غدار پیدا کرنے کی روش


آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے پچھلی پریس بریفنگ میں ایک بات کی تصدیق کر دی، انہوں نے اس تاریخی جملے کی سچائی کو عیاں کر دیا کہ “چیزیں جتنی زیادہ تبدیل ہوتی ہیں اتنی ہی زیادہ ویسی ہی رہتی ہیں۔” ہمارے علاقوں میں دہشت گرد پیدا کرنا ایک بہت پرانا معمول ہے۔ لیکن کیا اس سے پاکستان کو خاطر خواہ فائدہ ہوا؟ اس سے ہمارے عوام میں فالٹ لائنز کا خاتمہ ہوا یا یہ مزید گہری ہوتی گئیں۔ کیا اس نے پاکستانی شہریوں کو زیادہ متحد قوم بنا دیا ہے یا نہیں؟ کیا لوگوں کو غدار قرار دینا اختلافی آوازوں کو دبانے کا سب سے موثر ذریعہ ہے، تنقید کو روک سکتا ہے اوررائے عامہ کو کنٹرول کر سکتا ہے؟

طاقت اور اختیار کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جس کے پاس یہ چیز ہوتی ہے وہ پوری کی پوری طاقت حاصل کر لینا چاہتے ہیں۔ جس کے پاس جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی اس کا غلط استعمال کرتا ہے اور جو اسے روکنے کی کوشش کرے اس پر کڑھنے لگتا ہے۔ طاقت کے استعمال میں توازن کے لیے تمام ادارے اختیار کو تقسیم کر لیتے ہیں اور کچھ چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے اختیار کے غلط استعمال کو روک لیتے ہیں۔ ہمارا آئین بھی اختیارات کی تقسیم کی ایک دستاویز ہے جو اظہار رائے اور معلومات کی مکمل آزادی شہریوں کو مہیا کرتا ہے تا کہ اختیارات کے استعمال کے معاملے میں تنقید اور جانچ پڑتال ممکن ہو سکے۔ لیکن زمینی حقیقتوں کے کتابی اصولوں پر غلبہ کی وجہ سے ہمارے ہاں آئینی چیک اینڈ بیلنس کے تمام طریقے بے کار اور غیر فعال ہیں۔

سول ملٹری تعلقات میں تلخی کی وجہ سے یہ فالٹ لائنز اس قدر گہری ہو چکی ہیں کہ معاملہ جمہوریت بمقابلہ ملوکیت، فیڈرل ازم بمقابلہ سنٹرل کنٹرول اور ریڈیکل ازم بمقابلہ نیشنل ازم جیسی صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ ہم نے ہر دس برس کے کے بعد جمہوریت میں فوج کی مداخلت کا سامنا کیا ہے۔ آج ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ فوج کا پس پردہ تمام ریاستی اداروں اور ریاست پر کنٹرول ہے۔ اگر ملٹری لیڈرشپ کی خواہش تھی کہ وہ اختیار اور ذمہ داری میں سے حصہ حاصل کرے، خود اقتدار پر قابض ہو جائے اور ذمہ داریاں سیاسی لیڈر شپ پر ڈال دے تو یہ منصوبہ بھر پور طریقے سے پایہ تکمیل پہنچ چکا ہے۔

ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ڈی فیکٹو سسٹم قابل استعمال ہے بھی یا نہیں۔ آئی ایس پی آر کی یہ بریفنگ اس ماڈل کے حمایتیوں اور معماروں کے بارے میں ایک اہم اور معلوماتی پروگرام سے کم نہیں تھی۔ پی ٹی ایم کو غدار قرار دینے کا مقصد اس پلان کے راستے میں آنے والی اس رکاوٹ کا خاتمہ کرنا تھا۔ سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کو ڈی فیکٹو سسٹم کو قبول کرنے پر مجبور کر لینے کے بعد یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پی ٹی ایم کی صورت میں ایک جماعت سب سے طاقتور ادارے کو آنکھیں دکھائے۔

پی ٹی ایم بادشاہ کے تاج میں ایک کانٹا بن گئی ہے۔ اور بادشاہ نا صرف ناراض ہے بلکہ غصے میں بھی ہے۔ وہ غدار ہوں یا نہ ہوں، اس وقت پی ٹی ایم ملک میں واحد ایسی جماعت ہے جو اختلاف کا راستہ اپنائے ہوئے ہے۔ یہ جماعت نیشنل سکیورٹی پالیسی پر سوال اٹھا رہی ہے اور قومی بیانیے میں غلطیوں کی نشاندہی کر کے طاقتوں کو سب سے زیادہ تکلیف دے رہی ہے۔ آج کا سب سے مضبوط بیانیہ یہ ہے کہ تمام سیاسی قیادت کرپٹ اور نا اہل ہے۔

ڈی فیکٹو سسٹم کے ساتھ کام چلانا ملک کی مجبوری ہے لیکن پی ٹی ایم کے ہوتے ہوئے اس بیانیہ کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے کیونکہ پی ٹی ایم جواب میں اس طاقت کے اپنے کاموں پر سوال اٹھا دیتی ہے۔ غدار قرار دینے کے معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ اب بہت پرانا ہو چکا ہے۔ یہ اب نہ تو فائدہ مند ہے اور نہ قابل اعتماد۔ اس کا قابل عمل نہ ہونا ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ طریقہ بہت سے قوم پرست رہنماؤں کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا جا چکا ہے جو اپنے لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ لیکن جب یہ حربہ استعمال ہوتا ہے تو یہ نفرت مٹانے کی بجائے آگ لگانے کا کام کرتا ہے۔

اگر آپ اپنے دشمن کو چوہا کہیں گے تو آپ کی طرف سے بے توقیری دشمن کو اس کے حامیوں کی نظر میں کمزور نہیں کرتی۔ اس سے اس کی سپورٹ بیس زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ پنجاب کی طرف سے پی ٹی ایم کے ساتھ نفرت انگیز رویہ پی ٹی آئی کو پشتون کمیونٹی کی نظر میں زیادہ قابل اعتماد بنائے گا۔ چھوٹی چھوٹی بات پر غداری کے فتوے پھینکنا ڈی فیکٹو سسٹم کے ایک اہم مسئلے پر روشنی ڈالتا ہے۔

یہ نظام بلیک اینڈ وائٹ دنیا کے لیے لایا جاتا ہے۔ آپ یا اس کے ساتھ رہ سکتے ہیں یا مخالفت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ساتھی ہیں تو محب وطن ہیں۔ اگر اس کے مخالف ہیں تو غدار ہیں اور دشمن کے ساتھی ہیں۔ ڈی فیکٹو ماڈل میں پریشر کو ریلیز کرنے کا کوئی والو نہیں ہوتا۔ نہ تنازعات کے حل کا کوئی میکنزم ہوتا ہے اور نہ مفادات کے ٹکراؤ کو صلح صفائی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان جیسے متنوع ممالک ایسے نظام کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتے جن میں مفادات کا ٹکراؤ نہ روکا جا سکتا ہو اور صلح صفائی کی آپشن موجود نہ ہو۔

ڈی فیکٹو سسٹم اداروں کی آزادی کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی شہری ریاست سے ناراضی کی صورت میں آئینی ضابطوں کے مطابق عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ لیکن ایک ایسا سسٹم جس کا مقولہ ہی جنگ اور محبت میں سب جائز والا بیان ہو وہاں کسی قسم کی غیر جانبداری کی گنجائش موجود نہیں رہ سکتی۔ لاپتہ افراد کے کیسز عدالتوں میں آگے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ ان کو اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ جسٹس شوکت صدیقی جن کے خلاف پہلے سے ہی مس کنڈکٹ کے کئی ریفرنسز موجود ہیں انہوں نے جیسے ہی ڈی فیکٹو سسٹم پر عدالتی نظام میں مداخلت کا الزام لگایا، انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar