جبکہ شنگھائی کمپوزیٹ میں 25 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ دونوں انڈکسوں نے 2019 میں بالترتیب 12 اور 16 فیصد قدر کو بحال کر لیا ہے۔

اس تجارتی جنگ کی وجہ سے مالیاتی مارکیٹوں میں آنے والی مندی سے امریکی سٹاکس چینی سٹاکس کی نسبت کم متاثر ہوئی ہیں۔

ڈاؤ جونز میں 2018 میں چھ فیصد کمی ہوئی لیکن 2019 میں ڈاؤ جونز میں گیارہ فیصد اضافہ ہو گیا۔

خبررساں ادارے روائٹر کے مطابق گذشتہ برس چینی کرنسی یوان کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدر میں پانچ فیصد کمی ہوئی جو 2019 میں مستحکم ہو گئی ہے۔

تجارتی جنگیں کہاں کہاں جاری ہیں؟

تجارتی جنگ

امریکہ اور چین کےمابین جاری تجارتی جنگ کا عالمی معیشت پر بھی اثر نظر آتا ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق امریکہ چین کی تجارتی جنگ عالمی تجارت کی شرح ترقی کو متاثر کر رہی ہے۔

کچھ ممالک چین امریکہ تجارتی جنگ کی وجہ سے بلواسطہ طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ نے صرف چین کے ساتھ ہی تجارتی جنگ نہیں شروع کر رکھی بلکہ پچھلے برس سے کئی اور ممالک کے ساتھ بھی ایسی جنگیں شروع کر رکھی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے امریکی صارفین کو امریکی مصنوعات خریدنے پر مجبور کرنے کے لیے میکسیکو، کینیڈا اور یورپی یونین کی مصنوعات پر ایسی ہی محصولات کا نفاذ کیا جیسا وہ چین پر عائد کر رہے ہیں۔

میکسیکو، یورپی یونین، اور کینیڈا نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر اسی شرح سے محصولات نافذ کی ہیں جیسے امریکہ نے کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp