سید خوش خصال تھا، کیا تھا!


12 مارچ 1949 کو قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جماعت اسلامی نے آٹھ نکات پر مبنی اسلامی دستور کا ہمہ گیر مطالبہ شروع کر دیا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے تقریباً انہی نکات پر مشتمل بنیادی اصولوں کی رپورٹ 1952 کے اواخر میں دستور ساز اسمبلی میں پیش کی جس سے امید پیدا ہوئی کہ دستور سازی کا مرحلہ جلد تکمیل پا جائے گا۔ اسی دوران مجلس احرار اور کچھ دوسرے علما نے فوری طور پہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے اور انہیں کلیدی آسامیوں سے ہٹا دینے کا مطالبہ بڑی شدت سے شروع کیا۔

اس مطالبے کی غالباً بڑی وجہ یہ بنی کہ قادیانیوں نے اپنی سرگرمیاں بلوچستان میں دفعتاً بہت تیز کر دیں اور یہ تاثر پیدا ہوا کہ وہاں قادیانی ریاست بنانے کی درپردہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ جسٹس محمد منیر کی رپورٹ سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے وزیراعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ کی ہدایت پر پنجاب حکومت ہنگاموں کو ہوا دے رہی تھی۔ مولانا مودودی نے اس آتش گیر فضا میں ’قادیانی مسئلہ‘ کے عنوان سے پمفلٹ تحریر کیا جو پورے ملک میں پھیل گیا۔

اس میں پورے مسئلے کا تاریخی اور دینی پس منظر بیان کیا گیا تھا جس سے تعلیم یافتہ طبقے کو پہلی بار معلوم ہوا کہ قادیانی فتنہ اسلام اور امت مسلمہ کے لیے کس قدر خطرناک ہے۔ پنجاب کے طول و عرض میں علما کی آتش بار تقریروں سے ہنگامے پھوٹ پڑے اور جب لاہور کے حالات قابو سے باہر ہو گئے، تب لاہور کارپوریشن کی حدود میں جی۔ او۔ سی لاہور میجر جنرل اعظم خاں کی سربراہی میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ 28 مارچ 1953 کو مولانا مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی اور میاں طفیل محمد گرفتار کر کے سنٹرل جیل لاہور کی ’سی‘ کلاس میں بند کر دیے گئے۔

فوجی عدالت میں ’قادیانی مسئلہ‘ لکھنے پر مولانا مودودی کے خلاف مقدمہ چلا جس کے سربراہ کرنل تھے۔ مجھے مقدمے کی کارروائی سننے کا موقع ملا۔ مولانا کی طرف سے فوج داری قانون کے چوٹی کے وکیل چودھری محمد نذیر خاں پیش ہوئے جنہوں نے بڑے مضبوط دلائل دیے جو فوجی جج کے سر پر سے گزر گئے، کیونکہ اس میں تاریخ اور قانون سمجھنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ گمان یہی تھا کہ چند ماہ کی سزا دی جائے گی، مگر عدالتی فیصلے میں انہیں سزائے موت سنا دی گئی۔

12 مئی 1953 کی صبح اخبار آیا، تو میری نگاہ اس سرخی پر ٹھہر گئی: ”ابو الاعلیٰ مودودی کو فوجی عدالت نے سزائے موت سنا دی۔“ مجھے ماضی کے واقعات یاد آنے لگے اور مودودی صاحب کا باوقار، شگفتہ اور سرخ و سفید چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ میں اسی کیفیت میں صبح کی سیر کے لیے نکل کھڑا ہوا اور مسلم ٹاؤن کے قریب نہر کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ میرے قدم بوجھل ہوتے گئے ؛ آنکھوں سے سیل اشک بہہ نکلا؛ دل، جذبات کا محشرستان بن گیا اور غم دل، غزل میں ڈھلنے لگا ؎

وہ اور ہی ہوں گے کم ہمت آلام و مصائب سہ نہ سکے
شمشیر و سناں کی دھاروں پر جو حرف صداقت کہہ نہ سکے
اک جذب حصول مقصد نے یوں حرص و ہوا سے پاک کیا
ہم وقت کے آگے جھک نہ سکے، ہم وقت کی رو میں بہہ نہ سکے
جس بات پہ تم نے ٹوکا تھا اور دار پہ ہم کو کھینچا تھا
مرنے پہ ہمارے عام ہوئی، گو جیتے جی ہم کہہ نہ سکے
تھے تم سے زیادہ طاقت ور، پر چشم فلک نے دیکھا ہے
توحید کا طوفاں جب اٹھا، وہ مدمقابل رہ نہ سکے
الطافؔ محبت چیز ہے کیا، اک سوزدروں اک دردنہاں
وہ پچھلے پہر کی آہیں بنیں جو آنکھ سے آنسو بہہ نہ سکے

اب یہ خواہش دل میں ابھری کہ مولانا کو ایک نظر دیکھا جائے۔ میاں طفیل محمد جو میری مولانا کے بارے میں غزل پڑھ چکے تھے، انہوں نے میرا نام بھی قریبی رشتے داروں میں لکھوا دیا اور یوں میں ان کے ساتھ سنٹرل جیل گیا۔

ہم چار ساتھی ان کے سامنے کھڑے تھے۔ انہوں نے وہ لباس زیب تن کر رکھا تھا جو موت کی سزا پانے والے قیدی پہنتے ہیں۔ ہم سب افسردہ تھے اور ہمارے چہروں پر موت کی سی اداسی چھائی ہوئی تھی جبکہ مولانا کے بشرے پر امید کی شفق پھیلی ہوئی تھی۔ میں عالم حسرت و یاس میں پکار اٹھا:

”مولانا! اب کیا ہو گا؟“
انہوں نے پر سکوں اور پراعتماد لہجے میں جواب دیا:

”اللہ تعالیٰ مجھے زندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت مجھ سے زندگی نہیں چھین سکتی اور اگر میرا وقت آن پہنچا ہے، تو کوئی شخص مجھے زندگی نہیں دے سکتا۔ اس میں بھلا گھبرانے کی کیا بات ہے؟“

مولانا کی اس شان عزیمت اور بے مثل استقامت نے میرے ذہن پر بہت گہرا اثر چھوڑا اور میں ایک نئے عزم کے ساتھ واپس آیا۔

اسی روز خبر آئی کہ مودودی صاحب نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ فوجی عدالت کی طرف سے سزائے موت کے بعد پورے عالم اسلام میں شدید اضطراب پیدا ہو گیا اور وہاں کے حکمرانوں اور علما کی طرف سے مولانا مودودی کی رہائی کا مطالبہ شروع ہوا جو روز بروز شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی بہادری کو زبردست خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ پاکستان کے اندر بھی احتجاج کا سلسلہ شدت اختیار کر گیا۔ اس فضا میں حکومت کو مولانا کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کرنا پڑی۔ قدرت کی حکمتیں بڑی نرالی ہیں۔ عمر قید کا مرحلہ کیسے طے ہوا، اس کی روداد آپ اگلی نشست میں پڑھیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments