پہلا سالانہ جنوبی پنجاب ادبی میلہ


گزشتہ دنوں ملتان کے معروف ادیب شاکر حسین شاکر اور رضی الدین رضی نے ”کارنیلین“ کے زیر اہتما م 2۔ 3 مئی کو دو روزہ ”پہلا سالانہ جنوبی پنجاب ادبی میلہ“ کا انعقاد کیا۔ ادبی میلے کی انفرادیت یہ تھی کہ اس میں جنوبی پنجاب سے ہر مکتبہ فکر کو اپنا حصہ ڈالنے کا موقع ملا جس نے جنوبی پنجاب میں ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا۔ ادبی میلے میں جہاں شاعر حضرات کی کاوشوں کو سراہا گیا، وہاں لکھاری حضرات کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا، وہاں موسیقاروں، نغمہ نگاروں کی کارکردگی کو بھی منظر عام پر لایا گیا۔

ادبی میلے کی ایک اور انفرادیت کہ اقلیتوں کی اردو ادب میں شاندار خدمات کو شیئر کیا گیا جو یقینا اکثریت کے لئے نئی معلومات تھیں اور اُنہیں اقلیتی ہیروز کو جاننے کا بھی موقع ملا۔ اہم بات یہ کہ نہ صرف ان تمام مکاتب فکر کی خدمات کو سراہا گیا بلکہ اُن کے مسائل اور اُن مسائل کے حل کے لئے تجاویز بھی دی گئی۔ جن کا متعلقہ اداروں تک پہنچنا اور اردو ادب کی ترویج کے لئے یقینا ایک مثبت قدم ہو گا۔

ادب کے فروغ کے لئے ایسے پروگرام کا انعقاد بہت ضروری ہے جس سے اُردو ادب کی ترویج میں کردار ادا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور اُنہیں تقویت ملے تا کہ وہ اُردو ادب کی ترقی کے لئے اور زیادہ کام کریں۔ اس سلسلے میں پہلے پروگرام میں اُردو کی ترویج میں ادبی تنظیموں کا کردار کے حوالے سے پہلا پروگرام منعقد کیا گیا جس میں شرکاء کو جاننے کا موقع ملا کہ جنوبی پنجاب میں ادب کے فروغ کے لئے جو ادبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں وہ کون کون سی ہیں اور اُردو ادب کے فروغ میں اُن ادبی تنظیموں نے کس قدر گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ موجودہ دور میں اُن کے مسائل کیا ہیں اور اُن مسائل کے حل کے لئے وہ متعلقہ حکومتی اداروں کو کون سی تجاویز پیش کرتے ہیں۔

اس سلسلے کا دوسرا پروگرام ”علم و ادب اور خصوصی افراد کی مشکلات“ میں ایک مرتبہ پھر اردو ادب کے فروغ میں مشکلات پر بات کی گئی اور ان کے حل کے لئے تجاویز پر بات کی گئی۔ ادبی میلہ کے تیسرے پروگرام میں ”جنوبی پنجاب کے ادب میں اقلیتوں کا حصہ اور مسائل“ میں اقلیتی دانشوروں، لکھاریوں اور شعراء نے اُردو ادب بالخصوص جنوبی پنجاب میں اردو اب میں اقلیتوں کی گرانقدر خدمات کو شرکاء کے ساتھ شیئر کیا وہاں اُن کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اقلیتی شاعر اور لکھاری حضرات چونکہ معاشرے کے ایک کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے اہل علم ہونے کے باوجود اپنی کتب کی اشاعت نہیں کروا سکتے جبکہ حکومتی سطح پر اُن کے لئے کوئی ایسا فنڈ مختص نہیں ہے جس کے ذریعے وہ اپنی تصانیف کو شائع کروا کر عوام تک پہنچا سکیں لہذا اس ضمن میں استدعا کی جاتی ہے کہ اقلیتوں کے اس مطالبے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اقلیتی دانشوروں کی کتب کی اشاعت کو ممکن بنایا جائے۔

ادبی میلہ کے اگلے پروگرام میں اہل قلم دانشوروں کو توقیر بخشی گئی اور جہاں اُن کی ادبی خدمات کو سراہا گیا وہاں اُن کے مسائل کو بھی اُجاگر کیا گیا اور اُن کے حل کی راہیں بھی تلاش کی گئیں۔ ثقافتی و لوک موسیقی کے لئے ایک شام کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں جنوبی پنجاب کے گلوکاروں نے لوک موسیقی کے ذریعے کیا خوب سماں باندھا۔

ادبی میلے کے دوسرے روز جنوبی پنجاب کی اھل قلم خواتین کو توقیر بخشی گئی اور اُن کی جنوبی پنجاب میں خدمات کو منظر عام پر لایا گیا کہ اُنہوں نے اُردو ادب اور ہم آہنگی کے فروغ میں جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں اُن کے بارے میں شرکاء کو بتایا جائے جو یقینا شرکاء کے لئے معلومات کا باعث بنا۔ میلے کے اگلے پروگرام میں ایک ڈاکومنٹری کے ذریعے پنجاب کے رنگ دکھائے گئے۔ اس ضمن میں ایک پروگرام میں ادب کے فروغ میں میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالی گئی اور اُن کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ میلے کے آخری پروگرام میں جنوبی پنجاب کے شعراء نے اپنا کلام سُنا کر شرکاء سے خوب داد سمیٹی۔ میلے کی اختتامی تقریب میں جنوبی پنجاب کی چنیدہ شخصیات کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے خصوصی طور پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

پہلا سالانہ جنوبی پنجاب ادبی میلہ ملتان کی تاریخ میں اہم پروگرام کے طور پر مانا جائے گا اور اُمید کی جاتی ہے کہ اس سلسلے کو مستقبل میں بھی برقرار رکھا جائے گا۔ راقم سمجھتا ہے کہ یہ بہت ضروری ہے کہ جو بھی شخص انفرادی اور اجتماعی طور پر معاشرے کو خوبصورت بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے اُس کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے۔ اب وہ حوصلہ افزائی بھلے انفرادی سطح پر کی جائے یا حکومتی سطح پر لیکن اس طرح کے پروگرامز کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ تاکہ معاشرے میں زیادہ سے زیادہ لوگ جان سکیں کہ معاشرے کو خوبصورت بنانے میں کون کون سے طبقات اجتماعی اور انفرادی سطح پر کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔

اقلیتوں، نوجوانوں اور خواتین کے لئے ادبی میلہ اس لحاظ سے بہت اہم رہا کہ اُن کے مسائل کو اُجاگر کرنے کے لئے اس طرح کے موقع بہت کم میسر آتے ہیں۔ اس لئے سالانہ ادبی میلہ میں اُنہوں نے کھل کر اپنے خیالات، مسائل اور اُن کے حل پر بات کی۔ اُن کی خواہش ہے کہ اس طرح کی تقریبات کو جاری رہنا چاہیے کہ اُنہیں تقویت ملتی رہے اور وہ کام کو اور زیادہ بہتر طور پر کر سکیں۔

ان پروگراموں میں ادبی تنظیموں سے عوام کو جانکاری ہوئی ہے جیسے اقلیتی دانشوروں کا گروپ ”کرسچن رائٹر گلڈ“ کے متعلق اکثریتی عوام کو علم ہوا۔ بچوں کے متعلق بننے والی ادبی تنظیموں اور خواتین کے ادبی گروپوں سے عوام کو روشناس کرانے کا ایک نادر موقع میسر آیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عوام کے ایک بہت بڑے طبقے کو ان پروگراموں سے اپنے ادبی ہیروز کی بات چیت سننے اور اُن سے بالمشافہ ملنے کا موقع ملا جو اُن کی یادوں سے ہمیشہ جڑا رہے گا۔

ایک عام طالب علم اور عام آدمی کے علم میں ان پروگراموں میں شمولیت کے بعد یقینا اضافہ ہواہو گا کہ قومی سطح پر اردوادب کی ترویج میں جنوبی پنجاب کا حصہ بھی خاصا اہم ہے اور جنوبی پنجاب سے اتنے معتبر اور بڑے نام نکلے ہیں جنہوں نے اُردو ادب کے لئے نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں۔ یقینا وہ مستقبل میں اُسی طرز کی خدمات ادا کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں گے۔

یہاں پر اُن اداروں کو مبارکباد دینا بہت ضروری ہے جہاں پر یہ پروگرامز منعقد ہوئے وہ چاہے بہاء الدین یونیورسٹی ہو، بھلے سرائیکی سٹڈی سنٹر ہو، ملتان ٹی ہاؤس ہو، محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی ہو، ویمن یونیورسٹی ہو یا ایجوکیشن یونیورسٹی ہو۔ ان تمام اداروں کے ذریعے طلباء کے ساتھ ساتھ عام عوام کو بھی ان پروگراموں میں شمولیت کا موقع ملا ہے اور کم و بیش ملتان بھر سے شرکاء نے اس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان پروگراموں سے اُن تعلیمی اداروں سے جڑے طلباء و طالبات کو اُردو ادب کو جاننے کا موقع ملا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اُردو ادب کے فروغ کے لئے اس طرح کے پروگرامز کو جاری رکھا جائے تاکہ ہم ان تعلیمی اداروں سے نکلنے والی نسل کو انتہا پسندی سے پاک اور عدم تشدد کے فلسفے پر عمل کرنے والی نسل بنا سکیں۔ جو اس معاشرے کو پُرامن اور خوبصورت بنانے میں بلا امتیاز اپنا کردار ادا کرے اور ہم قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کا روشن خیال اور پُرامن امیج پیش کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).